کیا ہے نماز تراویح کی حقیقت؟

رمضان وہ مہینہ ہے جس کو حق سبحانہُ و تعالیٰ سکتا ہے جب اس کو اسی طرح عمل میں لایا جائے، جیسے اللہ اور اس کے رسولؐ نے بیان کیا ہے۔ یہی سبب ہے کہ ماہ رمضان میں مسلمان جو نماز تراویح پڑھتے ہیں اس پر کئ سوالیہ نشانات لگے ہوئے ہیں۔ پہلا سوال تو یہی ہے کہ یہ نماز سنت ہے یا بدعت؟ یعنی کیا یہ نماز رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اسی شکل میں ادا کی تھی؟ اس نماز کی ابتداء کب سے ہوئ؟ کیا دورِ خلافت میں یہ نماز رائج تھی؟ کیا یہ نماز دوسرے خلیفہ نے اس شکل میں شروع کروائ؟ اس میں کتنی رکعتیں ہونی چاہیئں؟ وغیرہ۔

اہل تشیع اس نماز کے بالکل قائل نہیں ہیں کیونکہ ان کے نزدیک یہ ایک بدعت ہے جس کو خلیفہ دوم نے شروع کروایا۔ اہل تسنن کے اکثر علماء بھی اس بات کے قائل ہیں کہ یہ نماز اس شکل میں دوسری خلافت کے دور میں شروع ہوئ ہے۔ اس کی دلیل یہ روایت ہے جو کہ صحیح بخاری میں موجود ہے۔

۔…”عن عبدالرحمن بن عبدالقاری؛ انہ قال:خرجت مع عمر بن الخطاب لیلة فی رمضان الیٰ المسجد ،فاذاالناس اوزاع متفرقون، یصلی الرجل لنفسہ، ویصلی الرجل،فیصلی بصلوتہ ا لرھط، فقال عمر:اٴِنِّی اٴَریٰ لو جمعت ھٰولاء علی قاریٴ واحد لکان امثل، ثم عزم فجمعھم علیٰ ابی بن کعب، ثم خرجت معہ لیلةاخریٰ، والناس یُصلُّون بصلاة قارئھم ،قال عمر:نعم البدعةھذہ…۔“

عبدالرحمن بن عبد القاری سے منقول ہے :
“ایک روز میں رمضان المبارک کی شب میں عمر بن خطاب کے ساتھ مسجد کی طرف گیا تو دیکھا کہ لوگ متفرق متفرق اپنی نمازیں ادا کررہے ہیں۔ کچھ حضرات ایک جگہ اجتماع کرکے نماز ادا کررہے ہیں ،تو کوئی مسجد کے ایک گوشہ میں نماز پڑھ رہا ہے۔ جب عمر ابن خطاب نے اس حا لت کو دیکھا توکہنے لگے :اگر یہی حضرات کسی ایک فرد کے پیچھے نماز پڑھتے تو کتنا اچھا ہوتا۔ اس کے بعد اس بارے میں غور و فکر کرکے یہ دستور دیاکہ تمام لوگ ابئ بن کعب کے پیچھے یہ نماز با جماعت ادا کریں۔ کچھ دنوں کے بعد ہم لوگ جب ایک شب مسجد میں آئے تو دیکھا کہ تمام نمازی ایک پیش نماز کے پیچھے نمازیں پڑھ رہے ہیں۔ اس وقت عمر ابن خطاب نے مجھ سے کہا:کتنی اچھی یہ بدعت ھے:”نعم البدعة “، جس کو میں نے رائج کیا ہے!!”
صحیح بخاری ج ۳،کتاب الصوم ،کتاب الصلٰوةالتراویح ،باب(۱) ”فضل من قام رمضان “ح ۱۹۰۶
اس روایت سے اس بات کی وضاحت ہوجاتی ہے کہ نماز تراویح کو باجماعت شروع کروانے والے شخص خلیفئہ دوم عمر تھے۔ اس لیے اس نماز تراویح کو سنّت عمر کہنا مناسب ہے۔

مگر اہل تسنن میں ہی علماء کی ایک جماعت ایسی ہے جو اس نماز کو سنّت نبویؐ ثابت کرنے کے درپے ہے۔ وہ لوگ اپنی بات کو ثابت کرنے کے لیے صحیح بخاری اور صحیح مسلم سے مندرجہ ذیل روایت پیش کرتے ہیں۔

” نبئ كريم (صلى اللہ عليہ وآلہ وسلم) نے اپنے صحابہ كو تين راتيں قيام كروايا ( یعنی جماعت سے نماز نوافلِ شب پڑھائ) اور چوتھى رات نماز نہیں پڑھائى، اور فرمايا: مجھے خدشہ تھا كہ تم پر یہ نمازیں فرض نہ كر دي جائیں”
صحيح بخارى حديث نمبر ( 872 ).
اور صحیح مسلم كے الفاظ يہ ہيں:
“….ليكن مجھے يہ خوف ہوا كہ کہیں تم پر رات كى نماز فرض نہ كر دى جائے اور تم اس كى ادائيگى سے عاجز آجاؤ”
صحيح مسلم حديث نمبر ( 1271 )
ان دونوں روایات میں یہ بیان ہو رہا ہے کہ آنحضرتؐ نے ماہ رمضان کی تین راتوں کو مسلسل نماز شب کی نوافل کو مسجد میں باجماعت ادا کیا۔ چوتھی رات آپؐ نے اس نماز کو گھر پر ہی ادا کیا اور جب اصحاب آپؐ کو جماعت کے لیے بلانے آے تو آپؐ نے منع کردیا اور ان سے کہا کہ یہ نماز باجماعت نہ ہوگی ورنہ مجھے خوف ہے کہ کہیں یہ تم پر فرض نہ قرار دے دی جاے۔

