حقیقی ‘امربالمعروف’ اور ‘نہی عن المنکر’ کیا ہے؟
اللہ تعالیٰ نے انسان کو سماج کے ساتھ رہکر زندگی گزارنے والا مخلوق بنایا ہے۔ یہ اکیلا رہ کر زندگی نہیں گزار سکتا۔ لہذا اسلام نے جہاں پر انسان کی انفرادی تربیت فرمائی ہے وہیں اس کو ایک خوشگوار سماج بنانے کی تعلیم بھی دی ہے۔ پس مسلمانوں پر جن چیزوں کو فرض کیا گیا ہے ان میں بعض خود ان کی ذات سے متعلق ہیں اور بعض سماجی تقاضوں کے مطابق ہیں۔ انھیں فرائض سےایک فریضہ ‘امر بالمعروف’ ، یعنی نیکی کی ہدایت کرنا اور دوسرا ‘نہی عن المنکر’ یعنی برائی سے روکنا ہے۔ اس مضمون میں ہم ان فرائض کی ادائیگی کا جائزہ لیں گے ۔
اس میں ہم ان فرائض کی حقیقت پر اقوال اہلبیت ع کے مطابق روشنی ڈالنے کی کوشش کریں گے۔
شیخ مفید علیہ الرحمۃ روایت کرتے ہیں کہ جناب امام جعفر صادق علیہ السلام عراق میں وارد ہوئے تو اہل سنت کے امام اعظم ابو حنیفہ امامؑ سے ملاقات کے لیے آئے۔ اپنی گفتگو میں ابوحنیفہ نے امام علیہ السلام سے متعدد مسائل کے جوابات حاصل کیے ۔ اس نشست میں ابوحنیفہ نے امام جعفر صادق علیہ السلام سے دریافت کیا کہ امربالمعروف (نیکی کا حکم دینا) کیا ہے؟ امامؑ نے جواب دیا: آسمان والوں اور زمین والوں کے لیے ‘معروف’ (یعنی نیکی) امیرالمومنینؑ کی ولایت ہے۔ امیرالمومنینؑ کی ولایت کا حکم دینا ہی امربالمعروف ہے۔ ابوحنیفہ نے پھر سوال کیا: ‘ المنکر’ (برائی) کیا ہے؟ امام علیہ السلام نے فرمایا: منکر وہ دو افراد ہیں جنھوں نے امیرالمومنینؑ پر ظلم کیا اور ان کے حق خلافت کو غصب کرلیا، ان کی ولایت کو قبول نہیں کیا اور لوگوں کو ان کی گردن پر سوار کردیا۔”
ابوحنیفہ نے سوال کیا: تو پھر کسی شخص کو الله کی معصیت کرنے سے روکنا کیا ہے ؟ کیا یہ ‘نہی عن المنکر'(برائ سے روکنا) نہیں ہے؟ آپؑ نے جواب دیا: “نہیں ، ایسا نہیں ہے ۔ نہ یہ امربالمعروف ہے اور نہ ہی “نہی عن المنکر “ہے بلکہ یہ ایک خیر ہے جس کو اس شخص کے لیے پیش کیا گیا ہے۔”
تاویل الآیت، تفسیر سورہ تکاثر:٨، ص ٨١٦-٨١٧
امام جعفر صادق علیہ السلام کا یہ قول خطبہ غدیر میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ارشاد کے مطابق ہے جس میں آنحضرتؐ نے اس بات کی صراحت کی ہے کہ سب سے عظیم نیکی علیؑ کی ولایت ہے اور امر بالمعروف اس ولایت کی تبلیغ اور حکم دینا ہے۔