حضرت علیؑ كا احتجاج – اور نظريہٴ عدالت صحابہ

مقدّمہ

بعض کہتے ہیں : امیرالموٴمنین علی  نے نہج البلاغہ میں پیغمبر اکرمﷺ کے بعض اصحاب پر اعتراض کیا ہے اور غصب خلافت کی نسبت سے ان کی توہین ہوئی ہے۔ اور دوسری طرف چونکہ تمام صحابئی رسول عادل ہیں لہٰذا ممکن نہیں ہے کہ نہج البلاغہ میں اس طرح کاخطبہ امیر الموٴمنین علی  کے کلام کا حصہ کہا جائے، مگر محکم دلیل اور قطعی برھان سے بعض اصحاب کے فاسق اور منافق ثابت ہو جانے سے یہ اعتراض خود بخودختم ہو جائے گا۔[1]

مگر سب سے پہلے: ‘صحبة ’ لغت میں معاشرت یعنی زندگی گزارنا چاہے تھوڑی مدت کے لئیے ہو یا دراز مدت کیلئے چاہے یہ دو مسلمان لوگوں کے درمیان ہو یا کافر و مسلمان کے درمیا ن ہو۔[2]

اسلام کے تمام فرقے اس بات پر اتفاق نظر رکھتے ہیں لفظ صحابہ اصطلاحی طور سے ان تمام لوگوں کو شامل کرتا ہے جو اسلام لائے یا اسلام کو ظاہر کرتے ہیں۔ اہلسنت کے بہت سے لوگ اسی معنائے وسیع کی بنیاد پر تمام صحابہ کو عادل مانتے ہیں مگر دوسرے اسلامی فرقے اس نظریہ کو باطل قرار دیتے ہیں اس لئے کہ ایسی کوئی دلیل نہیں ہے کہ جو تمام صحابہ کو عادل قرار دے بلکہ دنیا کی دیگر قوموں کے درمیان نیز تمام انبیاء علیہم السلام کے ساتھیوں کے مانند خود آنحضرتﷺ کے چاہنے والوں کے درمیان بھی اچھے خراب نیک و بد اور صالح و منافق و فاسق افراد پائے جاتے تھے خدا وند عالم نے قرآن کریم میں بھی تینوں گروہ کی طرف اشارہ فرمایا ہے بلکہ قرآن کی سوروں میں سے ایک سورہ تو منافقین کے نام ہی سے نازل ہوا ہے۔

اس بناء پر اصحاب پیغمبر اکرمﷺ تین گروہ (عادل ،فاسق ،منافق) میں تقسیم ہوتے ہیں۔

‘‘تمام صحابہ عادل ہیں’’ کا نظریہ درست نہیں ہے اس لیئے کہ :

۱)       یہ نظریہ خود قرآن کریم کے خلاف بھی ہے اور قرآن کی بعض آیتوں سے ٹکرا رہا ہے اس کے تین نمونے نقل کیئے جا رہے ہیں۔

پہلا نمونہ

خدا وند عالم ارشاد فرماتا ہے :

وَ مَنْ اَظْلَمَ مِمَّنِ افْتَرَىٰ عَلَى اللهِ الْكَذِبَ وَ هُوَ يُدْعٰى اِلَى الْاِسْلٰامِ وَاللهُ لَا يَهْدِى الْقَوْمَ الظَّالِمِيْنَ.[3]

اور اس سے بڑا ظالم کون ہو گا جو خدا پر جھوٹا الزام لگائے جب کہ اسے اسلام کی دعوت دی جا رہی ہو اور اللہ کبھی ظالم قوم کی ہدایت نہیں کرتا ۔

یہ آیت عبداللہ بن ابی کے بارے میں نازل ہوئی ہے (جسے بعد میں عثمان نے مصر کا والی بنایا تھا )یہ وہی شخص ہے جس نے خدا پر بہتان اور افتراء لگایا تھا اور آنحضرتﷺ نے اس کے خون کو مباح قرار دیا تھا اور فرمایا اسکا قتل مباح ہے چاہے وہ کعبہ کے پردے ہی سے کیوں نہ چپکا ہو۔

