یہ ایک حقیقت ہے کہ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو گزشتہ امتوں کی طرح اس امت کے بھی گمراہ ہوجانے کا علم تھا ۔ اسی خطرے کے پیش نظر وقتاً فوقتاً آپ اپنے اصحاب کو اس بات کی طرف متوجہ کرتے رہےکہ گمراہی سے بچنے کا واحد طریقہ قرآن اور اہلبیتؑ کے دامن سے متمسک رہنا ہے۔ بہ الفاظ دیگر، آنحضرت (ص) نے بارہا اپنی امت کو اس بات کی ضمانت دی تھی کہ اگر کوئ شخص قرآن و اہلبیتؑ سے متمسک رہا تو قیامت تک وہ ہرگز گمراہ نہ ہوگا۔ اس مضمون پر مبنی آنحضرت (ص) سے مروی ارشادات طرفین کی کتابوں میں معتبر اور موثق ذرائع سے صرف موجود ہی نہیں بلکہ بھرے پڑے ہیں۔ ان ہی میں سے دو سب سے زیادہ مشہور اقوالِ مرسل اعظم (ص) ‘حدیث ثقلین’ اور ‘حدیث خلیفتین’ کے نام سے مشہور ہیں۔ مگر افسوس آنحضرتؐ کی آنکھ بند ہوتے ہی صحابہ کی اکثریت نے اہلبیتؑ کی مخالفت کی اور ان سے بھر پور انحراف کیا۔ صحابہ نے نہ اہلبیتؑ سے قرآن سیکھا اور نہ ہی ان سے سنّت کی تعلیم حاصل کی۔ نتیجہ یہ ہوا کہ وہ خود بھی گمراہ رہے اور امت کو بھی گمراہی کے راستے پر ڈال دیا ساتھ ہی انھوں نے دین میں بےشمار بدعتیں داخل کردیں۔ اب حال یہ ہے کہ صحابہ کے پیرو کار مسلمانوں کی اکثریت اپنے آپ کو اہل سنّت تو کہتی ہے ، مگر ان کے پاس سنّت میں سے کچھ بھی نہیں رہا سوائے یہ کہ وہ کعبہ کی طرف رخ کرکے نماز ادا کرتے ہیں۔ اہل تسنّن چونکہ اپنے مکتب کے حق سے منحرف ہونے کو چھپانے میں مکمل طور پر ناکام ہیں اس لیے بیہودہ اور منگھڑت باتیں ایجاد کرتے رہتے ہیں۔ ان ہی میں سے ان کی ایک دلیل یہ ہے کہ دوسرے مکاتب فکر کے مقابلے میں وہ اکثریت میں ہیں۔ لہذا وہ اپنے مسلک کو ‘سوادِ اعظم’ کہتے ہیں اور اپنی حقانیت کی دلیل کے لیے اس حدیث کو پیش کرتے ہیں:
قال رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وآلہ وَسَلَّمَ: إِنَّ أُمَّتِي لَا تَجْتَمِعُ عَلَى ضَلَالَةٍ، فَإِذَا رَأَيْتُمُ اخْتِلَافًا فَعَلَيْكُمْ بِالسَّوَادِ الْأَعْظَمِ» (ابن ماجۃ ٣٩٥٠)
ترجمہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا ارشاد ہے: میری امت کبھی گمراہی پر جمع نہیں ہوگی، جب تم اختلاف دیکھو، تو تم پر واجب ہے کہ سواد اعظم (سب سے بڑی جماعت) کا ساتھ دو!
اس بارے میں ان کے علماء اس طرح بیان کرتے ہیں :-
اتَّبِعُوا السَّوَادَ الْأَعْظَمَ فَإِنَّهُ مَنْ شَذَّ شَذَّ فِي النَّارِ» (مشکاۃ المصابیح ١٧٤)
وَالْمُرَادُ مَا عَلَيْهِ أَكْثَرُ الْمُسْلِمِينَ۔ (مرقاۃ المفاتیح ١/٢٦١)
ارشادِ رسولؐ: سواد اعظم (سب سے بڑی جماعت) کا اتباع کرو اس لیے کہ جو جماعت سے بچھڑ گیا، وہ بچھڑا ہوا جہنم میں چلا جائے گا۔
سلفی عالم ملا علی قاری نے اس کا مطلب اس طرح بیان کیا ہے:
وہ مسلک جس پر مسلمانوں کی سب سے بڑی تعداد ہو۔
ملا علی قاری نے اس کے علاوہ بھی سواد اعظم کے لیے چند مطالب ذکر کیے ہیں مگر سب کو ضعیف القول کے طور پر لفظِ «قیل» (یعنی ایک قول ہے یا کہا گیا ہے) کے ساتھ، یا پھر کسی بزرگ کی منفرد رائے کے طور پر پیش کیا ہے۔
اپنی بات کی دلیل کے لیے وہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اس حدیث سے بھی سہارا لیتے ہیں۔
