1,074

عقد ام کلثوم : ایک تبصرہ

Print Friendly, PDF & Email

مسلمان اپنے خلفاء کے غلط کاموں کی تاویل میں دن رات ایک کیے رہتے ہیں ، مگر آخر کار لاحاصل ، ان کے ہاتھ ناکامی کے سوا کچھ بھی نہیں آتا ، مگر کوششیں ہیں کہ ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہی ہیں۔ اس کوشش میں وہ یا تو تاریخی حقائق کا سرے سے انکار کردیتے ہیں یا ریڈی میڈ جعلی روایات و تاریخی واقعات کا سہارا لیتے ہیں۔ ان کی ہمیشہ سے یہی کوشش رہی ہے کہ اپنے لوگوں کو یہ اطمینان دلائیں کہ سقیفائ خلفاء اور اہلبیتؑ پیغمبرؐ میں اچھے مراسم تھے۔ وہ اپنے مریدوں کو یہ باور کرنا چاہتے ہیں کہ شیعوں کا یہ دعویٰ جھوٹا ہے کہ خلفاء نے آل رسولؐ پر ظلم ڈھایا ہے۔ اسی سلسلے کی ایک اہم کڑی ان کے مطابق خلیفہ دوم کا حضرت علیؑ کی دختر ام کلثوم سے عقد کرنا ہے۔ اہل تسنّن کے اکثر خطباء کا یہ کہنا ہے کہ حضرت علیؑ نے اپنی دختر ام کلثوم کی شادی خلیفہ دوم عمر سے کی تھی اس سے یہ پتہ چلتا ہے کہ اہلبیتؑ نبیؐ اور خلفاء کے درمیان کوئی عداوت نہیں تھی دشمنی ہونا تو دور ان کے درمیان آپسی رشتہ داریاں بھی تھیں۔ یہ دونوں ایک دوسرے کا احترام کرتے تھے اور ان میں باہمی الفتیں اور محبتیں بھی ہوا کرتی تھیں۔ اس عقد کی داستان سے وہ ایک اور مقصد حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور وہ یہ کہ خلیفہ دوم کو جناب فاطمہ (س) پر کئے گئے مظالم سے بری کردیا جائے۔ وہ کہتے ہیں کہ اگر یہ بات صحیح ہوتی کہ عمر اور ان کے ساتھیوں نے دخترِ رسول (ص) کو شہید کیا ہے اور جناب سیدہ (س) مرتے دم تک شیخین سے ناراض رہیں تو یہ کیسے ممکن ہے کہ حضرت علیؑ ان ہی کی دختر کا نکاح عمر سے کر دیں؟
اس سوال کا جواب مدلل طریقوں سے شیعہ علماء دیتے رہے ہیں۔

پہلی بات تو یہ کہ بعض اہل تسنّن اور بہت سے شیعہ علماء اس عقد کی بات کو قبول ہی نہیں کرتے۔ شیعہ علماء میں شیخ مفید رحمۃ اللہ علیہ سے لے کر دور حاضر کے محقق گرانقدر آیۃ اللہ آقای سید علی میلانی حفظہ اللہ نے اس نکاح کو ایک افسانہ بتایا ہے۔ آقا بزرگ تہرانی نے اپنی تالیف ‘الذريعہ’ میں ان کتب کی ایک فہرست دی ہے جو اس نکاح کے رد میں لکھی گئی ہیں۔ مثلًا
• کنز مکتوم فی حل عقد ام کلثوم”، تألیف: سید علی اظہر الہندی
• العجالہ المفحمہ في ابطال روايہ نکاح ام کلثوم” تألیف: سید مصطفی دلدار علی النقوی
• قول محتوم فی عقد ام کلثوم”؛ تألیف: سیدکرامت علی ہندی وغیرہ
اس انکار کی ایک وجہ یہ بھی ہے جسے شیخ مفید نے اپنی کتاب ‘المسائل السرویہ’ میں بیان کیا ہے انھوں نے اس عقد کو رد کرتے ہوئے استدلال کیا ہے کہ تزویج ام کلثوم ثابت نہیں ہے کیونکہ متعلقہ روایت ‘زبیر بن بکار’ سے منقول ہے ، یہ شخص متہَم ہے اور امیرالمؤمنینؑ کے ساتھ بغض کے حوالے سے مشہور ہوا ہے (المسائل السرویہ، ص86 و 87۔)

جبکہ عصر حاضر کے بزرگ عالم سید علی میلانی نے دو عناوین کے تحت اس مسئلے کا تجزیہ کیا ہے: “تزویج ام کلثوم من عمر” اور “فی خبر تزویج ام کلثوم من عمر”۔
دوسرے یہ بات کہی جاتی ہے کہ جب یہ عقد طئے پایا تو ام کلثوم کی عمر بہت کم تھی۔ پھر بھی عمر نے زبردستی حضرت علیؑ اور ان کے چچا عباس پر زور دیا کہ یہ نکاح کروایا جائے۔ اہل تسنّن ماخذ میں مروی ہے کہ اس سلسلے میں خلیفہ ثانی نے کہا: نکاح میں نے خواہشات نفسانی کی بنا پر نہیں بلکہ اس حدیث کی وجہ سے انجام دیا ہے جو میں نے رسول خداؐ سے سنی ہے ۔ بقول ان کے وہ حدیث یہ ہے کہ پیغمبر اکرمؐ نے فرمایا: “قیامت کے دن ہر نسب اور سبب منقطع ہوگا سوائے میرے ساتھ نصبی اور سببی رشتے کے”۔
[ سنن بیہقی، ج7، ص64 ]

یعنی عمر چاہتے تھے ام کلثوم بنت فاطمہ بنت محمد (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے ذریعہ وہ رسول اسلام سے سببی رشتہ جوڑ لیں۔
جواب: فرض کریں کہ یہ روایت درست بھی ہو جس سے خلیفہ ثانی اور اہل سنت نے استناد کیا ہے، مگر اس سببی رشتہ سے فائدہ تب ہی ہوگا جب خود آنحضرت اس سے راضی ہوں۔ لہذا اس کے لیے شرط یہ ہے کہ پیغمبر اکرمؐ ان سے راضی و خوشنود ہوں ورنہ حضورؐ کے بعض رشتہ دار تو ابو جہل اور ابو لہب جیسے بھی ہیں۔ کیا قیامت کے دن وہ بھی امان میں ہوں گے؟ کتنی عجیب بات ہے کہ سببی رشتہ کا فائدہ عمر کو ہوسکتا ہے مگر نصبی اور سببی رشتہ کا فائدہ حضرت ابوطالبؑ کو نہیں ہوسکتا۔
دوسری جانب عمر نے قبل ازاں اپنی بیٹی حفصہ کا نکاح رسول خداؐ سے کرایا تھا اور مطلوبہ سببی رشتہ قائم ہوچکا تھا۔ اس لیے دوبارہ کسی عقد کی کیا ضرورت ہے؟؟
لھذا یہ ایک افسانہ ہے اور کچھ نہیں۔

Short URL : https://saqlain.org/ij92

اپنا تبصرہ بھیجیں

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.