اہل تسنّن علماء جب اپنے خلفاء کی فضیلت گنواتے ہیں تو اس بات کا ذکر ضرور کرتے ہیں کہ شیخین کو یہ شرف حاصل ہے کہ وہ دونوں رسولؐ اسلام کے پہلو میں دفن ہیں۔ وہ اس بات کو فخریہ بیان کرتے ہیں کہ ابوبکر اور عمر کو یہ فضیلت حاصل ہے کہ یہ دونوں رسول الله (صلی الله علیہ و آلہ وسلم) کے حجرے میں ان کے پہلو میں دفن ہیں۔ یقینًا یہ ان دونوں کی خاص فضیلت ہوتی جو ان کے علاوہ کسی اور کو نہیں ملی مگر….اس مختصر مقالے میں ہم اس بات کو سمجھنے کی کوشش کریں گے کہ کیا واقعًا یہ ان دونوں کی فضیلت ہے یا نہیں۔
ابوبکر و عمر کو اس فضیلت کا حامل مانا جائے یا نہ مانا جائے یہ دوسرے مسلمانوں کے لیے تو ممکن ہے مگر وہابی اس بات کو کسی حال میں ان دونوں کی فضیلت نہیں قرار دے سکتے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہابیوں کا ماننا ہے کہ رسول اکرم (ص) ایک عام بشر تھے اور اس دنیا سے رخصت ہونے کے بعد ان سے کوئی فیض حاصل نہیں کیا جاسکتا۔ لہٰذا آنحضرتؐ کے پہلو میں دفن ہونا یا نہ ہونا دونوں، وہابی فکر کے مطابق، برابر ہے۔ اس لیے وہابی کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ رسولؐ کے حجرے میں دفن ہونے کو ابوبکر و عمر کی فضیلت شمار کریں۔ (ان کے عقیدے کے مطابق جب رسولؐ ہی کا جسد اطہر کوئی اہمیت نہیں رکھتا تو دوسروں کی کیا بات کی جا سکتی ہے؟؟)
اب جو لوگ یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ رسول الله (صلی الله علیہ وآلہ وسلم) کی فضیلت وحیثیت بعد از وفات بھی اسی طرح ہے جس طرح ان کی زندگی میں تھی تو ان کو قرآن کا یہ فرمان یاد رکھنا چاہیے:
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَدْخُلُوا بُيُوتَ النَّبِيِّ إِلَّا أَنْ يُؤْذَنَ لَكُمْ إِلَى طَعَامٍ غَيْرَ نَاظِرِينَ إِنَاهُ وَلَكِنْ إِذَا دُعِيتُمْ فَادْخُلُوا فَإِذَا طَعِمْتُمْ فَانْتَشِرُوا وَلَا مُسْتَأْنِسِينَ لِحَدِيثٍ إِنَّ ذَلِكُمْ كَانَ يُؤْذِي النَّبِيَّ فَيَسْتَحْيِي مِنْكُمْ وَاللَّهُ لَا يَسْتَحْيِي مِنَ الْحَقِّ…..
[سوره الأحزاب:۵٣]
اے یمان لانے والو! نبیؐ کے گھر میں داخل نہ ہونا جب تک کہ تمھیں اجازت نہ مل جائے…… پس جب تم کھانا کھاچکو تو نبیؐ کے گھر میں قیام نہ کرو اور بیٹھ کر باتیں نہ کرو بلکہ وہاں سے نکل جاو اس لیے کہ تمھارے وہاں رکنے سے نبیؐ کو اذیت پہنچتی ہے…..
