کچھ مسلمان شیعوں پر امیر المومنین علیہ السلام اور ائمہ علیہم السلام کی حیثیت کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنے کا الزام عائد کرتے ہیں۔ ان کا دعویٰ ہے کہ شیعوں نے اپنے ائمہ علیہم السلام کے لئے وہ صفات ایجاد کیے ہیں جو فوق البشر ہیں یعنی جو عام انسانوں میں نہیں پائ جاتی۔ ان کے خیال میں ائمہ معصومین علیہم السلام میں کوئ خاص خصوصیات موجود نہ تھیں لہذا شیعوں کا ائمہ کے لیے خصوصی فضائل کا بیان کرنا ان کی ایجاد کرہ بدعت ہے۔ ان مخالفین کا دعویٰ تو یہ بھی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خود محض ایک بشر تھے اور فوق البشر صفات سے مبرہ تھے۔ جبکہ شیعہ حضرت امیر المومنین علی علیہ السلام کے لیے ‘ید اللہ’ ، ‘عین اللہ’ وغیرہ جیسے القاب استعمال کرتے ہیں۔
جواب: حقیقت تو یہ ہے کہ تمام مسلمان یہ تسلیم کرتے ہیں امیر المومنین علیہ السلام کے ساتھ ساتھ ائمہ معصومین علیہم السلام ان غیر معمولی صفات اور فضیلت کے مالک ہیں ، اور یہ شیعوں کے کھوکھلے دعوے یا منگھڑت باتیں نہیں ہیں۔
علامہ امینی (رح) ناقدین کو خاموش کردیتے ہیں:-
علامہ امینی (رح) ، جو عظیم الشان عالم اور تحقیق کے انمول جسم ‘الغدیر’ کے مصنف ہیں ، نے اپنے سفر کے دوران ایک محفل میں شرکت کی جس میں ایک سنی عالم نے انھیں مناظرے کی دعوت دی۔
سنی عالم: آپ شیعہ حضرات علی ابی طالب (علیہما السلام) کے معاملے میں مبالغہ آرائی سے کام لیتے ہیں اور معاملات کو بلند کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر ، آپ انھیں ان القاب سے پکارتے ہیں جیسے ‘ید الله’ (اللہ کا ہاتھ) ‘عین الله’ (اللہ کی آنکھ) ، وغیرہ۔ اس طرح کے لقب سے کسی بھی انسان یا صحابی کو ملقب کرنا درست نہیں ہے۔
علامہ امینی (رح) نے بغیر کسی ہچکچاہٹ کے جواب دیا: اگر عمر ابن خطاب نے علی علیہ السلام کو ان القاب کے ساتھ بیان کیا ہوتا تو آپ کا کیا کہنا ہوتا؟
سنی عالم: عمر کا قول ہمارے لئے کافی ثبوت ہوگا۔
علامہ امینی (رح) نے محفل میں ایک مستند سنی کتاب طلب کی۔ درخواست کے مطابق انھیں کتاب لاکے دی گئی۔ علامہ امینی (رح) اس صفحے کی طرف متوجہ ہوئے جہاں یہ حکایت لکھی گئی تھی۔
ایک شخص ، جوخانہ کعبہ کی طواف کرنے میں مصروف تھا ، ناپسندیدہ انداز میں ایک عورت کی طرف دیکھنے لگا۔ علی ابن ابی طالب (علیہما السلام) نے اس حالت میں اسے دیکھا۔ انھوں نے اُسے اپنے ہاتھ سے مارا اور اس طرح سے اسے سزا دینے کی کوشش کی۔ اس شخص نے اپنے چہرے پر ہاتھ رکھا اور علی ابن ابی طالب (علیہما السلام) کے خلاف شکایت کرنے کی نیت سے بے چین انداز میں عمر کے پاس پہنچا۔ اس نے عمر سے سارا واقعہ بیان کیا۔
عمر نے جواب دیا: یقیناً، عین اللہ (اللہ کی آنکھ) نے دیکھا اور ید اللہ (اللہ کے ہاتھ) نے مارا۔
(یہاں شتعارہ یہ ہے کہ: علیؑ کی آنکھوں سے غلطی نہیں ہوسکتی ہیں کیونکہ علی علیہ السلام کی آنکھیں وہ آنکھیں ہیں جو اللہ کے عقیدے کے ساتھ سکھائی گئیں ہیں اور ایسی آنکھ سے کوئی غلطی نہیں ہوسکتی ہے۔ علی علیہ السلام حرکت نہیں کرتے مگر اللہ کے اطمینان کے حصول کے لئے)
جب سنی عالم نے اس روایت کو دیکھا تو وہ اس کے مضمرات کو سمجھ گئے اور علامہ امینی (رح) کے سامنے تسلیم ہوگئے۔
درحقیقت جس طرح روح الله (روح اللہ) جیسی اصطلاحات حضرت عیسیٰ علیہ السلام (اللہ کے ساتھ) ایک قابل احترام رشتے کی تاکید کرتی ہیں اور اس مطلب کے ساتھ نہیں کہ اللہ کا روح ہے ، اللہ کا ہاتھ ید اللہ اور اللہ کی آنکھ عین اللہ نہیں ہے۔ لفظی طور پر لیا جائے اور صرف اس عنوان سے مزین شخص کی حیثیت کو اجاگر کیا جائے۔
نہایہ فی غریب الحدیث وا الاثر از ابن اثیر ، ج۔۳ ، ص۳۳۲
المصنف از عبد الرزاق سنانی ، جلد۱۰ صفحہ ۴۱۰
کنز العمال ، ج۔۵ ، ص ۔۴۶۲
تاریخ مدینہ دمشق ، ج۔۱۷ ، ص۴۲
جواہر المطالب ، ج۔۱ ، ص۔۱۹۹
جامع الاحادیث ، جلد۔۲۶ ، صفحہ۔ ۲۹
جامع معمر بی۔ راشد ، ج۔۱ ، ص ۔۱۴۴
لسان العرب جلد۔۱۳ ص ۔۳۰۹
مدخیل فی اللغت ، محمد عبدالوحید صفحہ ۔۴۹
الامبا المستطاب از ابن سید الکول ، صفحہ۶۲ جیسا کہ شرح احقاق الحق ، ج۔۸ ، ص۔۶۶۵ سے روایت کیا گیا ہے۔اور جلد۳۱ صفحہ۴۹۸ اور ذخائر العقبہ صفحہ ۔۸۲
سمت النجوم العوالی فی انبا الاوائل ، ج۲ ، ص ۔۲۸
الریاض النظرہ، ج۔۱ ، ص۔۲۴۷
مختصر تاریخ دمشق، جلد۳ ،ص ۔۶۶
البصائرو الزخائر ، جلد۔۱ صفحہ ۔۱۲۴
معمولی تغیر کے ساتھ۔