آمدِ مولود کعبہ

آمدِ مولود کعبہ

تیرہ رجب کی بابرکت تاریخ کو وصیء رسولؐ حضرت علیؑ ابن ابی طالبؑ کی ولادت خانہ کعبہ میں ہوئ۔ یہی سبب ہے کہ ہر سال اس تاریخ کو اہل ایمان ولادتِ امیر المومنین کی خوشیاں مناتے ہیں۔ تمام شیعہ علماء اور اہل تسنن علماء کی اکثریت اس بات پر اتفاق کرتی ہے کہ حضرت علی علیہ السلام کی ولادت خانہ کعبہ میں ہوئ تھی. اس واقعہ کے ایک چشم دید معتبر اور مستند گواہ رسول اللہ (ص) اور مولا علیؑ کے چچا جناب عبّاس ہیں۔ وہ روایت کرتے ہیں کہ میں قریش کی ایک جماعت کے ساتھ صحنِ کعبہ میں بیٹھا تھا۔ ہم نے دیکھا کہ (جناب) فاطمؑہ بنت اسد (مادرِ علیؑ) جو اس وقت حاملہ تھیں، وہاں آئیں اور کعبے کے دروازے کے پاس جاکر اس طرح دعا کرنے لگیں: “اللّهم إنّی آمنت بک وبکلّ کتاب أنزلت، أسألک بحقّ جدّی إبراهیم خلیلک البانی لهذا البیت، وبحقّ هذا الجنین الذی قد حملته أن تسهّل علیَّ وضعه.”
پروردگار میں تجھ پر ایمان رکھتی ہوں اور ان تمام کتابوں پر بھی ایمان رکھتی ہوں جو تو نے نازل کی ہیں۔ میں تجھ سے اپنے جد ابراہیمؑ، جو تیرے خلیل ہیں اور اس گھر کے تعمیر کرنے والے ہیں ان کے واسطے سے اور اس بچّے کے واسطے سے جو میرے بطن میں ہے، تجھ سے دعا کرتی ہوں کہ میرے لیے اس وضعء حمل کو آسان بنادے۔”

عبّاس کہتے ہیں کہ ہم نے دیکھا کہ دیوارِ کعبہ شق ہوئ اور فاطمہؑ بنت اسد بیت اللہ میں داخل ہوگئیں۔ ہم نے بہت کوشش کی کہ باہر سے دروازے کو کھولیں مگر ہمارے ہاتھ کوئ کامیابی نہ آئ۔ اس طرح تین دن گزر گئے۔ چوتھے روز دیکھا گیا کہ فاطمہؑ بنت اسد اپنی آغوش میں ایک نو مولود بچے کو لیکر کعبے سے برآمد ہوئیں۔ فاطمہؑ بنت اسد نے باہر آتے ہی کہا:
“فضّلنی الله علی النساء بالولادة فی بیته، وأطعمنی من فواکه الجنّة، وسمعت قائلا من السماء ۔”
اللہ نے مجھے دوسری عورتوں پر فضیلت بخشی ہے اس لیے کہ صرف میں ہی ہوں جس نے خدا کے گھر کے اندر ایک بچّے کو جنم دیا۔ اس خدا نے مجھے جنت کی غزا کھلائ ہے۔ میں اس بچے کی ولادت پر آسمان سے ایک آواز سنی ہے کہ جو مجھ سے کہہ رہی تھی:
“یافاطمة، سمّیه علیاً، فإنّ الله العلی الأعلی قد اشتقّ له اسماً من اسمه”
اے فاطمہؑ! اس کا نام ‘علی’ رکھ دو کیوں کہ اللہ خود علی الاعلیٰ ہے اور اس نے اپنے نام پر اس بچے کا نام رکھا ہے۔”

اس روایت کو مندرجہ ذیل حوالہ جات میں دیکھا جا سکتا ہے :
• علل الشرائع: ۳/۱۳۵
• معانی الأخبار: ۱۰/۶۲
•الأمالی صدوق: ۹/۱۹۴
• أمالی شیخ الطوسی: ۷۰۶
• روضة الواعظین ۱۹۰/۱۹۲: ۱
• الخرائج والجرائح ۱۷۱: ۱
• الثاقب فی المناقب ۱۷۳/۱۹۷
• کشف الیقین: ۱۷،
• کتاب الأربعین: ۶۰،

اس روایت میں ایک اہم بات یہ ہے کہ بقول جناب فاطمہؑ بنت اسد نہ صرف یہ کہ بیت اللہ میں ولادت مولا علیؑ کی ایک اہم فضیلت ہے بلکہ ان کی مادرگرامی کی بھی فضیلت ہے کہ اللہ نے ان کو اپنے گھر میں زچگی کی اجازت عطا فرمائ۔

دوسری اہم بات یہ ہے کہ اللہ رب العزت نے فرزند ابو طالبؑ کا نام اپنے نام سے ملاکر ‘علی’ رکھا ہے۔ شائد یہی سبب ہے کہ دشمنان خدا کو نام علی ناپسند ہے۔

شاعر نے کیا خوب کہا ہے:
‘علیؑ’ کا نام لبوں کے کنول میں رہتا ہے،
یہ بادشاہ اکیلا محل میں رہتا ہے۔

Short URL : https://saqlain.org/so/7l7e