سیرہٴ حلبیہ کے موٴلف (باب فتح مکہّ میں) لکھتے ہیں عثمان فتح مکہ کے دن اسے رسول اللہ کے پاس لائے اور اسکے لیئے امان مانگی رسول اللہ تھوڑی دیر خاموش رہے تاکہ شاید اس قافلے میں کوئی اسے قتل کردے جیسا کہ خود آنحضرت نے بعد میں فرمایا۔لیکن کسی نے اسے قتل نہیں کیا پیغمبر اکرمﷺ نے مصلحت جان کر اسے امان دے دیا۔

دوسرا نمونہ

خدا وند عالم ارشاد فرماتا ہے:

وَ مِنْهُمْ مَّنْ عَاهَدَ اللهَ لَئِنْ اٰتَانَا مِنْ فَضْلِهٖ لَنَصَّدَّقَنَّ وَ لَنَكُوْنَنَّ مِنَ الصَّالِحِيْنَ . فَلَمَّآ اٰتَاهُمْ مِّنْ فَضْلِهٖ بَخِلُوْا بِهٖ وَ تَوَلَّوْا وَّ هُمْ مُّعْرِضُوْنَ . فَاَعْقَبَهُمْ نِفَاقًا فِىْ قُلُوْبِهِمْ اِلٰى يَوْمِ يَلْقَوْنَهٗ بِمَآ اَخْلَفُوا اللهَ مَا وَعَدُوْهُ وَ بِمَا كَانُوْا يَكْذِبُوْنَ .[4]

اور ان میں وہ بھی ہیں جنہوں نے خدا سے عہد کیا کہ اگر وہ اپنے فضل و کرم سے عطا کر یگا ، تو اسکی راہ میں صدقہ دینگے اور نیک بندوں میں شامل ہو جائینگے اس کے بعد جب خدا نے اپنے فضل سے عطا کر دیا تو بخل سے کام لیا اور کنارہ کش ہو کر پلٹ گئے تو انکے بخل نے انکے دلوں میں نفاق راسخ کر دیا اس دن تک کے لیئے جب وہ خدا سے ملاقات کرینگے اس لیئے کہ انہوں نے خدا سے کیئے ہوئے وعدے کی مخالفت کی ہے اور جھوٹ بولے ہیں۔

سورہ توبہ کی یہ آیتیں ثعلبہ بن حاطب کی داستان کی طرف اشارہ کر رہی ہیں اس نے رسول اللہ سے درخواست کیا حضور خدا وند متعال سے میری درخواست کیجئے کہ مال دے دے پیغمبر اکرم ﷺ نے فرمایا: اے ثعلبہ وائے ہو تیرے اوپر تھوڑے مال پر شکر بجالانا بہتر ہے ہو سکتا ہے زیادہ مال پر شکر بجالانے کی طاقت نہ ہو۔

ثعلبہ بن حاطب نے کہا : اس خدا کی قسم جس نے آپ کو مبعوث فرمایا ہے اگر اس نے مجھے مال اور ثروت عطا کیا تو میں حق دار کا حق ضرور ضرور ادا کردوں گا۔

اسکے بعد آنحضرت ﷺ نے اسکے لیئے دعا فرمادی خدا وند عالم نے اسکے مال میں برکت عطا کردی اور بہت مال دار ہو گیا جب رسول اللہ نے زکاة طلب فرمایا تو بخل کرنے لگا اور اسی پر اکتفا نہیں کیا کہنے لگا یہ تو ایک قسم کا ٹیکس اور جزیہ ہے میں تو ایک مسلمان ہوں جزیہ نہیں دونگا آخر کار زکاة نہیں دی (آیت نازل ہو گئی آپ نے اسکی اطلاع کر دی ) لکھا ہے کہ آنحضرتﷺ کی وفات کے بعد ابوبکر کے پاس زکاة اموال بھیجی لیکن انھوں نے قبول کرنے سے انکار کر دیا۔عمر کا زمانہ آیا ان کے پاس بھی روانہ کیا انھوں نے بھی واپس کر دیا جب عثمان کا دور آیا تو وہ ہلاک ہو گیا ۔[5]

تیسرا نمونہ

خدا وند عالم فرماتا ہے :

اَفَمَنْ كَانَ مُؤْمِنًا كَمَنْ كَانَ فَاسِقًا، لاَ يَسْتَوٗنَ.

