اہل تسنن علماء شیعوں پر جو الزام لگاتے ہیں ان میں سے ایک سگین الزام یہ ہے کہ شیعہ حضرات اصحابِ رسولؐ کا احترام نہیں کرتے بلکہ ان کے لیے توہین آمیز جملے استعمال کرتے ہیں اور ان پر لعنت ملامت بھی کرتے ہیں۔ اہل تسنن کا یہ الزام اس لیے سنگین ہے کیوں کہ وہ اس توہین کرنے کو کفر کرنے کی طرح سمجھتے ہیں۔ یعنی اہل تسنن کے لیے شیعہ اس لیے کافر ہیں کیونکہ وہ رسول اللہؐ کے اصحاب کو برا بھلا کہتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جن ممالک میں اہل تسنن حکمرانوں کی حکومت ہے وہاں شیعوں پر تکفیری گروہ حملے کرتے رہتے ہیں بلکہ باقاعدہ شیعوں کے عبادت خانوں اور مساجد پر خود کش حملے کرتے رہتے ہیں۔ کیا ان کا یہ الزام بے بنیاد ہے یا اس سے واقعًا مومن مرتد ہوجاتا ہے؟ اس بات کو سمجھنے اور اس کی تہہ تک پہنچنے کے لیے پہلے یہ سمجھنا ضروری ہے کہ اہل تسنن علماء کے نزدیک ‘صحابی’ کسے کہا جاتا ہے۔ اس مختصر مضمون میں ہم اہل تسنن علماء میں سے چند مقبول اور معتبر عالموں کا یہاں ذکر کریں گے جنھوں نے لفظ ‘صحابی’ کی تعریف بیان کی ہے۔
خطیب بغدادی اور ابنِ جماعہ نے اہل تسنن فقہ کے امام احمد ابن حنبل سے ‘صحابی’ کی تعریف ان الفاظ میں بیان کی ہے:
کُلُّ مَنْ صَحِبَهُ سَنَةً أَوْ شَهْرًا أَوْ یَوْمًا أَوْ سَاعَةً أَوْ رَآهُ، فَهُوَ مِنْ أَصْحَابِهِ، لَهُ مِنَ الصُّحْبَةُ عَلَی قَدْرِ مَا صَحِبَهُ.
ہر وہ شخص جس نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صحبت اختیار کی ہو‘ ایک سال یا ایک مہینہ یا ایک دن یا ایک گھڑی یا اُس نے (فقط حالتِ ایمان میں) آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھا ہو وہ صحابی ہے۔ اسے اسی قدر شرفِ صحابیت حاصل ہے جس قدر اس نے صحبت اختیار کی۔
(خطیب بغدادی، الکفایة في علم الروایة، 1: 51، مدینه منوره، سعودی عرب: المکتبة العلمیة، ابن جماعة، المنهل الروی، 1: 111، دمشق شام: دار الفکر)
اس تعریف کے مطابق ہر وہ صاحب ایمان جس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ایک لمحے کے لیے بھی زیارت کی ہے، وہ ‘صحابی’ کہلائے گا۔ صرف آنحضرتؐ کی ایک نظر زیارت کر لینے سے بھی ایک مسلمان ‘صحابی’ ہونے کا شرف پا لیتا ہے۔
اہل تسنن کے ایک اور بزرگ عالم جو کتاب جامع بخاری کے موءلف ہیں، نے اس لفظ ‘صحابی’ کی تعریف یوں بیان کی ہے:
وَمَنْ صَحِبَ النَّبِيَّ (صلی الله علیه وآله وسلم) أَوْ رَآهُ مِنَ الْمُسْلِمِینَ فَهُوَ مِنْ أَصْحَابِهِ.
