Crying 2,406

اشک عزا

Print Friendly, PDF & Email

شیعہ ہونے کی اہم ترین نشانیوں میں سے ایک نشانی یہ ہے کہ شیعہ اہل بیت پیغمبرؐ کی خوشی میں خوش ہوتا ہے اور ان کے غم میں غمزدہ ہوتا ہے۔ یہ بات اصول دین کے مسلمات میں ہے کہ کوئ شخص اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتا جب تک وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنی جان سے زیادہ محبوب نہ سمجھے اور ان کی اولاد پاک کو اپنی اولاد سے زیادہ محبوب نہ رکھے۔ اس طرح یہ دین کی اہم پہچان ہے کہ ہر مومن کے دل میں محمدؐ اور آل محمد (علیہم السلام) کے لیے محبت ہو بلکہ اس دین کی اساس ہی محبتِ اہلبیتؑ ہے۔

اس محبت کا اظہار اس بات سے بھی ہوتا ہے کہ ہم ان کی مصیبتوں کو سن کر کس قدر غمگین ہوتے ہیں۔ یہی سبب ہے کہ ائمہ اطہار علیہم السلام نے اپنے چاہنے والوں کو شہید کربلا صلوات اللہ و سلام اللہ علیہ کے غم میں آنسو بہانے کی ترغیب دی ہے۔ امام علی رضا علیہ السلام کا جملہ یہاں پر دہرادینا مناسب ہے کہ”..اے شبیب کے بیٹے! اگر تمھیں کسی پر رونا آءے تو (میرے مظلوم جد) حسینؑ پر رویا کرو کیوں کہ انھیں نہایت ہی مظلومانہ طریقے سے شہید کیا گیا..”. روایتیں بتاتی ہیں کہ ائمہ معصومین علیہم السلام ایسی مجالس کو برپا کیا کرتے تھے جن میں صرف سید الشہداء کا مرثیہ پڑھا جاتا تھا۔ اتنا ہی نہیں بلکہ ان مجالس میں پسِ پردہ گھر کی خواتین کو بھی جمع کیا جاتا تھا تا کہ وہ بھی اپنے مظلوم جد پر گریہ کریں۔ اس سلسلہ کی روایتیں کتاب بحارالانوار کی جلد ۴۴میں دیکھی جاسکتی ہیں۔ احادیث معصومین میں حسینؑ مظلوم پر گریہ کرنے کا بہت ثواب درج ہے بلکہ کتب احادیث مثلاً کتاب عوالم العلوم، بحار الانوار، کامل الزیارات وغیرہ میں باقاعدہ اس موضوع پر باقاعدہ باب مرتب کیا گیا ہے۔ اس مضمون کو مختصر رکھنے کے لیے ہم ان روایات میں سے کچھ کو یہاں نقل کر رہے ہیں۔

قَالَ ابو عبد اللہ علیہ السلام:
مَنْ ذَكَرَنَا أَوْ ذُكِرْنَا عِنْدَهُ فَخَرَجَ مِنْ عَيْنِهِ دَمْعٌ مِثْلُ جَنَاحِ بَعُوضَةٍ غَفَرَ اللَّهُ لَهُ ذُنُوبَهُ وَ لَوْ كَانَتْ مِثْلَ زَبَدِ الْبَحْرِ۔
امام جعفر صادق علیہ السلام کا ارشاد ہے “جس کو ہمارے مصائب کی یاد اس طرح دلائ جائے کہ اس کی آنکھ سے مکھی کے پر برابر بھی آنسو نکل آے تو اللہ اس کے سارے گناہ بخش دے گا چاہے وہ سمندر میں پیدا ہونے والے بلبلے جتنے ہی کیوں نہ ہوں۔”
(تفسير القمّيّ ص 616)

اس روایت سے ان اشکوں کی عظمت کا پتہ چلتا ہے۔ خدا کے نزدیک یہ گریہ کرنے والا اس قدر مکرم ہوجاتا ہے کہ خدا اس کے سارے گناہوں کو بخش دیتا ہے۔ یہ اس لیے ہوتا ہے کہ وہ خدا کہ جس کی رحمت اس کے غضب پر سبقت رکھتی ہے اس گریہ کرنے والے کو اپنی رحمت کے ساءے میں لے لیتا ہے۔ اس بات کا ذکر امام ششم کی اس روایت میں ملتا ہے۔

امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں:
“اے مسمع!…جب بھی کوئ ہمارے مصائب کو سن کر غمزدہ ہوتا ہے تو اس سے پہلے کہ اس کی آنکھ سے آنسو جاری ہو وہ خدا کی رحمت کے سائے میں ہوتا ہے۔”
(عوالم جلد ١٧ صفحہ ۵٢٩)

اسی طرح کی ایک اور روایت میں صادق آل محمدؐ کا یہ قول نقل ہوا ہے کہ
امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں
“جس کے سامنے ہمارے مصائب کا ذکر ہو اور اس کی آنکھیں اشک بار ہو جائیں تو اللہ اس چہرے کو آتش جہنم پر حرام کر دیتا ہے۔”
(کامل الزیارات ص ۱۰۴ ح ۱۰ و البحار: ۴۴/ ۲۸۵ ح ۲۲.)