کیا وہ شخص جو صاحب ایمان ہے اس کے مثل ہو جائیگا جو فاسق ہے۔ہرگز نہیں دونوں برابر نہیں ہو سکتے۔[6]

شیعہ اور سنی دونوں کے محدثین و مفسرین اس بات پر متفق ہیں کہ موٴمن سے مراد علی ابن ابی طالب علیہما السلام اور فاسق سے ولید بن عقبہ مراد ہے (اور یہی فاسق ولید عثمان کی طرف سے کوفہ کا والی بنایا گیا تھا اس کے بعد معاویہ کی طرف سے مدینہ کابھی والی مقرر ہوا تھا )۔[7]

(اس کی داستان اس طرح ہے کہ حضرت علی علیہ السلام اور ولید بن عقبہ کے درمیان کسی موضوع پر بحث ہو گئی ولید نے کہا میری زبان آپ سے زیادہ فصیح ہے میرا نیزہ آپ سے زیادہ تیز تر ہے اور میری قوت دفاع آپ سے زیادہ مستحکم ہے تو آپ نے اس پُر غرور انداز بیان کے جواب میں فرمایا :‘اسكت یا فاسق’اور آیت کریمہ نازل ہوئی کہ مومن و فاسق ایک جیسے نہیں ہو سکتے ہیں)۔

تو کیا : اب بھی تمام صحابہ کے عادل ہونے کا نظریہ قابل قبول ہو سکتا ہے جبکہ:پہلے نمونے میں یہ بات گزر گئی کہ عبد اللہ بن اُبی تمام مخلوقات میں سب سے زیادہ ظالم اور ستمگر واقع ہوا ہے اور محال ہے کہ ہدایت ملی ہو اس لئے کہ خدا وند متعال ستمگروں کی ہدایت نہیں کرتا ہے۔

دوسرے نمونے میں یہ بات آشکار ہو گئی کہ ولید بن عقبہ جہنمی اور فاسق ہے آتش جہنم سے اس کے لیئے کوئی نجات کا راستہ نہیں ہے (وہ ایسا شخص ہے جس نے کوفہ میں اپنی گورنری میں نماز صبح کو حالت مستی میں چار چار رکعت پڑھائی اور کہا اگر چاہئیے تو اور پڑھا دوں )۔

مگر ان تمام حقائق کے با وجود اہلسنت یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ یہ تینوں افراد (عبد اللہ بن ابی، ثعلبہ بن حاطب ، اور ولید بن عقبہ) چونکہ صحابی ہیں اس لئے عادل ہیں اور ان کی تکذیب کرنا جائر نہیں ہے بلکہ وہ پاک و پاکیزہ ہیں نیز اہل بہشت سے ہیں ان میں سے کوئی بھی جہنم میں داخل نہیں ہو گا۔

حکم خدا زیادہ سزاوار ہیکہ اسے قبول کیا جائے یا تعصب اور اندھی تقلید جو بغیر تعارض کے نہیں ہے جیسے

(۱)      ‘ذوالثدیة’ پیغمبر اکرم ﷺ کے ا ن صحابیوں میں سے تھا جوظاہر ی طور سے عابد و زاھد معلوم ہو تا تھا لوگ اس کی کثرت عبادت سے حیرت زدہ اور متعجب تھے تمام صحابہ عادل ہیں كا نظریہ سنت پیغمبر سے تعارض کا بہترین نمونہ ہے۔ اس لئے کہ آنحضرتﷺ مسلسل فرماتے تھے یہ ایسا انسان ہے جس کے چہرے پر شیطان کی علامت پائی جاتی ہے ۔

