یا ایھا الرسول بلغ ما انزل ایک من ربک فان لم تفعل فما بلغت رسالتہ… (مآئدہ:٦٧)
اے رسول ! آپ اس پیغام کی امت پر تبلیغ کر دیجیے جو آپؐ کے رب نے آپؐ پر نازل کیا ہے۔ اگر آپ نے ایسا نہ کیا تو گویا آپؐ نے کوئ کارِ رسالت انجام نہ دیا…
اس آیہء کریمہ میں الله سبحانہ و تعالیٰ کا اپنے آخری پیغمبرؐ کے لیے واضح حکم تھا کہ اس پیغام کو پہنچا دیجئے جو آپؐ کی رسالت کا محافظ ہے۔ اگر آپؐ نے اپنے اہلبیتؑ کی ولایت کا ‘سرکاری اعلان’ نہ کیا تو آپؐ کی اور تمام انبیاء و مرسلین کی قربانیاں ضائع ہوجائیں گی۔ آپؐ کی امت شیاطین کے فریب میں آکر ہمیشہ کے لیے گمراہی کا راستہ اختیار کرلے گی۔یعنی اے میرے حبیب! اگر آپؐ نے اعلان ولایت مرتضوی میں تاخیر کی اور آپؐ کو قتل کر دیا گیا تو منافقین سامری کی طرح آپؐ کی پوری امت کو جاہلیت کے اندھیرے میں ڈھکیل دیں گے۔ اور اگر امت آپؐ کے اہلبیت کے دامن سے وابستہ رہی تو تاقیامت گمراہ نہ ہوگی۔ یہی سبب تھا جو مرسلِ اعظم (ص) نے غدیر خم کے تپتے ہوئے صحرا میں اپنے قافلے کو روکا اور پورے اہتمام کے ساتھ ولایت و امامتِ علیؑ ابن ابی طالبؑ کا اعلان کیا۔ یہ اعلان اس طرح کیا گیا کہ آج تک امت کو “من کنت مولاہ فھذا علی مولاہ” کے جملے یاد ہیں۔ سرورِ کائنات نے اس طویل خطبے میں حضرت علی کی ولایت کے ساتھ ساتھ ان کے بعد کے دیگر گیارہ ائمہؑ کی امامت کا بھی اجمالی ذکر کیا۔ اسی ذکر میں رسول اکرم (ص) نے سلسلہ ء امامت کی آخری کڑی خاتم الائمہ حضرت ولی عصر امام مہدی (عج) کا بطور خاص ذکر کیا ہے۔
خطبہ ء غدیر میں امام زمانہ علیہ السلام سے متعلق جو جملے استعمال ہوئے ہیں ان میں سے چند ایک یہ ہیں:-
١- امام مہدی (عج) کا تعارف:
“معاشرالناس انی نبی و علیؑ وصی و ان خاتم الائمۃ منا القائمؑ المھدی’’
اے لوگو! جان لو ، بیشک میں نبی ہوں اور علیؑ وصی ہیں اور آگاہ ہو جاؤ کہ خاتم الائمہ ہم اہلبیتؑ سے مہدی قائم علیہ السلام ہیں ۔
اس جملے میں آنحضرتؐ نے امام مہدی عج کے حسب و نسب دونوں بیان فرما دیے۔ اولًا یہ کہ امام مہدیؑ خاندان رسالت کے ایک اہم فرد ہیں ، لفظ ‘مِنّا’ ظاہر کرتا ہے کہ امام مہدیؑ کو رسولؐ اللہ اور مولا علیؑ سے ایک خاص نسبت حاصل ہے. یہ بات بھی قابل توجہ ہے کہ سرور کائنات (ص) نے امام مہدی کے تعارّف کے لیے تین القاب کا استعمال کیا ہے۔ ‘خاتم الائمہ’ یہ لقب امت کو بتاتا ہے کہ امامت ایک سلسلہ ہے جو مولا علیؑ کی امامت سے شروع ہوتا ہے اور امام مہدی (عج) پر ختم ہوتا ہے۔ دوسرا لفظ ‘مہدی’ , (جس کے معنی ہدایت یافتہ کے ہیں ) بتاتا ہے کہ امامت اسی شخص کے لیے مناسب ہے جو خود ہدایت یافتہ ہو۔ جس کی رہنمائی میں امت صراط مستقیم پر ثابت قدم رہے اور دنیا میں بھلائی اور آخرت میں نجات حاصل کر سکے۔ تیسرا لقب ہے ‘قائم’، یہ لقب بہت سی روایات میں خصوصی طور پر امام مہدی کے لیے استعمال ہوا ہے۔