ان روایات سے اس بات کا پتہ چلتا ہے کہ یہ اشک عزا گریہ کرنے والے کو خدا کی رحمت و مغفرت کا مستحق بنا دیتا ہے۔ پھر اللہ اس کے گناہوں کو درگزر کرتا ہے اور ان اشکوں کو اس کی نجات کا بہانہ بناکر اسے معاف کردیتا ہے۔
اسی طرح کی ایک اور معتبر حدیث میں ان اشکوں کی تاثیر کا ذکر اس طرح کیا گیا ہے کہ غم حسینؑ میں بہنے والے آنسو جہنم کی آگ کو بجھا سکتے ہیں۔
امام جعفر صادق علیہ السلام کا ارشاد گرامی ہے کہ
“امام حسین علیہ السلام کے عزادار کی آنکھوں سے نکلے ہوءے آنسو کا ایک قطرہ اگر جہنم میں گر جائے تو وہ اس کی آگ کو اس طرح بجھا دے گا کہ اس میں کوئ حرارت باقی نہیں رہے گی۔”
(عوالم جلد ١٧ صفحہ ۵٢٩)

یقینًا جہنم کی آگ کوئ معمولی آگ نہیں ہے۔ اس آگ کو خدا کے غیظ و غضب نے روشن کیا ہے۔ یہ وہ آگ ہے جس میں خدا کا انتقام پوشیدہ ہے۔ اس آگ سے تمام مخلوق پناہ طلب کرتی ہے۔ ائمہ معصومین اور انبیائے کرام کو اس آگ کے ذکر نے خوف میں لرزہ بر اندام کردیا ہے۔ اس آگ سے اگر کوئ بچا سکتا ہے تو وہ پرودگار کا رحم اور کرم ہے. (اٙجِرْنٙا مِنٙ النّٙارِ یٙا مُجِیْرُ: اے نجات دلانے والے ہمیں اس آگ سے آزاد کرادے)
اتنا ہی نہیں کہ سید اشہداء (علیہ السلام) پر گریہ کرنے والے شخص کو اللہ جہنم کی آگ سے نجات دیتا ہے بلکہ اس کے لیے جنت میں بھی ایک مکان تیار کر دیتا ہے۔ جیسا کہ متعدد روایات میں وارد ہوا ہے۔ اس طرح گریہ کرنے والے عزادار کے لیے یہ اشک عزا اس کے دائمی کامیابی کا پیغام ہوتے ہیں۔
بطور نمونہ یہ روایت پیش ہے کہ امام محمد باقر علیہ السلام کا فرمان ہے “میرے بابا علیؑ ابن حسینؑ (امام سجّاد علیہ السلام) فرمایا کرتے تھے:”جب بھی کوئ مومن میرے بابا حسین (علیہ السلام)پر اور شہدائے کربلا پر اس طرح گریہ کرتا ہے کہ اس کا چہرہ آنسوءوں سے تر ہوجائے تو اللہ اس کے لیے جنت میں ایک مکان تیار کردیتا ہے۔”
(تفسير القمي ٢ / ٢٩١، اہل تسنن کتاب ينابيع المودة لذوي القربى – القندوزي – ج ٣ – الصفحة ١٠٢)

اس لیے ہم سب عزاداران سید الشہداء (علیہ السلام) کو ان اشکوں کی اہمیت کا خیال رکھنا چاہیے۔ اسے کسی قدر کم یا ہلکا نہیں سمجھنا چاہیے۔ کچھ لوگ یہ کہتے ہیں کہ ‘صرف رونے سے کچھ نہیں ہوتا امام حسینؑ کا مقصد بھی سمجھنا ضروری ہے’۔ اس جملہ پر تبصرہ کرنا یہاں پر بے معنی ہے مگر ان تمام روایات میں صرف اور صرف اہلبیتؑ کی مصیبتوں پر گریہ کرنے کا ثواب و اجر بیان کیا گیا ہے کہیں بھی مقصد سمجھنے کی شرط نہیں ہے۔ اس لیے اس جملہ کا مقصد بھلے ہی قوم کی اصلاح کرنا ہو اور اصلاح کرنا بھی چاہیئے، مگر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ایک مکھی کے پر کے برابر آنکھ سے نکلا ہوا آنسو عزادار حسینؑ کی بخشش کے لیے کافی ہے وہ کسی صورت رائیگاں نہیں ہوگا۔

Short URL : https://saqlain.org/8oap

اپنا تبصرہ بھیجیں

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.