بخش پنجم: امام حسین کی عزاداری معصومین کی سیرعت میں
الف:کربلا واقع ہونے سے بہت سال پہلے اما م علی علیہ السلام کا گریہ
شیعہ حدیثی منابع میں امیر المؤمنین علیّ بن أبی طالب علیہ السلام کی متعدد روایات ہیں جن میں وہ اپنے بیٹے امام حسین کی شہادت کی خبر سن کر روتے ہیں۔ یہاں دو مثالیں اہل سنت کے حدیثی منابع سے پیش کرتے ہیں۔ نُجَیّ حضرمی کہتا ہے
انه سار مع علی رضی الله عنه وکان صاحب مطهرته فلما حاذی نینوی وهو منطلق إلی صفین فنادی علی اصبر أبا عبد الله اصبر أبا عبد الله بشط الفرات قلت وما ذاک قال دخلت علی النبی صلی الله علیه وسلم ذات یوم وإذا عیناه تذرفان قلت یا نبی الله أغضبک أحد ما شأن عینیک تفیضان قال بل قام من عندی جبریل علیه السلام قیل فحدثنی ان الحسین یقتل بشط الفرات قال فقال هل لک ان أشمک من تربته قلت نعم قال فمد یده فقبض قبضه من تراب فأعطانیها فلم أملک عینی ان فاضتا.
جب علی علیہ السلام صفین جا رہے تھے، نینوا میں رک کر بلند آواز میں فرمایا: اے ابو عبد اللہ، فرات کے کنارے صبر کرنا، یہ دو بار کہا۔ میں نے پوچھا: یہ کیا ہے؟ فرمایا: میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گیا، دیکھا ان کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے ہیں۔ میں نے پوچھا: کیا کسی نے آپ کو ناراض کیا؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جبریل آئے اور بتایا کہ حسین کو فرات کے کنارے قتل کیا جائے گا، اور انہوں نے مٹی دی۔
مجمع الزواید، هیثمی، ج ۹، ص ۱۸۷
حیثمی روایت کو نقل کرنے کے بعد اپنی نظر اس طرح سے بیان کرتے ہیں:
رواه أحمد وأبو یعلی والبزار والطبرانی ورجاله ثقات ولم ینفرد نجی بهذا
اس روایت کو احمد، ابو یعلی، بزار، اور طبرانی نے روایت کیا ہے اور اس کے تمام رجال ثقہ ہیں۔ اور یہ روایت دوسروں نے بھی بیان کی ہے۔
مجمع الزوائد، حیثمی، جلد ۹، صفحہ ۱۸۷۔
ایک اور نقل امیر المؤمنین علیہ السّلام کے صفین میں گریہ کے بارے میں، عاشور سے سالوں قبل
ابن حجر، صاحب کتاب «الصواعق المحرقه»، ابن سعد شعبی سے نقل کرتا ہے:
مر علی رضی الله عنه بکربلاء عند مسیره إلی صفین وحاذی نینوی قریه علی الفرات فوقف وسأل عن اسم هذه الأرض فقیل کربلاء فبکی حتی بل الأرض من دموعه ثم قال دخلت علی رسول الله e وهو یبکی فقلت ما یبکیک قال: کان عندی جبریل آنفا وأخبرنی أن ولدی الحسین یقتل بشاطیء الفرات بموضع یقال له کربلاء ثم قبض جبریل قبضه من تراب شمنی إیاه فلم أملک عینی أن فاضتا
علی علیہ السلام صفّین کی طرف جاتے وقت نینوا کے مقام پر پہنچے، اس زمین کا نام پوچھا، بتایا گیا: اس زمین کا نام کربلا ہے۔ کربلا کا نام سنتے ہی اتنا گریہ کیا کہ زمین ان کے آنسوؤں سے تر ہوگئی، پھر فرمایا: میں رسول خدا صلی الله علیہ و آلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا جبکہ وہ گریہ کر رہے تھے۔ میں نے عرض کیا: کیا چیز آپ کو رُلا رہی ہے؟ حضرت نے فرمایا: جبریل کچھ دیر پہلے آئے اور مجھے خبر دی کہ میرا بیٹا حسین فرات کے کنارے، جس مقام کا نام کربلا ہے، قتل کیا جائے گا اور پھر جبریل نے اس زمین کی کچھ مٹی مجھے سونگھنے کے لیے دی، اس وقت میری آنکھوں سے آنسو بہہ نکلے۔
الصواعق المحرقه، أحمد بن حجر هیثمی، صفحہ ۱۹۳۔