مسلمانوں میں سے جس کسی نے بھی حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صحبت اختیار کی ہو یا فقط آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھا ہو، وہ شخص آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا صحابی ہے۔
(بخاري، الصحیح، کتاب المناقب، باب فضائل أصحاب النبی صلی الله علیه وآله وسلم ، 3: 1335، دار ابن کثیر الیمامة، بیروت)
صاحب بخاری کا بھی یہی خیال ہے کہ صرف آنحضرتؐ کا ایک دیدار ہی کسی مسلمان کے ‘صحابی’ قرار دیے جانے کے لیے کافی ہے۔
ان بزرگ علماء میں ایک اور نام حافظ ابنِ حجر عسقلانی کا ہے۔ انھوں نے صحابی کی درج ذیل تعریف کی ہے جو بہت جامع ومانع اور اہل علم کے یہاں مقبول اور راجح ہے:
وَهُوَ مَنْ لَقِيَ النَّبِيَّ (صلی الله علیه وآله وسلم) مُؤمِناً بِهِ، وَمَاتَ عَلَی الْإِسْلَامِ، وَلَوْ تَخَلَّتْ رِدَّةٌ فِي الْأَصَحَّ.
‘صحابی’ وہ ہے جس نے حالتِ ایمان میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ملاقات کی ہو اور وہ اسلام پر ہی فوت ہوا ہو اگرچہ درمیان میں مرتد ہو گیا تھا (مگر وفات سے پہلے مسلمان ہو گیا)۔
ابن حجر مذکورہ تعریف کی وضاحت میں لکھتے ہیں:
وَالْمُرَادُ بِاللِّقَاءِ: مَا هُوَ أَعمُّ: مِنَ الْمُجَالَسَةِ، وَالْمُمَاشَاةِ، وَ وَصُولِ أَحَدِهِمَا إِلَی الآخَرِ، وَإِنْ لَمْ یُکَالِمْهُ، وَیَدْخُلُ فِیهِ رُؤیَةُ أَحَدِهِمَا الآخَرَ، سَوَاءٌ کَانَ ذَلِکَ بِنَفْسِهِ أَو بِغَیْرِهِ.
ِ’لقاء’ سے مراد (ایسی ملاقات) ہے جو باہم بیٹھنے، چلنے پھرنے اور دونوں میں سے ایک کے دوسرے تک پہنچنے اگرچہ اس سے مکالمہ بھی نہ کیا ہو، یہ مجلس اس لحاظ سے عام ہے (جس میں صرف کسی مسلمان کا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تک پہنچنا ہی کافی ہے) اور لقاء میں ہی ایک دوسرے کو بنفسہ یا بغیرہ دیکھنا داخل ہے۔
(عسقلاني، نزهَة النظر بشرح نخبة الفکر: 64، قاہرة ، مصر: مکتبة التراث الاسلامي)
مذکورہ بالا تصریحات سے معلوم ہوتا ہے کہ جس شخص نے حالت ایمان میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زیارت کا شرف حاصل کیا اور اس کا خاتمہ بالایمان ہوا تو وہ ‘صحابی’ کہلایا جا سکتا ہے۔
ان تمام تعریفوں میں جو ایک چیز سب میں موجود ہے وہ یہ کہ کسی فرد کے صحابی ہونے کے لیے اس کا مسلمان ہونا ضروری ہے مگر اس میں کس کا کیا مرتبہ ہے اس کا معیار اس صحابی کا ایمان نہیں بلکہ مدتِ صحبت ہے۔ جس نے ایک بار آنحضرتؐ کو دیکھا اس کا مرتبہ کم ہے اور جس نے ایک ماہ یا ایک سال آپؐ کے ہمراہ زندگی گزاری اس کا مرتبہ نسبتًا زیادہ ہے۔ اس طرح مرتبہ یا معیارِ فضیلت طے کرنا نہ کسی حدیث نبویؐ میں وارد ہوا ہے اور نہ ہی کسی آیتِ قرآنی میں اس کا ذکر ہے۔ اس لیے اس معیار شرف و فضیلت پر اعتبار نہیں کیا جاسکتا۔