اس آیت میں واضح طور پر اہل اہمان کو دو باتوں کا حکم دیا گیا ہے- اوّلاً کہ بغیر رسولؐ کی اجازت کہ کوئی بھی صاحب ایمان رسولؐ کے گھر میں داخل نہیں ہوسکتا۔ دوسرے یہ کہ جب اجازت مل جائے اور حاجت پوری ہوجائے تو مومن کو چاہیے کہ فورًا نبیؐ کے گھر سے نکل جائے۔ کسی کو نبیؐ کے گھر میں دیر تک رکنے کی اجازت نہیں ہے کیونکہ اس سے خود رسولؐ کو اذیت ہوتی ہے۔ یعنی رسول الله (ص) یہ پسند نہیں کرتے کہ کوئی ان کے گھر میں قیام کرے۔ اس لیے کسی کا وہاں دفن ہونا یا کسی کو وہاں دفن کرنا خود حضور اکرم (ص) کے لیے باعث اذیت ہے۔ (اور بقول قرآن (احزاب:۵٧) جو بھی رسولؐ کو اذیت دیتا ہے اللہ اس پر لعنت کرتا ہے)
اس آیت کے نازل ہونے کے بعد اہل ایمان کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ رسولؐ (ص) کے گھر میں داخل ہونے سے پہلے ان سے اجازت طلب کریں اور جب اپنے کام سے فارغ ہوجائیں تو فورًا وہاں سے رخصت ہوجائیں لمحہ بھر بھی وہاں نہ ٹہریں کیونکہ ان کا وہاں رکنا رسولؐ کے لیے زحمت کا سبب بنتا ہے۔
اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ کیا شیخین نے رسولؐ اسلام کے گھر میں دفن ہونے کے لیے خود آنحضرتؐ سے اجازت طلب کی تھی یا حضور اکرم (ص) نے ان دونوں کے بارے میں وصیت فرمائی تھی کہ ان دونوں کو میرے پہلو میں دفن کرنا؟ حتمًا ان دونوں سوالوں کا جواب “نہیں” ہے۔
اہل تسنّن اس بات کا اقرار کرتے ہیں کہ شیخین کو رسول الله (ص) نے خود یہ اجازت نہیں دی تھی کہ ان دونوں کو آنحضرتؐ کے جوار میں دفن کیا جائے۔ اس لیے وہ اس مسئلہ کے حل کے لیے ایک دوسری بات پیش کرتے ہیں اور وہ یہ کہ ان کے دونوں خلفاء کو رسول اکرم (صلی الله علیہ و آلہ وسلم) کی زوجہ عائشہ نے رسولؐ کے پہلو میں دفن ہونے کی اجازت دی تھی۔ اگر اس بات کو قبول کیا جائے تو اس سے اور زیادہ سوال کھڑے ہوتے ہیں۔ پہلا سوال تو یہی ہے کہ عائشہ کو یا رسولؐ کی کسی بھی زوجہ کو کیا حق پہنچتا ہے کہ وہ کسی کو رسولؐ کے گھر میں داخل ہونے کی اجازت دیں؟ نیز اس گھر کو عائشہ کا حجرہ بھی تصوّر نہیں کیا جاسکتا اس لیے کہ خود عائشہ کے والد ابوبکر نے یہ حدیث بیان کی ہے کہ انبیاء کی میراث نہیں ہوتی پھر عائشہ کو کیا حق ہے کہ رسولؐ اکرم کے حجرے کو اپنی ملکیت سمجھیں؟ ابوبکر نے دختر رسولؐ جناب فاطمہؐ کو اسی حدیث کی بنا پر رسولؐ کی میراث سے بے دخل کردیا تھا۔ جب رسولؐ کی بیٹی کو اپنے باپ کی میراث نہیں مل سکتی تو رسولؐ کی زوجہ کو کس طرح رسولؐ کی میراث مل سکتی ہے؟ لہٰذا دونوں خلفاء کے ساتھ ساتھ عائشہ بھی الله کی نافرمانی میں شریک ہوجاتی ہیں ۔
پس ان دونوں کا رسولؐ کے گھر میں دفن ہوجانا کوئی فضیلت نہیں ہے بلکہ ان دونوں کے غاصب اور قرانی فرمان کے مخالف ہونے کی دلیل ہے۔