یہ ایک ایسا سوال ہے جس کا جواب دینا کسی بھی مسلمان کے لیے مشکل نہیں ہے۔ مگر خدا برا کرے ناصبیت کا جس نے مسلمانوں میں اہلبیت نبوی کی عظمت کو کم کرنے کی کوئ کسر نہیں چھوڑی ہے۔ اگر یہ سوال شیعوں سے کیا جائے تو ہر ایک کا جواب یہی ہوگا کہ اہلبیت پیغمبر بلا شبہ ‘علیھم السلام’ ہیں مگر جب یہ سوال اہل تسنن علماء سے کیا جاتا ہے تو ان کے یہاں تین طرح کے جواب ملتے ہیں۔ ایک وہابی فکر کے علماء جو اہلبیت اطہار کو علیھم السلام کہنے کے سختی سے مخالف ہیں۔ ان کے یہاں انبیاء کے علاوہ کسی کو علیہ السلام نہیں کہا جاسکتا۔ دوسرا گروہ اس کے برعکس نہ صرف یہ کہ اہلبیت کو علیھم السلام کہنے کا قائل ہے بلکہ وہ اس کا پرجوش دفاع بھی کرتا ہے۔ ان دونوں کے علاوہ ایک تیسرا گروہ وہ ہے جو نہ اس کا پوری طرح سے مخالف ہے اور نہ ہی پوری طرح سے موافق۔ بحر حال جو بھی اہل تسنن علماء اہلبیت پیغمبرؐ کو علیھم السلام کہنے کے مخالف ہیں ان کی دلیل یہ ہے کہ لفظ ‘علیہ السلام’ صرف انبیاء کے لیے استعمال ہوسکتا ہے کسی اور کے لیے نہیں۔اس کی وجہ یہ ہے کہ صرف انبیاء کرام ہی ‘معصوم عن الخطا’ ہیں۔ ان کی یہ دلیل صحیح ہے کہ چونکہ انبیاء معصوم ہیں اس لیے ان کو ‘علیھم السلام’ کہنا چاہیے۔ شیعہ حضرات بھی اس بات کے قائل ہیں۔ ان کے نزدیک قرآن کریم کی آیتیں اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ اہلبیت پیغمبرؐ بھی معصوم ہیں۔ اس وجہ سے وہ ان کے لیے لفظ ‘علیہ السلام’ کا استعمال کرتے ہیں۔ سورہ احزاب کی آیت نمبر ٣٣ یعنی آیئہ تطہیر اس کی سب سے واضح دلیل ہے۔
اِنَّمَا یُرِیْدُ ﷲُ لِیُذْهِبَ عَنْکُمُ الرِّجْسَ اَهْلَ الْبَیْتِ وَیُطَهِرَکُمْ تَطْهِیْرًا (احزاب :٣٣)
” اے اہلبیت پیغمبر اللہ یہ ارادہ کرتا ہے کہ تم سے ہر طرح کے رجس کو دور کردے اور تم کو اس طرح پاک کردے جیسے پاک کرنے کا حق ہے۔”
اس آیت میں واضح طور پر اہلبیت کی پاکیزگی اور عصمت کا اعلان ہورہا ہے۔
تمام اہل تسنن مفسیرین کا اس بات پر اتفاق ہے کہ یہاں پاکیزگی سے مراد شرک و کفراور شک سے پاکیزگی ہے۔ یعنی اہلبیت اطہار کے یہاں شرک و کفر کا گزر نہیں ہے۔
اہل تسنن کے بزرگ عالم احمد ابن حنبل کتاب ‘فضائل الصحابہ’ میں اس آیت کے ضمن میں لکھتے ہیں: رسول خداؐ 6 ماہ کے عرصے تک ہر روز نماز صبح کے لئے نکلتے ہوئے حضرت فاطمہ(س) کے گھر کے دروازے پر رک کر صدا دیتے تھے “اے اہل بیت! نماز! نماز! نماز، اے اہل بیت! ” اللہ کا بس یہ ارادہ ہے کہ تم لوگوں سے ہر گناہ کو دور رکھے اےمیرے اہلبیت ! اللہ تمھیں پاک رکھے جو پاک رکھنے کا حق ہے۔[فضائل الصحابۃ، ج 2 ص 761]۔
اس روایت کو مندرجہ ذیل اہل تسنن کتابوں میں بھی دیکھا جا سکتا ہے۔