ان روایات کی صحت پر گفتگو کرنا اپنے آپ میں ایک الگ موضوع ہے جو اس مضمون کی طوالت میں اضافہ کا سبب بن جائے گا۔ اس لیے اس سے بچتے ہوئے ہم صرف اس کے نتیجے پر بات کریں گے۔ اہل تسنن علماء ان روایات کا سہارا لیتے ہوئے یہ نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ “تراویح سنّت عمر نہیں بلکہ سنّت نبویؐ ہے، کیونکہ آنحضرتؐ نے تین راتوں کو اس نماز کو باجماعت قائم کیا تھا۔ اس لیے اس کو سنّت نبیؐ میں شمار کیا جائے گا۔”
یہ نتیجہ مندرجہ ذیل وجوہات کی بنا پر غلط ہے۔
• صحابہ کے اصرار کے باوجود آنحضرتؐ نے اس نماز کو باجماعت پڑھانے سے منع کر دیا۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ اس نماز کو اس رات کے بعد مسجد میں با جماعت ادا نہیں کیا جاسکتا۔ اگر یہ سنّت تھی بھی، تو اس پر خود رسولؐ اللہ نے روک لگا دی۔ پھر بھی کچھ افراد نماز تراویح کو سنت نبویؐ قرار دینے پر بضد ہیں۔

ان حضرات کے لیے یہ کوئ عجیب بات نہیں ہے، خمس اور متعہ کے بارے میں بھی ان کا یہی خیال ہے کہ حضورؐ نے پہلے اجازت دی تھی بعد میں آپؐ ہی نے روک دیا۔
• تراویح پڑھنے والے حضرات اس روایت سے یہ نتیجہ نکالتے ہیں کہ چونکہ سرورِؐ عالم کو اس نماز کا امت کے لیے واجب ہوجانے کا خوف تھا، اس لیے انھوں نے اسے چوتھی رات سے پڑھانا بند کردیا مگر ان کی رحلت کے بعد یہ خوف ختم ہوگیا اس لیے اب اس کو جماعت سے پڑھی جاسکتی ہے۔ یہ دلیل بچکانہ بھی ہے اور احمقانہ بھی۔ یہ صریحًا قرآن کے فرمان کے خلاف ہے کہ ‘جس چیز کے بارے میں رسول تم کو حکم دے اسے اپنا لو اور جس سے منع کردے اس سے رک جاو۔’ (سورة حشر:٧)

اسی طرح کی ایک اور آیت میں اس بات کا حکم ہے کہ ‘اگر کسی چیز کے بارے میں اللہ اور اس کے رسولؐ نے کوئ فیصلہ کرلیا ہے تو اس میں اہل ایمان کو اپنی راے رکھنے کا کوئ حق نہیں ہے۔’ (سورة احزاب: ٣٦) اسی لیے خلیفئہ دوم کے لیے بھی یہ جائز نہیں کہ وہ اس نماز کو باجماعت ادا کرنے کا فرمان جاری کریں، جبکہ رسولؐ برحق نے اس سے صاف طور پر منع فرمایا ہے۔

دوسری بات یہ ہے کہ اس نتیجہ کو اسی بات پر قبول کیا جاسکتا تھا، جب خود پیغمبرؐ اکرم نے اصحاب سے یہ فرمایا ہوتا کہ ‘فی الحال تم لوگ یہ نماز اپنے گھر پر پڑھو لیکن میرے بعد تم لوگ اس نماز کو مسجد میں جماعت سے ادا کرنا’۔ مگر روایت میں ایسی کوئ بات نہیں بتائ گئ ہے۔ اس لیے یہ نتیجہ سراسر حکم رسولؐ کے منافی ہے۔
• اس نماز کے بدعت ہونے کی ایک دلیل یہ بھی ہے کہ مسلمانوں کے پہلے خلیفہ ابوبکر نے اس نماز کو کبھی بھی باجماعت ادا نہیں کیا اور نہ ہی کبھی اس کا حکم دیا۔

• اگر اس نماز کی باجماعت ادائیگی سنّت نبیؐ ہوتی تو خود عمر اس نماز تراویح کو ‘نعم البدعة’ (اچھی بدعت) نہ کہتے۔ ان کا یہ جملہ خود بتا رہا ہے کہ نماز تراویح سنّت نبیؐ نہیں ہے۔ اس نماز کو اہل تسنن علماء ‘سنّت عمر’ یا ‘بدعت حسنہ’ کہہ سکتے ہیں۔

حالانکہ تاریخ بتاتی ہے کہ خود عمر نے بھی یہ نماز ادا نہیں کی۔

Short URL : https://saqlain.org/so/cq5m