Mule

یوم البغلة: خچّر والا دن- تاریخ اسلام کا ایک سیاہ دن.

تاریخ اسلام کے بیشتر صفحات پر اہلبیت نبوی (ع) پر امت کے ستم کی داستانیں رقم ہیں۔ رسولِ اکرم (ص) کی وفات کے بعد مسلسل ان کی آلِ پاک پر ظلم و ستم ہوتا رہا۔ ان کی بیٹی کو میراث سے محروم کردیا گیا، ان کے گھر کو آگ لگا دی گئ، دامادِ رسولؐ کے گلے میں ریسمانِ ظلم ڈال کر کھیچا گیا،…. انھیں واقعات میں ایک پر آشوب واقعہ سن ۵٠ ہجری کا ہے جب سبطِ اکبر امامِ حسنؑ کے جنازے پر تیر برسائے گئے۔ اس واقعہ میں جہاں بنی امیہ کی دشمنی کی شدّت کا پتہ چلتا ہے وہیں ان کا بھر پور ساتھ دینے والی اس خاتون کا نام بھی ملتا ہے جس کو اللہ اور اس کے رسولؐ نے اپنے گھر میں بیٹھے رہنے کا حکم دیا ہے۔ اس واقعہ کو شیعہ سنّی دونوں مکتبِ فکر کے مورخین نے اپنی اپنی کتابوں میں رقم کیا ہے۔

اہل تسنّن (سنّی) عالم ابن عبد البر قرطبی اپنی كتاب ‘بهجة المجالس’ میں نقل کرتے ہیں:
“لما مات الحسن أرادوا أن يدفنوه في بيت رسول الله صلي الله عليه وسلم، فأبت ذلك عائشة وركبت بغلة وجمعت الناس، فقال لها ابن عباس: كأنك أردت أن يقال: يوم البغلة كما قيل يوم الجمل؟!.”
جب (امام) حسنؑ دنیا سے رخصت ہوئے اور بنی ہاشم نے چاہا کہ ان کو رسول خدا (ص) کے گھر میں دفن کریں تو عائشہ نے اس سے اختلاف کرتے ہوئے، اس کام سے ان لوگوں کو باز رکھا اور ایک خچر پر سوار ہو کر لوگوں کو اکٹھا کر لیا۔ ابن عباس نے اس سے کہا: “کیا تم پھر وہی کام کرنا چاہتی ہو جو تم نے جنگ جمل میں انجام دیا تھا؟ کیا تم چاہتی ہو کہ لوگ آج کے دن کو ‘خچر کا دن’ کے نام سے یاد رکھیں؟ جس طرح سے کہ ‘جمل کا دن’ کہا جاتا ہے؟ (یعنی اے عائشہ تم اپنی اس حرکت سے آج بھی وہی جنگ جمل والا فتنہ مسلمانوں میں برپا کر کے ہزاروں بے گناہوں کا خون بہانا چاہتی ہو؟)
(ابن عبد البر النمري القرطبي المالكي، بهجة المجالس وأنس المجالس، الجزء الأول من قسم الأول، ص100، باب من الأجوبة المسكتة وحسن البديهة، ناشر: دار الكتب العلمية)

اس روایت میں اس بات کا ذکر مل جاتا ہے کہ عائشہ نے اسی جزبے اور ولولے کے ساتھ مخالفین کا ساتھ دیا تھا جس طرح جنگ جمل میں امیرالمومنینؑ کے خلاف لوگوں کو جنگ کے لیے اکسایا تھا۔

اس واقعہ کو يعقوبی نے اپنی تاریخ میں اس طرح رقم کیا ہے:
“وقيل أن عائشة ركبت بغلة شهباء وقالت بيتي لا آذن فيه لأحد فأتاها القاسم بن محمد بن أبي بكر فقال لها يا عمة ما غسلنا رؤوسنا من يوم الجمل الأحمر أتريدين أن يقال يوم البغلة الشهباء فرجعت”
عائشہ خاکی رنگ کے خچر پر سوار ہو کر آئی اور چیخ رہی تھی: یہ میرا گھر ہے، میں کسی کو بھی یہاں دفن کرنے کی اجازت نہیں دیتی۔
قاسم ابن محمد ابن أبی بكر جو ابوبکر کے پوتے اور عائشہ کے بھتیجے ہیں آگے آئے اور کہنے لگے :
“اے پھوپھی، ابھی تک تو ہم نے اپنے سروں کو جنگ جمل کے بعد دھویا بھی نہیں ہے اور ایک نیا فتنہ برپا کرنا چاہتی ہو کیا تم چاہتی ہو کہ لوگ آج کے دن کو ‘خچر کا دن’ کے نام سے یاد رکھیں؟ یہ سن کر عائشہ خاموش ہوگئیں اور واپس چلی گئیں۔”
( تاريخ اليعقوبي، ج2، ص 225)

اس روایت میں بھی عائشہ کے فتنہ برپا کرنے کا ذکر ملتا ہے اور اس دن کو ‘خچّر والا دن’ کا نام دیے جانے کا ذکر بھی ملتا ہے۔