امامؑ کے اس لقب ‘قائم’ کی وضاحت امام باقر کے قول سے ہوتی ہے ، امام محمد باقر علیہ السلام فرماتے ہیں،”جب میرے جد (امام) حسینؑ کو شہید کیا گیا تو ملائکہ نے خدا کی بارگاہ میں فریاد کی:’اے ہمارے رب! کیا تو اپنے منتخب بندے کے فرزند کو شہید کرنے والوں کو نظرانداز کردے گا؟ (کیا تو اس کا انتقام نہیں لے گا؟) اس وقت اللہ نے ملائکہ کو تسلی دی اور اس کے بعد خداوند عالم نے ملائکہ کے سامنے سے حجاب ہٹایا تاکہ وہ امام حسینؑ کی نسل کے اماموں کی زیارت کر سکیں۔ ان میں ایک امام نماز میں قیام کی حالت میں تھا۔ اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کو ان کی طرف متوجہ کراتے ہوئے فرمایا :”بذالک القائم انتقم منھم” یعنی میں اس قائم (قیام کرنے والے) کے ذریعہ سے حسینؑ کے قاتلوں سے بدلہ لوں گا۔”
(دلائل الامامۃ٬ ص٢٣٩)
۲۔ امام مہدی (ع) کے ذریعہ پوری دنیا پر توحید کا پرچم لہرائے گا:
:‘‘الا انہ الظاھر علی الدین ” یعنی ’’آگاہ ہو جاؤ کہ وہ (مہدی علیہ السلام) تمام ادیان پر غلبہ حاصل کرنے والے ہیں۔”
آغاز بشریت کے وقت سے آج تک ایسا موقع نہیں آیا کہ پوری دنیا پر صرف توحید کا پرچم لہراہا ہو۔ ہمیشہ دنیا کے کسی نہ کسی کونے میں بت پرستی ہوتی رہی ہے۔ جبکہ اللہ کا اہل ایمان سے یہ وعدہ رہا ہے کہ وہ دین اسلام کو تمام باطل ادیان پر غلبہ عطا کرے گا۔
قرآن مجید میں یہ وعدہ اس طرح بیان ہوا ہے:‘‘ھو الذی ارسل رسولہ بالھدیٰ و دین الحق لیظھرہ علی الدین کلہ و لو کرہ المشرکون’’ ﴿صف:٩﴾
اللہ ، وہی ہے جس نے اپنے رسولؐ کو ہدایت اور دین حق کے ساتھ مبعوث کیا تا کہ وہ اس دین کو تمام ادیان پر غلبہ عطا کرے، اگرچہ مشرکوں کو ناگوار گزرے ۔”
یہی بشارت رسولؐ اکرم نے میدان غدیر میں سوا لاکھ حاجیوں کو دی اس موقع پر آپ نے یہ جملے ارشاد فرماۓ :
“آگاہ ہو جاؤ کہ وہ (مہدی علیہ السلام) تمام ادیان پر غلبہ حاصل کرنے والے ہیں۔”
۳۔ امام مہدیؑ کے ذریعہ اللہ ظالموں سے انتقام لے گا:-
تاریخ بشریت گواہ ہے کہ باطل پرست افراد نے ہمیشہ دین دار افراد پر ظلم کیا ہے۔ خاص طور پر انبیاۓ کرام اور ان کے ماننے والے ہمیشہ ظلم و جور کا شکار رہے۔ پیغمبر اسلام کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا۔ افسوس تو اس بات کا ہے کہ رسولؐ اسلام کا کلمہ پڑھنے والوں نے بھی خانوادۂ رسولؐ پر بے شمار مظالم ڈھائے۔ ان ظالموں نے ابھی تک اپنے مظالم کی سزا نہیں پائی ہے ۔امام مہدی علیہ السلام کی حکومت کے دور ہی میں ان ظالموں اور جنایت کاروں سے انتقام لیا جائے گا۔. اسی لئے رسول خدا (ص) نے خطبہ ء غدیر میں مظلوموں کو تسلی اور دلاسہ دیتے ہوئے ارشاد فرمایا:
‘‘الا انہ المنتقم من الظالمین’’ یعنی “آگاہ ہو جاؤ کہ وہ ﴿امام المہدی (ع)﴾ ظالموں سے انتقام لینےوالے ہیں۔” نیز فرمایا:‘‘الا انہ المدرک بکل ثار لاولیاء اللہ عزوجل’’ یعنی “آگاہ ہو جاؤ کہ وہ دوستداران خدا کے ہر خون ناحق کا بدلہ لینے والے ہیں۔” لفظ ‘ثار’ انقلاب کے معنی میں بھی آتا ہے اور ‘خون’ کے معنی میں بھی۔ جن لوگوں نے بھی اولیاء اللہ کا خون بہایا ہے اور ان کو شہید کیا ہے ، وہ ان سے شخصی دشمنی نہیں رکھتے تھے۔ اولیاء اللہ کے قاتلوں کو در اصل اللہ اور اس کے دین سے دشمنی تھی جو انھوں نے ان مقدس ہستیوں کا قتل کرکے ظاہر کی تھی۔ اس لیے اللہ کے لیے یہ ہے کہ اس خون کا بدلہ لے۔ اللہ امام مہدی کے ذریعہ ان قاتلوں اور ظالموں سے انتقام لے گا۔
اسی بات کی طرف مرسل اعظم نے ان جملوں میں اشارہ کیا ہے- ‘‘الا انہ المدرک بکل ثار لاولیاء اللہ عزوجل’’ یعنی “آگاہ ہو جاؤ کہ وہ اولیاءاللہ کے خون کا بدلہ لیں گے۔”