ابن حجر عسقلانی کتاب الاصابة فی تفسیر الصحابہ جلد ۱ ،ص ۴۳۹ پر نقل کرتے ہیں کہ پیغمبرﷺنے ابو بکر کو اسے قتل کر نے کے لیئے بھیجا مگر ابوبکر نے جب اسے حالت نماز میں دیکھا تو قتل کیئے بغیر واپس آ گئے اس کے بعد رسول اللہﷺ نے عمر کو بھیجا تا کہ وہ قتل کر دیں انھوں نے بھی آنحضرت کی نا فرمانی کی اور قتل نہیں کیا اس کے بعد علی ابن ابی طالب علیہ السلام کو بھیجا مگر علی علیہ السلام نے اسے نہ پایا اس لیئے کہ وہ مسجد سے چلا گیا تھا۔

سوال: کیا ممکن ہے اللہ کا رسول فرمائے کہ ایک (عادل صحابی )کے چہرے پر شیطان کی علامت پائی جاتی ہے (اس کے با وجود ) حکم دیں کہ اسے قتل کر دو؟

البتہ یہی ذوالثدیہ علی بن ابی طالب علیہ السلام کاسخت دشمن تھا ،اور خوارج کا پیشوا تھا اور جنگ نہروان میں ہلاک ہوا (جیسا کہ رسول اللہﷺ نے اس بات کی اطلاع امیرالموٴمنین علی علیہ السلام کو دی تھی )

۲۔      احمد بن شعیب نسائی نے خصائص امیرالموٴمنین ص۔۲۳۸ (باب۵۹ حد یث۱۷۹)میں ابو سعید سے روایت کی ہے،ہم رسول اللہ کے پاس بیٹھے ہوئے تھے آنحضرتﷺ مال غنیمت تقسیم کر رہے تھے اتنے میں قبیلہٴ بنی تمیم سے تعلق رکھنے والا شخص ذوانحویصرہ وارد ہوا اور کہا : اے رسول اللہ ذرا عدل سے کام لیجئے آنحضرت نے فرمایا : اگر میں عدل سے کام نہیں لوں گا تو کون لے گا ؟اگر میں انصاف نہیں کروں گا تو برا عمل ہو گا اور میں گھاٹا اٹھانے والوں میں سے ہوں گاعمر نے بڑھ کر رسول اللہ سے اجازت طلب کی کہ آپ اجازت دیں اسے قتل کر دوں آنحضرتﷺ  نے اجازت نہیں دی اور فرمایا: وہ ایسے لوگوں کا ساتھی ہے یعنی اسکے ایسے افراد دوست ہیں جنکی نمازوں کے مقابلے میں تم اپنی نماز و روزہ کو ہیچ سمجھتے ہو،یہ لوگ قرآن کی تلاوت کرتے ہیں مگر قرآن ان کے گلے سے نیچے نہیں جاتا ہے یہ لوگ اسلام سے اسی طرح خارج ہو جائیں گے جس طرح شکار کے لیئے کمان سے تیر خارج ہو جاتا ہے اور کوئی لغزش نہیں ہوتی ہے اگر تیر انداز تیر کے نوك یا اسے ملاحظہ کرے تو ہر گر نہیں دیکھ سکتا ان سیاہ چہرہ لوگوں کی علامت یہ ھیکہ ان کے ایک بازو پر پستان یا گوشت کے ٹکڑے کے مانند حرکت کی حالت میں ہے (ذوالثدیہ کی طرح) یہ لوگ بہترین خلق پر خروج کریں گے۔

ابو سعید کہتے ہیں : میں گواہی دیتا ہوں کہ آنحضرتﷺ سے میں نے اسی حدیث کو سنا ہے اور گواہی دیتا ہوں کہ علی بن ابی طالب علیہما السلام نے ان لوگوں سے جنگ کی اور میں ان کے ہمراہ تھا جنگ میں آپ نے فرمایا مقتولوں کے درمیان سے اسے ڈھونڈ ھ کے لاوٴ لوگوں نے اسے تلاش کیا اور لے کر علی علیہ السلام کے پاس حاضر ہوئے میں نے غور سے دیکھا تو اسے اسی طرح پایا جیسے رسول اللہ نے فرمایا تھا۔

