سید الشہداء امام حسین علیہ السلام کی عزاداری شیعیان علیؑ کو دوسرے فرقوں سے مخصوص شناخت عطا کرتی ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ شیعوں کے علاوہ کوئ اور فرقہ امام حسینؑ کا غم نہیں مناتا۔ مگر جو طریقہ شیعہ اثنا عشری میں عزاداری کارائج ہے وہ دیگر مذاہب میں نہیں ہے۔ شیعوں کے مخالفین عزاداری اور اس کے مراسم پر بھی بھر پور اعتراضات کرتے رہتے ہیں۔ ‘رونا حرام ہے’، تعزیہ و علم کا بنانا بدعت ہے’، ائمہ کی قبروں پر حاضری دینا شرک ہے’ وغیرہ قسم کے نعروں کی بازگشت کا سلسلہ محرم کی آمد سے شروع ہوجاتا ہے۔ انھیں اعتراضات میں سے ایک اعتراض عزاداری میں کالے لباس کے استعمال پر ہوتا ہے۔ بلکہ کچھ اس طرح کی آواز خود شیعوں میں بھی سنائ دیتی ہے کہ ‘کیا بغیر کالے لباس کے عزاداری نہیں ہو سکتی؟’ اہل تسنن کے اس اعتراض کا جواب ہم خود ان کی کتابوں سے پیش کر رہے ہیں ساتھ ہی ساتھ شیعہ حضرات پر سیاہ لباس کی اہمیت واضح کرنے کے لیے کچھ معتبر روایات شیعہ کتب سے بھی پیش کر رہے ہیں۔
کالا لباس علامت غم ہے
عربوں کی تاریخ میں یہ بات مشہور ہے کہ کالا لباس سوگ کی علامت ہے۔ اہل تسنن کے علماء نے بھی اس بات کو نقل کیا ہے کہ جب جناب جعفرؓ طیّار شہید ہوے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کی بیوہ جناب اسماء بنت عمیس کو حکم دیا کہ سوگ میں تین دن تک کالا لباس زیب تن کریں-
تاریخ بتاتی ہے کہ کوفے میں جب اميرالمؤمنين(ع) شھید ہوئے تو عبدالله بن عباس نے لوگوں سے کہا “(افسوس کہ)علی(علیہ السلام) شھید کر دیے گئے۔ وہ اپنا جانشین منتخب کر گئے ہیں۔ اگر تم ان کی بیعت کرنے کا ارادہ رکھتے ہو تو وہ تمھارے درمیان آجائیں ورنہ کسی پر کوئی زور و زبر دستی نہیں ہے۔” لوگ یہ سن کر رونے لگے اور کہا کہ ہاں مولا کا جانشین باہر آئے۔ پس امام حسن(علیہ السلام) لوگوں کے سامنے آئے اور آپؑ نے ان کے لیے ایک خطبہ ارشاد فرمایا…………
امام جس وقت لوگوں کے سامنے تشریف لائے، آپؑ کالا لباس پہنے ہوے تھے۔
(اہل تسنن عالم :إبن أبيالحديد المدائني المعتزلي، شرح نهج البلاغة، ج 16 ، صفحہ 22۔)
اس روایت کو علامہ ذہبی نے بھی دو جگہ اپنی کتاب میں ابی رزين سے نقل کیا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ:
“شريك عن عاصم عن أبي رزين قال خطبنا الحسن بن علي وعليه ثياب سود وعمامة سوداء…”
…بعد شہادت امیر المومنین جب (امام) حسن ابن علی(علیہما السلام) نے خطبہ دیا تو آپؑ کالا لباس پہنے ہوے تھے اور سر پر کالا عمامہ رکھے ہوئے تھے۔
(سير أعلام النبلاء ج 3 ص 267 و ص 272)
ان دونوں روایات سے ظاہر ہوجاتا ہے کہ امام حسن مجتبٰی علیہ السلام نے اپنے والد کی شہادت پر اظہار غم کے لیے کالا لباس پہن رکھا تھا۔ اس لیے یہ عمل صرف عربوں کا رواج نہیں ہے بلکہ سنّت ائمہ اور اہلبیتؑ کی روش بھی ہے۔
ام المومنین ام سلمہ کی عزاداری
جناب ام سلمہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ایک مقدس بیوی تھیں۔ سرور عالم کی ایسی رازدار خاتون تھیں کہ آپ کو آنحضرتؐ نے مستقبل کی کئ باتوں سے باخبر کیا تھا۔ آپ کا اہلبیت پیغمبر سے محبت کرنا تاریخ و روایات میں مشہور ہے۔ جناب ام سلمہ اولاد فاطمہ صلوات اللہ علیہا کے لیے نانی کا مرتبہ رکھتی تھیں۔ اور رسول اللہؐ کا خانوادہ بھی ان سے اسی طرح محبت کرتا تھا۔ آپ کو نواسئہ رسولؐ، امام حسین علیہ السلام سے خصوصی محبت تھی اور امام حسین علیہ السلام بھی ان سے بہت مانوس تھے۔
یہ روایت شیعہ کتابوں میں تو موجود ہے ہی، اہل تسنن عالم ترمذی نے بھی اس روایت کو معتبر سند سے نقل کیا ہے۔
“ام سلمه نے عصر عاشورہ، رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو خواب میں اس حال میں دیکھا كہ آنحضرتؐ کے سر پر خاک پڑی تھی اور چہرے پر گرد و غبار نمایاں تھا۔ ام سلمہ نے رسولؐ خدا کی اس افسردہ حالت کے بارے میں سوال کیا تو آپؐ نے جواب دیا:
ابھی ابھی حسينؑ كو شھید کر دیا گیا ہے۔”
اس روایت کو ابن ہجر ہیثمی نے بھی اپنی کتاب صواعق المحرقہ ج 2 ص 567 پر نقل کیا ہے۔
اس خبر سے جناب ام سلمہ پر مصائب کا ایک پہاڑ ٹوٹ پڑا۔ آپ نے بھی اپنا حال مصیبت زدہ لوگوں جیسا بنالیا۔ آپ نے دنیا کے تمام کاموں کو چھوڑ کر فرزند رسولؐ، سبط اصغر، سید الشہداءؑ پر گریہ کر نے کے لیے خود کو مصروف کر لیا۔
روایت بتاتی ہے کہ
“عن ابى نعيم باسناده عن ام سلمه رضوان الله عليها انّها لمّا بلغها مقتل الامام الحسين بن على(عليهما السلام) اضربت قبة سوداء فى مسجد رسول الله(صلى الله عليه وآله) ولبست السواد.”