• سنن ترمیذی ج ۵ ص ٣۵٢ ح٦
• مسند احمد ابن حنبل ج ۴ ص ۵١٦
• المستدرک علی الصحیحین ج ٣ ص ١٧٢ ح ٣٢٠٦
• المعجم الکبیر ج٣ ص ۵٦ وغیرہ
دوسری آیت جس سے استفادہ کیا جاسکتا ہے وہ ہے سورہ سجدہ کی آیت نمبر ۵٦۔
روایت میں ملتا ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئ:
’’بے شک اللہ اور ا س کے (سب) فرشتے نبیِ (مکرمّ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) پر درود بھیجتے رہتے ہیں، اے ایمان والو! تم (بھی) اُن پر درود بھیجا کرو اور خوب سلام بھیجا کرو‘‘۔
(السجده، 32: 56)
تو صحابہ کرام نے سرور کائناتؐ سے پوچھا:
“یارسول الله کیف نصل علیک؟’
یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! ہم آپ پر کیسے درود پڑھیں؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا:
“قولو اللهم صل علی محمد و۔۔ وذریته کما صلیت علی ابراهیم وعلی آل ابراهیم.”
’’مجھ پر درود ایسے پڑھو: “اے اللہ! محمدؐ پر اور ان کی ۔۔۔۔ ذریت پر درود بھیج جس طرح تو نے ابراہیم (علیہ السلام) اور ان کی آل پر درود بھیجا ہے‘‘۔
(صحیح مسلم باب التسمیع والتحمید والتامین، ج: 1، ص: 306، حدیث: 407)
اس روایت سے یہ واضح ہو جاتا ہے کہ آل محمد (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) پر درود و سلام بھیجنے کا فرمان ایک قرانی حکم ہے۔ بلکہ ان حضرات کے لیے لفظ ‘علیہ السلام’ کا استعمال نہ کرنا حکم قرآن کی خلاف ورزی ہوگا۔
ایک اور معتبر حوالے میں حدیث کے فقرے اس طرح ہیں: آنحضرتؐ نے جواب میں اس طرح فرمایا: “قولوا، اللہم صلّ علی محمد وعلی آل محمد کما صلیت علی آل إبراہیم إنک حمید مجید، اللہم بارک علی محمد وعلی آل محمد کما بارکت علی آل إبراہیم إنک حمید مجید۔”
(صحیح البخاری، کتاب الدعوات، باب الصلاة علی النبي صلی اللہ علیہ وسلم: ۲/۹۴۰، رقم الحدیث: ۶۱۱۲) اس روایت میں بھی آل پاک کا ذکر موجود ہے مگر ازواج کو اس درود میں شامل نہیں کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ نماز کی قبولیت کے لیے بھی محمدؐ اور آل محمدؐ پر درود پڑھنا لازمی ہے۔ یہ تمام دلائل اس بات کو ثابت کرتے ہیں آل محمدؐ کے لیے لفظ ‘علیہ السلام’ کا استعمال حکم قرآن اور حکم رسولؐ ہے۔
اہل تسنن کے یہاں ناصبی اور خارجی فکر رکھنے والے علماء اور مفتیان کی ہر آن کوشش رہتی ہے کہ کسی طرح مسلمانوں کو اہلبیت کی محبت سے دور کر دیا جائے۔ اپنی برادری کے دوسرے مسلمانوں کو اہلبیت کے راستے سے روکنے کے لیے وہ یہ کہہ دیتے ہیں کہ یہ روش شیعوں کی ہے جو روافض ہیں اس لیے کہ یہ اہل بدعت کا دستور ہے کہ وہ آل رسولؐ کے لیے ‘علیہ السلام’ استعمال کرتے ہیں۔ یہ بدعقیدہ نام نہاد مسلمان، وہابی مفتیان در حقیقت خود اہل سنت کا نام خراب کرتے ہیں۔ شاید وہ یہ نہیں جانتے کہ اہل تسنن کے کئ بزرگ علماء نے لفظ ‘علیہ السلام’ کو پنجتن پاک کی ہر فرد کے لیے اپنی اپنی کتابوں میں استعمال کیا ہے۔ چند مثالیں پیش خدمت ہیں۔