3۔      سیرة ابن ھشام ج ۳ ،ص ۲۳۵ میں ہے اصحاب پیغمبر کا ایک گروہ ایک گھر میں جمع تھا اور لوگوں کو رسول اللہﷺ کے پاس آنے سے روک رہا تھا لہٰذ رسول اللہﷺکے حکم سے اس گھر کو جلا دیا گیا۔

۴۔      کنز العمال میں متقی ہندی لکھتے ہیں : حکم بن عاص بن امیہ عثمان بن عفان کا چچا اور مروان بن حکم کا باپ یہ ایسا شخص ہے جس پر رسول اللہ نے لعن فرمایا اور اسکی نسل اور سلب پر بھی لعن فرمایا ہے اور فرمایا : وائے ہو میری اس امت پر جو حکم بن عاص کی صلب میں پائے جاتے ہیں۔

ام الموٴمنین عائشہ کی حدیث میں آیا ہے کہ انھوں نے مروان سے کہا : میں گواھی دیتی ہوں کہ رسول خدا نے تیرے باپ اور تجھ پر جب تو اسکے صلب میں تھا تو لعنت کی تھی۔

حکم بن عاص کو رسول اللہ نے مدینئہ منورہ سے طائف کے نزدیک‘ مرج ’کی طرف تبعیدکر دیا تھا اور مدینہ میں اس کے داخلہ کو حرام کر دیا تھا عثمان بن عفان نے آنحضرت کی وفات کے بعد اپنے چچا حکم بن عاص کی شفاعت کے لیئے ابوبکر کے پاس آئے اور کہا آپ اجازت دے دیجئے تا کہ وہ مدینہ واپس آ جائے لیکن انھوں نے قبول نہیں کیا اس کے بعد عمر سے سفارش کی انھوں نے بھی قبول نہیں کیا مگر جب خود عثما ن کرسئی اقتدار پر برجمان ہوئے تو اپنے چچا حکم بن عاص کو (حکم اور فرمان پیغمبر اکرمﷺ نیز سیرة شیخین کے خلاف ) عزت و احترام کے ساتھ مدینہ واپس بلالیا اس کے علاوہ ایک لاکھ درھم بھی دیا اور اس کے بیٹے مروان کو اپنا مشاور بنا لیا جس کے بعد اسی مروان نے اپنی کرتوترں کی بنیاد پر خلیفہ کے قتل کے اسباب بھی فراہم کیا لوگ اسے‘ نخ باطل’ کے لقب سے یاد کرتے تھے اور اسی مروان نے بعد میں شام میں خلیفہٴ مسلمین کے عنوان سے کرسی اقتدار پر قبضہ جما یا۔

۵۔      سیرہٴ ابن ھشام میں ہے کہ اصحاب پیغمبر اسلام میں سے بارہ افراد تھے جو منافق تھے مسلمانو ں کے درمیان اختلاف پیدا کرنے کی غرض سے مسجد ضرار کی بنیاد رکھی اور لوگوں کے سامنے یہ آشکار کیا کہ اس مسجد کو اللہ تعالیٰ کی خوشنودی اور اس کی رضا کے لیئے بنایا ہے مگر آنحضرت ﷺ کے حکم سے اسلام و مسلمانوں کے خلاف بنایا گیا سازش کا مرکز نابود کر دیا گیا۔

یہ تمام امور جنہیں رسول اللہﷺ سے نقل کیا اور اسکے علاوہ دوسرے دسیوں مواردتاریخ کے دامن میں موجود ہیں جو (تمام صحابہ عادل ہیں كےنظریہ)کو باطل قرار دیتے ہیں اس لئے كہ پیغمبر اسلام جن لوگوں کے قتل کا فرمان صادر فرمائیں یا جن کے گھروں کو نابود یا جلا دینے کا دستور فرمائیں وہ ہرگز ہر گز عادل نہیں ہو سکتے ہیں اسی طرح وہ لوگ جو قرآن کریم کی صریح آیتوں کے مطابق مسجد ضرار بناتے ہیں تا کہ مسلمانوں کے درمیان اختلافات پیدا کرسکیں جبکہ منافق بھی ہیں کیسے ہو سکتا ہے کہ وہ عادل ہوں انکی عدالت اور انکا انصاف پسند ہونا سنت نبوی کے مخالف ہے۔