ام المومنین جناب ام سلمہ نے شہادت امام حسين (ع) کے بعد مسجد نبوی میں کالا خيمہ لگادیا اور خود بھی سوگ میں کالا لباس پہن لیا۔
(عيون الاخبار و فنون الآثار، ص 109)
ان روایات سے نہ صرف یہ کہ امام حسین علیہ السلام پر گریہ کرنے کی اہمیت کا پتہ چلتا ہے۔ بلکہ یہ بھی معلوم ہوجاتا ہے کہ اسلام کی معتبر اور محترم ہستیوں نے کس طرح سید الشہداء علیہ السلام کی عزاداری کا انتظام کیا اور کالے لباس کو عزاداری کا جز شمار کیا ہے۔
پہلی مجلسی عزا اور کالا لباس
جب کربلا کے لٹے ہوے قافلے کو شام میں رہائ کی خبر ملی تو انھوں نے اپنی آزادی کے لیے شرط یہ لگائ کہ انھیں سیدؑ مظلوم پر گریہ کرنے کی اجازت دی جاے۔ اس طرح خود یزید ملعون کے گھر میں ہی پہلی مجلسِ حسینؑ برپا کی گئ۔ جس میں ام المصائب ہمشیرہ مقتولِ کربلا جناب زینبؑ اور ان کی بہن جناب ام کلثوم علیہما السلام نے مصائب بیان کئے اور پرسہ دینے والی شام کی عورتیں تھیں۔ یہ مجلس کس طرح برپا کی گئ اس کا ذکر تاریخ میں اس طرح مرقوم ہے:
…فلما أصبح استدعى بحرم رسول الله صلى الله عليه وآله فقال لهن: أيما أحب إليكن:
المقام عندي أو الرجوع إلى المدينة ولكم الجائزة السنية قالوا: نحب أولا أن ننوح على الحسين قال: افعلوا ما بدا لكم ثم أخليت لهن الحجر والبيوت في دمشق ولم تبق هاشمية ولا قرشية إلا ولبست السواد على الحسين وندبوه على ما نقل سبعة أيام…
بحار الانوار جلد ٤٥ صفہ ١٩٦
۔۔۔جب صبح ہوئی تو یزید نے اہل بیت رسولؐ اللہ کو اپنے پاس بلایا اور کہا،” آپ یہاں رہنا چاہتے ہیں یا مدینے واپس جانا چاہتے ہیں؟ تمہارے لئے بیش بہاتحفے بہی ہیں۔ اہل بیت نے کہا: ہم سب سے پہلے امام حسینؑ پر نوحہ خوانی اور عزاداری کرنا چاہتے ہیں۔
یزید نے کہا: جو آپ کا جی چاہے کیجئے۔
پھر شام میں کچھ کمرے خالی کرائے گۓ اور انھوں نے عزاداری شروع کی- کوئ ہاشمی اور قریشی عورت ایسی نہیں تھی جس نے امام حسینؑ کے غم میں کالا لباس نہ پہنا ہو۔ انھوں نے وہاں سات دن تک عزاداری کی۔
معتبر کتب احادیث میں یہ بھی نقل ہوا ہے کہ اپنے وطن مدینہ پہنچ کر بنی ہاشم کی عورتیں دن رات اپنے سیّد و سردار امام حسینؑ اور ان کے ساتھ شہید ہونے والے اصحاب کا ماتم کرتی رہیں.
امام سجّادؑ کا بیان ہے:” …امام حسینؑ کی شہادت کے بعد بنی ہاشم کی عورتیں کالے لباس پہن کر عزاداری کرتی تھیں انھیں نہ گرمی کی پرواہ ہوتی اور نہ سردی کی شدّت کا احساس ہوتا اور (خود) امام سجّادؑ اُن کے لئے غذا تیّار کرتے تھے. المحاسن جلد ٢ صفہ ٤٢٠
اس روایت سے بھی یہ واضح ہوجاتا ہے کہ یقینًا کالا لباس عزائے حسین علیہ السلام کا ایک جز ہے۔
ع اچھی لگتی ہے سیہ پوشیء کعبہ ہم کو،
یا تو جنچتی ہے یہ پوشاک عزاداروں پر’