• صحیح بخاری مع فتح الباری مطبوعہ مصر جلد ششم صفحات ١٧٧، ١٣١،١٣٢، ١٢٢ پر جناب فاطمہ (س) کے لیے ‘علیہا السلام’ لکھا ہے۔
اسی کتاب کے صفحہ ١١٩ پر امام حسین ابن علی کے لیے ‘علیہما السلام’ تحریر ہے۔
• کتاب عمدة القاری شرح صحیح بخاری جلد ہفتم ص ٢٣٧ (مطبوعہ قسطنطنیہ) پر جناب فاطمہ (س) کے لیے ‘علیہا السلام’ لکھا ہے۔
• اسی طرح کی تحریر ارشاد الباری شرح صحیح بخاری جلد ایک صفحہ ٩٧ (مطبوعہ قسطنطنیہ) پر دیکھی جاسکتی ہے۔
• اہل تسنن کے بزرگ مفسر قرآن علامہ فخر الدین رازی نے تفسیر کبیر جلد ٢ صفحہ ٧٠٠ (مطبوعہ دار الطباعة العاصرہ قسطنطنیہ) پر اور جلد ہشتم صفحہ ٣٢٢ پر حضرات حسنین اور مولا علی کے ناموں کے ساتھ ‘علیہ السلام’ لگایا ہے۔
•قاضی ثناء اللہ پانی پتی نے اپنی تالیف تفسیر مظہری جلد ٧ صفحہ ۴١٢ پر ‘حسین بن علی علیہما السلام’ لکھا ہے۔
• حتّیٰ کہ شیعوں کی رد میں لکھی جانے والی کتاب ‘تحفئہ اثناعشریہ’ میں متعدد مقامات پر پنجتن پاک کے اسماء کے ساتھ لفظ ‘علیہ السلام’ کا استعمال ہوا ہے۔
لہذا وہابی علماء کا یہ کہنا کہ اہلبیت علیہم السلام کے اسمآء گرامی کے ساتھ لفظ ‘علیہ السلام’ لگانا بدعت ہے، ایک جھوٹ ہے. بلکہ یہ اہلبیت اطہار کا حق ہے کہ ان کے احترام میں ان کے اسماء گرامی کے ساتھ ‘علیہ السلام’ لگایا جاے۔ حقیقت تو یہ ہے یہ ناصبی علماء بغض اہلبیت کی بیماری میں مبتلا ہیں اور اس کی وجہ مندرجہ ذیل حدیث میں موجود ہے۔
ایک حدیث میں ملتا ہے کہ آنحضرت صلی اﷲ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں:’من لم یعرف حق عترتی فلاحدی ثلث امّا منافق وامّا ولدزانیۃ واما حملتہ امّہ علٰی غیر طھر۔’
۔جومیری اولاد کاحق نہ پہچانے وہ تین باتوں میں سے ایک سے خالی نہیں، یا تومنافق ہے یاحرام زادہ ہے یاعالم نجاست میں نطفہ منعقد ہوا ہے۔
( کنزالعمال: ح ۳۴۱۹۹،مؤسسۃ الرسالہ بیروت ۲ /۱۰۴)
احادیث پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں ایک مشہور حدیث ہے جو اس مطلب کےلئے قول فصل ہے آنحضرت نے على ابن ابى طالب کے لئے فرمایا: لحمه لحمى .. یا :دمه دمى انکا گوشت میرا گوشت ہے انکا خون میرا خون ہے۔
حقیقت تو یہ ہے کہ جو نبئ رحمت کے مانند گوشت پوست اور خون رکھتا ہو وہ احترام میں بھی نبیؐ کے جیسا ہی ہوگا ورنہ وہ لوگ جو نبی اکرم (ص) کا احترام نہ جانتے ہوں وہ آل نبی (ع) کا احترام کیا جانیں گے۔