خود فیصلہ کریں  ان دو باتوں میں سے کسے تسلیم کیا جائے:

۱۔       پیغمبر اسلام کی سنت و سیرت

۲۔      یا اندھے اور متعصب مقلدین کی اندھی تقلید

خلاصہ اب تک کی تمام باتوں سے تمام صحابہ کے عادل ہونے کا نظریہ باطل ہوجاتا ہے اور نظریہ کے باطل ہونے سے نہج البلاغہ کے سلسلے میں ہونے والا اعتراض اورشبہ بھی سرے سے ختم ہو جاتا ہے اس لئے کہ اس بات میں کون سا عیب اور اعتراض نظر آتا ہے کہ امیرالموٴمنین علیہ السلام کچھ اسباب کی بناء پر آنحضرتﷺ کے بعض اصحاب پر اعتراض و احتجاج کریں اور ان کے برے اعمال و نا جائز سلوک سے اپنی نا رضایتی کا اظہار کریں۔

اور اسی کے ساتھ امیرالموٴمنین علیہ السلام نے آنحضرت ﷺ کے با وفا اور جاں نثار اصحاب کا شایان شان احترام و اکرام میں بلند اوصاف و کردار کا اظہار بھی فرمائیں۔

آپ ارشاد فرماتے ہیں : ‘‘لقد رأيت اصحاب محمد صلى الله عليه و آله وسلم فما رأى احدا يشبهم…’’[8]

(میں نے اصحاب پیغمبر کو ایسا پایا کہ ان کے ما نند کسی کو نہیں دیکھا ہے وہ صبح اس حالت میں گزارتے تھے کہ انکے غبار آلود چہرے آشکار ہوتے تھے ان کی راتیں سجدہ ،قیام ،اور عبادتوں میں بسر ہوتی تھیں وہ اپنی پیشانی اور چہروں کو بارگاہ خدا وند متعال میں نوبت بہ نوبت خاک میں رکھتے (یعنی کبھی پیشانی اور کبھی چہرہ زمین پر رکھتے) وہ معاد اور قیامت کی یاد سے اس طرح مضطرب و پریشان ہو جاتے تھے جیسے آگ پر کھڑے ہوں انکی پیشانیوں پر سجدوں کے اسطرح نشان تھے جیسے جاندار کے گھٹنے پر گھٹہ پڑ جاتا ہے نام خدا پر وہ اس قدر گریہ کرتے تھے کہ ان کے گریبان آنسووٴں سے تر ہو جاتے تھے نیز آندھیوں میں درخت کے مانند لرزتے تھے عذاب سے خوف زدہ تھے (البتہ)جزا کے امید وار تھے )



[1]       نقل از مقدمہ شیخ محی الدین عبدالحمید بر شرح نہج البلاغہ شیخ محمد عبیدہ

[2]       اسدالغابۃ ابن اثیر،ج 1، ص ۳

[3]       سورہٴ صف، آیت  ۷

[4]       توبہ/آیت ۷۷-۷۵

[5]       تفسیر فتح القدیر شوکانی جلد ۲،ص۱۸۵ و تفسیر ابن کثیر دمشقی ج۲،ص ۲۷۳،تفسیر خان ج۲،ص۱۲۵،تفسیر بغدی و تفسیر طبری ج۶،ص۱۳۱

[6]       سورہٴ سجدہ، آیت 18

[7]       شواھد التنزیل جسکانی حنفی ص ۴۵۳-۴۴۵،۶۲۶-۶۱۰ و مناقب مغازلی ص ۳۲۴ و ۳۷۰،۳۷۱ والکشاف زمخشری ج ۳،ص۵۱۴

[8]       نہج البلاغہ خطبہ ۹۷ ص۱۴۵-۱۴۳مطبع دار الثقلین قم

Short URL : https://saqlain.org/1e3e