320

حضرت علی (ع) نے اپنے دور حکومت میں اپنی زوجہ جناب فاطمہ زہرا (ص) کے عمر کے ہاتھوں قتل ہونے کو بیان کیوں نہیں کیا؟ (چوتھے اعتراض کا جواب)

Print Friendly, PDF & Email

چوتھے اعتراض کا جواب

الف۔ کیا حضرت علی ابن ابی طالبؑ کی زندگی اور تاریخ کے تمام چھوٹے بڑے واقعات ہم تک پہونچے ہیں؟

ب۔ عمر بن خطاب کے بچوں نے اپنی پوری زندگی میں اپنے باپ کے ابو لولو کے ہاتھوں قتل ہونے کو کتنی بار یاد کیا ہے؟

ت۔ حضرت امیر المومنینؑ حضرت فاطمہ زہرا کو دفن کرتے وقت رسول خدا ﷺکو مخاطب کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
اس حادثہ نے میرے غم کو بڑھا دیا ہے اور میری راتوں کی نیندیں اجڑ گئیں اور مجھے سکون نہیں جب تک کہ میں آپ کے پاس نہ آجاؤ‌ں ۔ (1)

ث۔ سلیم بن قیس نے جو روایتیں حضرت علی سے نقل کی ہیں وہ آپ کے دور حکومت کے متعلق ہیں سلیم بن قیس کہتےہیں کہ:
جب میں نے عمر بن خطاب کے ظلم و ستم اور بربریت کے بارے میں حضرت علی سے پوچھا تو آپ نے فرمایا: کیا تمہیں معلوم ہےکہ عمر بن خطاب نے اپنے بقیہ کارمندوں کی طرح قنفذ پر جرمانہ اور کفارہ کیوں نہیں لگایا؟ میں نےکہا نہیں تو مولا نے فرمایا کہ جب حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہانے میرا دفاع کرتے ہوئے میرے اور حملہ آوروں کے درمیان آئیں تو قنفذ نے انہیں ایسا تازیانہ مارا کہ اس تازیانہ کا نشان جناب فاطمہ زہرا ؑکے ہاتھ پر ان کی شہادت کے وقت تک باقی رہا۔ عمر نے قنفذ سے دوستی اور اس کی مدد کے واسطے اس پر کوئی جرمانہ نہیں لگایا ۔ (2)

ج۔ عبد اللہ بن عباس فرماتے ہیں:
جنگ صفین میں (حضرت علیؑ کے دور حکومت میں) مقام ذی قار پر حضرت علیؑ کی خدمت میں پہونچا تو ایک کتاب کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: اے ابن عباس! رسول خدؐا کی کچھ فرمائشات ہیں جو میں نے اپنے ہاتھوں سے اس کتاب میں لکھا ہے۔ ابن عباس کہتے ہیں کہ میں نے حضرت علیؑ سے اس کتاب کے پڑھنے کی خواہش ظاہر کیا تو مولا نے اس کتاب سے ان واقعات کو مجھے بتایا جو حضور اکرؐم کی رحلت کے بعد رونما ہوئے تھے از جملہ وہ مظالم جو حضرت علیؑ و فاطمہ زہراسلام اللہ علیہما پر ہوئےتھے ۔(3)
تو کیا حضرت علیؑ کو اس سے زیادہ کچھ اور بھی بتانا چاہئے تھا؟
خواب غفلت میں پڑے ہوئے لوگوں کو بیدار کرنے کے لئے ایک اشارہ ہی کافی ہوتا ہے۔ لیکن اگر جان بوجھ کر لوگ خواب غفلت میں پڑے رہیں تو اب اگر حضرت علی ؑ ہزار بار بھی ان واقعات کی طرف اشارہ کرتے یا بتاتے تب بھی وہ لوگ بیدار اور متوجہ نہ ہوتے!

ھ۔ پیغمبرؐ کی حکمت عملی کے تحت سماجی سیاسی وجوہات اور اس وقت کے معاشرے کے حساس حالات کی وجہ سے حضرت علیؑ کےپاس ماضی کی تلخ یادوں کو کھلے دل سے یاد کرنے اور دہرانے کی کوئی وجہ نہیں تھی۔
البتہ ایسا نہیں ہے کہ حضرت امیرؑ کی اس پالیسی کے نفاذ سے آپ نے کچھ لوگوں کے مظالم اور جرائم کو مکمل طور پر فراموش کردیا ہو اور کبھی ان کا ذکر نہ کیا ہو۔ خطبہ شقشقیہ اور دوسرے متعدد بیانات میں ابو بکر و عمر اور عثمان پر ان کی واضح تنقید سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ جب بھی مناسب موقع دیکھتے تھے گزشتہ حکمرانوں پر تنقید اور اعتراض کرتے تھے۔
——————————————————————————–
(1) ۔ ((أما حزنی فسرمد و أما لیلی فمسھّد))۔ نھج البلاغہ، ص۴۲۲۔ ۴۲۳، خطبہ، ۲۰۲، و الکافی، ج۱، ص۴۵۹، کتاب الحجۃ، باب مولد الزہراء، ح۳۔
(2) ۔ ((فسألتہ عما صنع عمر، فقال: ھل تدری لم کف عن قنفذ و لم یغرمہ شیئاً؟ قلت: لا، قال: لأنہ ھو الذی ضرب فاطمة بالسوط حین جائت لتحول بینی و بینھم، فماتت صلوات اللہ علیھا و انّ أثر السوط لفی عضدھا مثل الدملج))۔ کتاب سلیم بن قیس، ص۶۷۴، الحدیث الثالث عشر۔
(3) ((فکان فیما قرأہ علیّ: کیف یصنع بہ و کیف یستشھد فاطمة و کیف یستشھد الحسن ابنہ))۔ کتاب سلیم بن قیس، ص۹۱۵، الحدیث السادس و الستون۔

Short URL : https://saqlain.org/613c

اپنا تبصرہ بھیجیں

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.