۴۔ امام مہدیؑ کا لشکر تمام مشرکین پر غلبہ پالے گا:
خطبہ ء غدیر صرف حاضرین کے لیے ہی نہیں بلکہ تمام آنے والی نسلوں کے لیے بیان کیا گیا تھا۔ اسی لیے آنحضرتؐ نے غدیر میں موجود حاجیوں کے ساتھ ساتھ آنے والی نسلوں کو بھی خوشخبری دی کہ امام مہدی (ع) دنیا کی تمام طاقتوں اور قدرتوں پر غلبہ حاصل کریں گے ،آپ نے ارشاد فرمایا:‘‘الا انہ فاتح الحصون” یعنی “آگاہ ہو جاؤ کہ وہ قلعوں کوفتح کرنے والے اورانھیں ڈھانے والے ہیں۔” آپؐ نے مزید فرمایا:
‘‘الا انہ غالب کل قبیلۃ من اہل الشرک و ھادیھا’ یعنی ’آگاہ ہو جاؤ کہ وہ اہل شرک کے ہر قبیلہ پر غالب آجائیں گے اور پھر ان کی راہ راست کی طرف ہدایت کریں گے۔’ اور یہ بھی کہ “الاانہ لا غالب لہ و لا منصور علیہ” یعنی ’’آگاہ ہو جاؤ کہ ان پر کوئی بھی غالب نہ ہو گا اور نہ ہی ان کے مقابلہ میں کسی کی مدد ہو گی۔”
ان تمام جملوں سے یہ پتہ چلتا ہے کہ گرچہ امام مہدیؑ کے ظہور سے پہلے اہل شرک کی حکومتیں مضبوط قلعوں سے محفوظ ہوں گی، اس کے باوجود بھی امام مہدیؑ ان تمام حکومتوں پر فتح حاصل کرلیں گے اور ان کے قلعوں کو فتح کرکے ان میں موجود شرک کی علامتوں کو ڈھا دیں گے۔ اس کے بعد آپؑ قبیلوں کو اسلام کی ہدایت دیں گے تاکہ وہ دنیا و آخرت کی کامیابی پا لیں۔باوجود اس کے کہ امام مہدی کے ظہور سے قبل اہل شرک کی حکومتیں مضبوط قلعوں میں محفوظ ہوں گی ۔
۴۔امام مہدیؑ تمام علوم کے وارث ہیں۔
ایک روایت میں بیان ہوا ہے کہ علم کے ٢٧ حروف میں سے انسانوں کے پاس صرف دو حروف کے اندازے کے مطابق علم ہے اور ٢٥ علم آپ کے ظہور کے وقت مشخص ہوں گے۔ یہی سبب ہے کہ زمانہ ظہور میں دینی اور دنیوی علوم اپنے اوج پر ہوں گے اس لئے کہ آنحضرت تمام انبیاء اور ائمہ معصومین علیہم السلام کے علوم کے وارث ہیں اور علوم الہی کے بحر بیکراں سے بہرہ مند ہیں ۔
رسول خدا نے ارشاد فرمایا: ‘‘الا انہ الغَرّافُ من بحر عمیق’ یعنی ’آگاہ ہو جاؤ کہ وہ ﴿علوم الٰہی ﴾کے عمیق سمندر سے بے شمار پیمانے بھریں گے۔” نیز ارشاد فرمایا: ‘‘الا انہ وارث کل علم و المحیط بکل فھم” یعنی ’’آگاہ ہو جاؤ کہ وہ تمام علوم کے وارث اور اس پر مکمل احاطہ رکھنے والے ہیں ۔” اور یہ کہ ‘‘الا انہ المخبر من ربہ عزوجل المشید لامر آیاتہ” یعنی “آگاہ ہو جاؤ کہ وہ اپنے پررودگار کی طرف سے خبر دیں گے اور اس کی نشانیوں کو محکم و قائم کریں گے۔” اس بارے میں متعدد احادیث وارد ہوئی ہیں کہ امام مہدیؑ کے دورِ ظہور (حکومت) میں ہر ایک جوان علم دین سے مالامال ہوگا۔ حضرت ولی عصر کے دور حکومت میں عوام کو قرآن کا حقیقی علم حاصل ہوگا. خود امامؑ اتنے علوم کی تعلیم دیں گے کہ اس سے پہلے بشریت نے ان علوم کو نہ سنا ہوگا نہ پڑھا ہوگا،در اصل یہ وہی دور ہوگا جب ساری کائنات کاباب مدینۃ العلم کے وارث سے رشتہ قائم ہو جائیگا اور ہر طرف علم و کمال کا بول بالا ہوگا۔
اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں دعا ہے کہ پروردگار ان ایام کو ہم سے قریب کردے جب ہم اپنے امام وقت کی حکومت میں زندگی بسر کریں اور ان کے لشکر میں شامل ہوکر جناب زہراء سلام اللہ علیہا کے خون کا بدلہ لیں۔ آمین یا رب العالمین۔