دشمنِ علیؑ سے براءت ضروری ہے

اسلام میں اور خصوصاً شیعہ مکتب فکر میں، دشمنان خدا اور رسول سے براءت کرنے کو واجب قرار دیا گیا ہے۔ اس بابت قرآن میں متعدد آیات موجود ہیں۔ مگر جب حضرت علیؑ ابن ابیطالبؑ کے دشمنوں کے متعلق یہی بات کہی جاتی ہے تو بعض لوگ اعتراض کرتے ہیں۔ لہذا جب امیرالمومنین علیہ السلام کے دشمنوں پر تبرا کی بات آتی ہے تو، ایک گروہ یہ کہتا ہے کہ ہم کو امیرالمومنین علیہ السلام کے دشمنوں پر تبرا کرنے سے گریز کرنا چاہئے، کیونکہ دیگر اسلامی فرقہ ان لوگوں (ملاعین) کی تعظیم کرتے ہیں۔ اس لیے ہمارا ان لوگوں سے تبری کرنا مسلمانوں کی ناراضگی کا سبب بنتا ہے۔ اس لیے ان مسلمانوں کی خاطر اور وحدت مسلمین کے وسیع تر تقاضوں کے پیش نظر ہمیں امیرالمومنین علیہ السلام کے دشمنوں کے خلاف تبرا کرنے سے گریز کرنا چاہئے اور اس کے برعکس ہمیں بھی ان ہستیوں کا احترام کرنا چاہئے۔

جواب :
اس اعتراض کے کئ جواب دیے جاسکتے ہیں۔ مگر یہاں پر ہم قول معصوم سے استدلال کرنا بہتر سمجھتے ہیں۔ جب ہم امام محمد باقر علیہ السلام سے متعلق ایک واقعہ کی طرف رجوع کرتے ہیں تو پاتے ہیں کہ حضرت نے تبرا کی اہمیت کو اجاگر کیا ہے اور اسے امیرالمومنین علیہ السلام کے چاہنے والوں پر واجب قرار دیا ہے۔

تبرا پر امام باقر علیہ السلام نے فرمایا :
اے اللہ کے بندوں، اس قوم کا علی ابن ابی طالب علیہ السلام پر کتنا ظلم ہے اور ان کے ساتھ ان کا انصاف کتنا کم ہے، ان لوگوں نے ان کو فضائل سے محروم کردیا اور اس کے بجاۓ صحابیوں کو عطا کیا، حالانکہ علی علیہ السلام ان میں سے سب سے بہتر تھے۔ پھر وہ کیسے علی علیہ السلام کو اس مقام سے دور رکھ سکتے ہیں جو انہوں نے دوسروں کو عطا کیا ہے۔

ان سے پوچھا گیا: وہ کیسے ہوا، اے فرزند رسول صل اللہ علیہ و آلہ؟

امام باقر علیہ السلام نے فرمایا :
تم نے ابوبکر ابن قحافہ کی ولایت کو مان لیا اور ان کے دشمنوں کے خلاف تبرا کیا، وہ جو کوئی بھی ہو، اور اسی طرح تم نے عمر ابن خطاب کی ولایت کو مان لیا اور ان کے دشمنوں کے خلاف تبرا کیا وہ جو کوئی بھی ہو، اور تم نے عثمان بن عفان کی ولایت کو مان لیا اور ان کے دشمنوں کے خلاف تبرا کیا وہ جو کوئی بھی ہو، یہاں تک کہ معاملہ حضرت علی علیہ السلام تک پہنچ گیا جب تم نے کہا- تم ان کے دوستوں کی ولایت رکھتے ہو لیکن ان کے دشمنوں سے تبرا نہ کرو، بلکہ {تم دعوا کرتے ہو} کہ ہم ان سے محبت کرتے ہیں ۔

اور ان کے لیے یہ کیسے جائز ہے کہ یہ دعوی کریں جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ نے حضرت علی علیہ السلام کے بارے میں فرمادیا تھا “- اے اللہ تو اس سے محبت کر جو علی {علیہ السلام } سے محبت کرتا ہے اور ان کو دشمن رکھ جو علی {علیہ السلام} کو دشمن رکھتا ہے، اور اس کی مدد کر جو ان کی مدد کرتا ہے اور اس کو چھوڑ دے جو ان کو چھوڑ دیا”،

پھر آپ دیکھتے ہیں ان کو کہ ان لوگوں کے حضرت علی علیہ السلام کے دشمن کو دشمن نہیں رکھا نہ ہی ان کو چھوڑ دیا جو علی علیہ السلام کو چھوڑ دیا ؟

یہ انصاف نہیں ہے
دوسری ناانصافی یہ ہے کہ جب اللہ تعالی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ کی دعاؤں اور اللہ تعالی کے نزدیک آپ کی بزرگی کو جن فضاَئل سے ممتاز کیا ہے تو وہ اس کی تردید کرتے ہیں لیکن جو کچھ بھی صحابہ کرام کے لیے منقول ہے وہ اسے قبول کرتے ہیں ، وہ کون سی چیز ہے جس میں اسے حضرت علی علیہ السلام کے لیے رد کرتے ہیں اور اسے دوسرے آصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ کی طرف منسوب کرتے ہیں۔

● تفسیر امام حسن علیہ السلام صفحہ ۵۶۲
● الاحتجاج جلد ۲ صفحہ ۳۳۰
● بحار الانوار، جلد ۲۱ صفحہ ۲۳۹. تفسیر العیاشی سے سورہ توبہ {۹} آیت نمبر ۱۱۸ سے ظاہر ہے

یہ روایت تبری پر ایک روشن دلیل ہے اور اس طرح اور بہت سی دلیلیں ہماری کتابوں میں موجود ہیں کہ جن سے تبری کا وجوب ثابت ہوتا ہے۔ امیرالمومنین علیہ السلام کے تمام دشمنوں سے، قطع نظر ان دشمنوں کی حیثیت اور عزت، براءت کرنا ہر مسلمان پر فرض ہے۔ چاہے ان دشمنوں کی فہرست میں نامور اصحاب یا ازواج نبیؐ ہی کیوں نہ شامل ہوں اور مسلمانوں کے بعض طبقوں کے نزدیک ان کی تعظیم ہی کیوں نہ کی جاتی ہو۔

نبی کو اور وہ لوگ جو ایمان لاۓ ہیں، زیبا نہیں ہے کہ مشرکوں کے لیے مغفرت کی دعا کریں، چاہے وہ ان کے رشتہ دار ہی کیوں نہ ہوں، جبکہ ان پر یہ بات کھل چکی ہے کہ وہ جہنم کے مستحق ہیں۔۔۔۔مگر جب اس پر یہ بات کھل گئی کہ اس کا باپ خدا کا دشمن ہے تو وہ اس سے بیزار ہو گیا، سورہ توبہ آیت ۱۱۳-۱۱۴

اگر اس آیت میں خود اپنے باپ اور قریبی رشتہ داروں کی محبت سے روکا گیا ہے تو یہ کہاں سے سوال پیدا ہوتا ہے کہ حضرت علی علیہ السلام کے دشمنوں کی عزت کی جاۓ یا ان سے محبت کیا جائے ؟

Short URL : https://saqlain.org/so/35od