اب ہم اُس تفصیلی روایت کے کچھ حصّے پیش کررہے ہیں جو معتبر شیعہ کتاب ‘الکافی’ میں مرقوم ہے۔ اس روایت میں اس واقعہ کے تمام پہلو کا ذکر مل جاتا ہے۔ روایت اس طرح بیان ہوئ ہے:
جب امام حسن (ع)کی شھادت ہو گئ اور ان کو تابوت میں رکھ کر اس مقام پر لے جایا گیا جہاں رسول خدا (ص) جنازوں پر نماز پڑھا کرتے تھے۔ اس موقع پر امام حسین (ع) نے امام حسنؑ کی نماز جنازہ پڑھائ اور بعد نماز ختم ہونے کے ان کے جنازے کو مسجد نبویؐ کے اندر لے گئے۔ جب جنازے کو رسول خدا(ص) کی قبر کے نزدیک لے گئے تو کچھ لوگوں نے عائشہ کو یہ خبر دی کہ بنی ہاشم حسنؑ ابن علیؑ کے جنازے کو لائے ہی‍ں تا کہ انھیں رسولؐ اللہ کے پہلو میں دفن کر دیں۔ عائشہ زین شدہ خچر پر سوار ہو کر جلدی سے وہاں پہنچ گئی – وہ پہلی عورت تھیں کہ جو اسلام کے بعد زین پر بیٹھی تھیں – اور آتے ہی کہا:
“اپنے بیٹے کو یہاں سے باہر لے جاؤ کہ یہاں پر کسی کو دفن نہیں کیا جائے گا اور حرم پیغمبرؐ کی ہتک حرمت بھی نہیں ہو گی۔”

(امام) حسين ابن علی (ع) نے فرمایا: اے عائشہ! تم نے اور تمھارے باپ نے پہلے ہی حجاب پیغمبر کو چاک چاک کردیا ہے اور تم نے پیغمبرؐ کے گھر میں ایسے کو داخل کردیا ہے کہ جس کے نزدیک ہونے کو پیغمبرؐ پسند نہیں کرتے تھے اور خدا تم سے اس کام کے بارے میں ضرور پوچھے گا۔ میرے بھائی نے مجھے حکم دیا تھا کہ ان کے جنازے کو آنحضرت (ص) کے حرم میں لے جاؤں تا کہ وہ ان سے تجدید عہد کریں اور تم جان لو کہ میرے بھائی تمام لوگوں کی نسبت خدا، اس کے رسول اور قرآن کے معانی سے آگاہ تر تھے اور وہ اس سے بہت بالا تر تھے کہ وہ حرم پیغمبرؐ کی ہتک حرمت کریں، کیونکہ خدا نے فرمایا ہے:
“اے ایمان والو ! جب تک تمھیں اجازت نہ دی جائے، رسولؐ کے گھر میں داخل نہ ہو”

اے عائشہ تم نے رسول اللہ (ص) کی اجازت کے بغیر ان دو نوں کو ان کے گھر میں جگہ دی ہے ۔
مجھے اپنی جان کی قسم تمھارے باپ اور ان کے دوست نے اپنے آپ کو پیغمبرؐ کے نزدیک کرنے کی وجہ سے، ان کو اذیت و آزار پہنچایا ہے اور انھوں نے رسولؐ خدا کے حق کی رعایت نہیں کی، کیونکہ خدا نے بیان کیا ہے کہ جو کچھ مؤمنین کی نسبت ان کے زندہ ہونے کی حالت میں حرام ہے، وہی کچھ ان کے مرنے کے بعد بھی حرام ہے۔

خدا کی قسم اے عائشہ ! اگر (امام) حسنؑ کو رسول خدا کے نزدیک دفن کرنا ہمارا مقصد ہوتا اور اس کام کو ہماری نظر میں خدا نے جائز قرار دیا ہوتا تو تم دیکھتیں کہ تمھاری اور تمھارے ساتھیوں کی تمام تر مخالفت کے باوجود، میں کیسے اپنے بھائ حسنؑ کو یہاں دفن کرتا۔ (لیکن افسوس کہ بیلچے وغیرہ چلانا رسولؐ خدا کے حرم میں ہماری نظر میں جائز نہیں ہے)
( الكافي، ج 1، ص303)

اس روایت میں دو باتوں کا مزید ذکر ملتا ہے:
•اوّلًا یہ کہ خود امام حسنؑ اور ان کے گھر والے یہ نہیں چاہتے تھے کہ سبطِ اکبر کو رسولؐ اکرم کے حجرے میں دفن کیا جائے۔ اس کا سبب یہ تھا کہ بحکم خدا رسولؐ کے حجرے میں بیلچے وغیرہ چلانا ممنوع ہے۔

• دوسرے یہ کہ عائشہ نے جو اپنے باپ ابوبکر اور ان کے دوست عمر کو پیغمبرِ اکرم کے حجرے میں دفن ہونے کی اجازت دی ہے وہ اللہ کے حکم کی نافرمانی ہے۔ اور جب تک وہ دونوں وہاں دفن ہیں وہ دونوں بھی گناہ گار ہیں اور ان کے دفن کرنے والے بھی۔ ساتھ ہی اس حکمِ خدا اور حکم رسولؐ کی مخالفت کے بارے میں عائشہ سے بھی روز قیامت پوچھا جائے گا۔

Short URL : https://saqlain.org/o6q3