ب ـ محشر میں صدیقه طاهره سلام الله علیها کا عزاداری کرنا
حضرت صدیقه طاهره سلام الله علیها کی محشر میں نمادین حرکت امام حسین علیہ السلام کی شہادت پر عزاداری کے اقامہ کی ایک مضبوط دلیل ہے۔ اور اس لحاظ سے رسول اکرم کے خاندان کے ارادتمندوں کے لئے امام حسین علیہ السلام کی مجالس عزاداری کا انعقاد کرنا ضروری ہے۔ علیّ بن محمد شافعی مغازلی، أبو أحمد عامر سے، حضرت علیّ بن موسی الرضا علیہ السلام سے اور وہ اپنے آباؤ اجداد سے، امیر المؤمنین علیہ السلام سے، نبی اکرم صلی الله علیہ و آلہ وسلم سے یہ حدیث نقل کرتے ہیں کہ نبی نے فرمایا:
تحشر ابنتی فاطمه ومعها ثیاب مصبوغه بدمٍ، فتتعلّق بقائمه من قوایم العرش وتقول: یاعدل! یاجبّار! أُحکم بینی وبین قاتل ولدی قال صلّی الله علیه وآله وسلّم: فیحکم لابنتی وربّ الکعبه
میری بیٹی فاطمہ اپنے بیٹے حسین علیہ السلام کے خون آلود لباس کے ساتھ محشر میں آئے گی، پھر عرش کی ایک ستون کو پکڑے گی اور کہے گی: اے عادل! اے جبّار! میرے اور میرے بیٹے کے قاتل کے درمیان فیصلہ کر! نبی صلی الله علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
اللہ کعبہ کے رب کی قسم! میری بیٹی کے حق میں فیصلہ فرمائے گا۔
مناقب علیّ بن أبی طالب علیهما السلام، مغازلی، صفحہ ۶۶ ـ ینابیع الموده لذوی القربی، قندوزی، جلد ۳، صفحہ ۴۷۔
پس، اہل بیت نبی صلی الله علیہ وآلہ وسلم کے محبان اور دوستداران، جو امام حسین علیہ السلام کی عزاداری کے متعلق دینی پیشواؤں کی روحانی و معنوی حالات سے آگاہ ہیں، یہ ضروری سمجھتے ہیں کہ کربلا کی دردناک واقعہ اور زہراسلام الله علیها کے بیٹے کی شہادت کو فراموش نہ کریں، تاکہ محشر میں حضرت حق کے سامنے مظلوم حسین علیہ السلام کی ماں کی فریاد کے گواہ بن سکیں۔
ج: شیعہ اماموں کا گریہ اور عزاداری تاریخ کے مطابق
امام حسین علیہ السلام کی شہادت کے بعد دینی پیشواؤں کا طریقہ عزاداری کا انعقاد اوران پر گریہ کرنا تھا۔ اور حقیقت میں وہی لوگ گزار تھے مجلس اور مصائب پڑھنے کے، جو وقت کے ساتھ شیعی فکر و اندیشے میں ایک ثقافت کے طور پر جڑ پکڑ گیا۔ لہذا، جو آج شیعہ نشین علاقوں میں رائج ہے، وہ نئی ایجاد یا غیر ملکی لوگوں کی بنائی ہوئی چیز نہیں ہے، بلکہ وہی چیز ہے جسے شیعہ معصوم اماموں نے اپنے زندگی کے دوران قائم کیا اور اس پر زور دیا۔ انہوں نے مختلف احادیث میں دینی شعائر کی اقامت کی اہمیت کو بیان کیا، جیسے کہ مجالس عزا کا انعقاد، اور ایک قطرہ آنسو جو ان مجالس میں بہایا جائے، اس کے لیے وعدہ کیا۔ مشہور حدیث کے مطابق شہید کربلا حضرت أبا عبد الله الحسین علیہ السلام نے فرمایا:
من دمعت عیناه فینا دمعه، أو قطرت عیناه فینا قطره، آتاه الله عزّ وجلّ الجنّه
جو بھی ہمارے غم میں ایک آنسو بہائے، خداوند متعال اسے جنت عطا فرمائے گا۔
ذخایر العقبی، صفحہ ۱۹ ـ ینابیع المودّه، جلد ۲، صفحہ ۱۱۷۔
امام سجاد علیّ بن حسین علیہما السلام کے بعد کربلا کے واقعہ کے بعد ان کی آنکھوں سے کبھی اشک ختم نہیں ہوئے۔ جو لوگ انہیں اس حال میں دیکھتے تھے، اس کی وجہ پوچھتے، حضرت فرماتے:
لا تلومونی، فإنّ یعقوب فقد سبطاً من ولده، فبکی حتّی ابیضّت عیناه من الحزن، ولم یعلم أنّه مات، وقد نظرتُ إلی أربعه عشر رجلاً من أهل بیتی یذبحون فی غداه واحده، فترون حزنهم یذهب من قلبی أبدا.