إن أمتي لا تجتمع على ضلالة فإذا رأيتم اختلافا فعليكم بالسواد الأعظم (ابن ماجہ ۳۹۵۰)
میری امت کبھی گمراہی پر جمع نہیں ہوگی۔ جب تم اختلاف دیکھو تو سواد اعظم (سب سے بڑی جماعت) کا اتباع کرو۔
شیخ ابو الحسن سندھی نے اس حدیث کے حاشیہ میں لکھا ہے:
سوادِ اعظم کا مطلب بڑی تعداد والی جماعت ہے۔ بڑی تعداد کا کسی بات پر متفق ہونا اجماع کے قریب قریب ہے۔ اہل تسنّن کے بزرگ عالم علامہ سیوطی کہتے ہیں کہ سوادِ اعظم سے مراد «سب سے بڑی جماعت» ہے، لوگوں کی جماعت اور بہت بڑی تعداد ، جو سیدھے راستے پر چل رہے ہوں۔ حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ جمہور کی رائے پر عمل کرنا چاہیے۔
پس علماء کے ان اقوال سے معلوم ہوا کہ ان کے نزدیک ‘سواد اعظم’ مسلمانوں کی بڑی جماعت ہے۔ اور ان کے ساتھ ہوجانا ہی گمراہی سے بچنا ہے۔ مگر حقیقتِ امر اس سے اک دم مختلف ہے۔ سب سے بڑی جماعت ناجی ہوتی ہے ، اس بات کی تائید نہ قرآن میں ہے اور نہ ہی طول تاریخ میں۔ اپنی بات کو ہم احادیث سے بھی ثابت کر سکتے ہیں مگر اہل تسنّن کا ہمیشہ اس بات پر اصرار رہتا ہے کہ فلاں چیز قرآن سے ثابت کرو۔ چنانچہ ہم بھی ان سے گزارش کرتے ہیں کہ وہ اپنی بات کو قرآن سے ثابت کریں کہ کثرت تعداد حق پر ہونے کی دلیل ہے۔ بلکہ قرآن نے تو بڑی جماعت اور اکثریت کو گمراہ اور بے دین بتایا ہے۔ اپنی بات کے ثبوت میں ہم یہاں چند آیات پیش کر رہے ہیں۔
• قُلْ لَا يَسْتَوِي الْخَبِيثُ وَالطَّيِّبُ وَلَوْ أَعْجَبَكَ كَثْرَةُ الْخَبِيثِ فَاتَّقُوا اللَّهَ يَا أُولِي الْأَلْبَابِ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ (سوره المائدة: ١٠٠)
(میرے حبیبؐ) آپ کہہ دیجیے کہ خبیث اور طیب برابر نہیں ہوسکتے چاہے تم کو خبیث کی کثرت سے تعجب ہی کیوں نہ ہو…
• سوره البقرة: ١٠٠
أَوَكُلَّمَا عَاهَدُوا عَهْدًا نَبَذَهُ فَرِيقٌ مِنْهُمْ بَلْ أَكْثَرُهُمْ لَا يُؤْمِنُونَ۔ …بلکہ ان کی اکثریت ایمان نہیں لائ۔
• سوره البقرة:٢۴٣
… إِنَّ اللَّهَ لَذُو فَضْلٍ عَلَى النَّاسِ وَلَكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَشْكُرُونَ۔ بیشک اللہ تو لوگوں پر فضل کرنے والا ہے ، مگر لوگوں کی اکثریت ناشکری ہے۔
• سوره يونس :٣٦
وَمَا يَتَّبِعُ أَكْثَرُهُمْ إِلَّا ظَنًّا إِنَّ الظَّنَّ لَا يُغْنِي مِنَ الْحَقِّ شَيْئًا إِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ بِمَا يَفْعَلُونَ۔ اکثریت صرف اپنے گمان کا اتباع کرتی ہے، جبکہ گمان سے حق کی ذرہ برابر کفالت نہیں ہوتی۔ یہ لوگ جو کچھ کرتے ہیں اللہ اسے جانتا ہے۔
•سوره الإسراء: ٨٩
وَلَقَدْ صَرَّفْنَا لِلنَّاسِ فِي هَذَا الْقُرْآنِ مِنْ كُلِّ مَثَلٍ فَأَبَى أَكْثَرُ النَّاسِ إِلَّا كُفُورًا۔
ہم نے اس قرآن میں لوگوں کے لۓ مثالوں کو بیان کیا ہے ، مگر اکثر اسے قبول کرنے سے انکار کرتے ہیں۔
ان قرآنی آیات سے معلوم ہوجاتا ہے کہ اکثریت خبیث لوگوں کی ہے، ایمان نہ لانے والوں کی ہے، اکثریت ناشکرے لوگوں کی ہے۔اکثریت ان لوگوں کی ہوتی ہے ، جو گمراہ ، منکر اور کفر کرنے والے ہیں۔ لہذا از روئے قرآن اکثریت نہ تو حق پر ہونے کی دلیل ہے اور نہ ہی کسی اچھائ
ظاہر کرنے کا موجب ہے بلکہ اکثریت گمراہی اور خباثت کی علامت ہے۔