مجھے ملامت نہ کریں، یعقوب علیہ السلام نے اپنے ایک بیٹے کو کھویا، اور اتنا گریہ کیا کہ ان کی آنکھوں کی بینائی چلی گئی، حالانکہ انہیں نہیں معلوم تھا کہ ان کا بیٹا مر چکا ہے۔ لیکن میں نے اپنے خاندان کے چودہ افراد کو ایک دن میں اپنے آنکھوں کے سامنے ذبح ہوتے دیکھا، کیا آپ سوچتے ہیں کہ میرا غم کبھی ختم ہوگا؟
تهذیب الکمال، مزّی، جلد ۲۰، صفحہ ۳۹۹ ـ البدایه والنهایه، جلد ۹، صفحہ ۱۲۵ ـ تاریخ مدینه دمشق، جلد ۴۱، صفحہ ۳۸۶۔
ہمیشہ کا غم و اندوہ، فاجعه کی گہرائی کا ثبوت ہے۔ اور دوسری طرف امام سجاد علیہ السلام اس عمل کے ذریعے، تمام مؤمنین کو پیغام دیتے ہیں کہ عاشورا اور امام حسین علیہ السلام قیامت تک زندہ رہنا چاہیے۔ امام باقر علیہ السلام اپنے والد امام سجاد علیہ السلام کی حدیث نقل کرتے ہوئے، عاشورا کی جاودانگی پر زور دیتے ہیں اور اپنے والد کی عملی سیرت کی حمایت کرتے ہیں جو عزاداری کی اقامت تھی۔
کان أبی علیّ بن الحسینعلیه السلام یقول: أیّما مؤمن دمعت عیناه لقتل الحسین ومن معه، حتّی تسیل علی خدّیه، بوّأه الله فی الجنّه غرفاً، وأیّما مؤمن دمعت عیناه دمعاً حتّی یسیل علی خدّیه، لأذی مسّنا من عدوّنا بوّأه الله مبوّء صدق
میرے والد علیّ بن حسین علیہما السلام فرماتے تھے: جو بھی مؤمن حسین علیہ السلام اور ان کے ساتھیوں کی شہادت پر آنسو بہائے اور وہ اس کے رخساروں پر بہیں، خدا اسے جنت میں ایک غرفہ عطا فرمائے گا، اور جو بھی مؤمن ہماری دشمنی کی تکلیف پر آنسو بہائے، خدا اسے ایک نیک مقام عطا فرمائے گا۔
ینابیع الموده لذوی القربی، قندوزی، جلد ۳، صفحہ ۱۰۲ ـ الاصابه، ابن حجر، جلد ۲، صفحہ ۴۳۸ ـ لسان المیزان، جلد ۲، صفحہ ۴۵۱۔
امام صادق علیہ السلام بھی اپنے اجداد کی سیرت پر عمل کرتے ہوئے، کربلا اور عاشورا کے احترام کی تاکید کرتے ہیں اور فرماتے ہیں: إنّ یوم عاشورا أحرق قلوبنا، وأرسل دموعنا، وأرض کربلاء أورثتنا الکرب والبلاء، فعلی مثل الحسین فلیبک الباکون، فإنّ البکاء علیه یمحو الذنوب أیّها المؤمنون
عاشورا کا دن ہمارے دلوں کو جلا دیتا ہے، ہمارے آنسوؤں کو بہا دیتا ہے، اور کربلا کی زمین ہمیں غم اور بلا دیتی ہے۔ پس، حسین جیسے لوگوں پر گریہ کرنے والے گریہ کریں، کیونکہ اے مؤمنوں! ان پر گریہ گناہوں کو مٹا دیتا ہے۔
نور العین فی مشهد الحسین، أبو إسحاق اسفرایینی، صفحہ ۸۴۔