شیعوں کے مخالفین جو شیعوں پر الزام لگاتے ہیں ان میں ایک بے بنیاد الزام یہ ہے کہ شیعوں نے ہی امام حسینؑ کو قتل کیا ہے اور اپنے اس عظیم گناہ کی تلافی کے لیے ہر سال محرم میں گریہ و زاری کے ذریعہ استغفار کرتے ہیں۔ یہ الزام ہر سال آمد محرم سے قبل ہی دہرایا جانے لگتا ہے۔ ہر سال شیعہ خطباء اور ذاکرین اس کا جواب اپنے اپنے اعتبار سے دیتے رہے ہیں۔ اس مختصر مقالہ میں یہاں ہم اس الزام کا جواب پیش کر رہے ہیں۔
تاریخ کے آیئنہ میں:-
امام حسین علیہ السلام اپنے وطن مدینہ منوّرہ میں مقیم تھے۔ حاکم وقت یزید نے اپنے مدینہ کے گورنر کو حکم دیا کہ امام حسینؑ کو طلب کر کے ان سے بیعت لو اگر وہ انکار کریں تو ان کو قتل کردیا جاے۔(مقتل الحسینؑ-خوارزمی)
اس فرمان نے سید الشہداء علیہ السلام کو اپنا وطن چھوڑنے پر مجبور کیا۔ آپؑ نے مکہ مکرمہ کے مقدس شہر میں پناہ لی۔ مگر اس شہر کی حرمت کو پامال کرنے کے لیے اور امام حسینؑ کا خون ناحق بہانے کے لیے وہاں بھی یزید کے کارندے آپہنچے۔ یہی سبب تھا کہ آپ کو اپنا آبائ وطن بھی چھوڑنا پڑا ۔
تاریخ اسلام کا معمولی طالب علم بھی اس بات سے یہ نتیجہ نکال سکتا ہے کہ سبطِ رسولؐ کا یہ بے وطن ہوناان کے شیعوں کی وجہ سے نہیں بلکہ حاکم وقت یزید ملعون کی وجہ سے تھا۔
دوسرے یہ کہ اس وقت سرورِ کائنات حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے کچھ اصحاب اور بہت سے تابعین موجود تھے۔ یہ دور وہ دور تھا، مسلمان جس کے فضائل پڑھتے نہیں تھکتے۔ ان کی مانی جائے تو یہ دورِ اسلاف- اسلام کا سنہرا دور تھا۔ تاریخ سے ہمارا سوال یہ ہے کہ ان تمام اکابر کی موجودگی میں ایسی فضا کیونکر بنی کہ جگر گوشئہ رسولؐ کو نہ صرف یہ کہ مدینہ بلکہ شہر مکہ جو امن کی جگہ ہے وہاں بہی امان میسر نہیں تھا؟ اگر کوفہ کے لوگ امام حسینؑ کی مدد نہ کرنے کی وجہ سے خطاکار ٹھرائے جا سکتے ہیں تو کیا ان اسلاف کو فرزند رسول کی حمایت نہ کرنے کا مجرم نہیں قرار دیا جا سکتا؟
تیسرے یہ کہ واقعاتِ کربلا کے بعد کسی تاریخ نگار نے یہ نہیں لکھا کہ کربلا میں نواسئہ رسولؐ کو ان ہی کے شیعوں نے قتل کیا۔ تاریخ نے واقعہ کربلا کے لیے یزید لعنت اللہ علیہ کو ہی ذمہ دار بتایا ہے۔ اس کا ثبوت وہ دستاویزات ہیں جو یزید ملعون نے کوفے کے گورنر ابن زیاد لعنت اللہ علیہ کو لکھے ہیں،جس کے لشکر نے یزید کے حکم پر امام حسین علیہ السلام سے جنگ کی اور ان کو اور ان کے اصحاب کو شہید کردیا۔
(از کتب اہل تسنن- جلال الدین سیوطی: تاریخ الخلفاء، ذھبی: سیرة العلام، تاریخ کامل:طبری، البدایہ والنہایہ: ابن کثیر)
سن اکسٹھ ہجری کے واقعات کے بعد کچھ دن اموی حکومت رہی پھر اس کے بعد بنی عباس کی حکومت کا دور رہا۔ان دونوں حکومتوں نے شیعوں پر بے انتہا مظالم ڈہاے۔ وہ شیعوں کو علی علیہ السلام کی محبت پر قتل کرتے رہے۔ اگر شیعوں پر امام حسین علیہ السلام کے قتل کا الزام ہوتا تو کیا وہ اس کو عزر بنا کر تمام شیعوں کو نیست و نابود نہ کردیتے؟
امام حسین علیہ السلام کے قتل کے سلسلہ میں یہی الزام شیعوں پر اس طرح بھی عائد کیا جا تا ہے کہ کوفے کے شیعوں نے امام حسین علیہ السلام کو مہمان بلایا اور پھر ان کا ساتھ نہیں دیا اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ امام حسین علیہ السلام کربلا میں قتل کردیے گئے۔ چنانچہ یہی لوگ امام حسینؑ کے قتل کے ذمہ دار ہیں۔ جبکہ حقیقت کچہ اور ہے۔
دوسرا جواب:-
یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ امام حسین علیہ السلام کو کوفے کے لوگوں نے متعدد خطوط لکھ کر اپنے شہر میں آنے کی دعوت دی تھی۔ اگر یہ خطوط امام حسینؑ کو اس وقت لکھے جاتے جب آپؑ اپنے وطن مدینے میں تھے تو اس بات کو مان لینے میں آسانی ہوتی مگر یہ تمام خطوط اس وقت لکھے گئے تھے جب آپؑ مدینہ سے کوچ کرکے مکہ میں پناہ گزیں تھے۔ اگر مکہ میں یزید کے عامل حاجیوں کے لباس میں نہ آتے تو یقینًا امام حسینؑ حج تمام کر لیتے اور اس طرح آٹھ ذی الحجہ کو مکہ مکرمہ کو خیرباد نہ کہتے۔
تاریخ بتاتی ہے کہ جب امام حسین علیہ السلام کا کربلا کے میدان میں کوفیوں سے سامنا ہوا تو آپؑ نے ان کو ‘شیعانِ ابی سفیان’ کہہ کر خطاب کیا۔ اس سے ان کوفیوں کی حقیقت کا پتہ چل جاتا ہے۔ کربلا میں جن لوگوں نے امام حسین علیہ السلام کے خلاف لشکر کشی کی تھی وہ سب کوفی تھے مگر ‘شیعہ’ نہیں تھے۔ عمر ابن سعد، شمر بن ذی الجوشن، کعب بن جابر، عمرو بن حجّاج، شبعث وغیرہ یہ سب عثمانی تھے۔(تاریخ طبری جلد 6)
آخری بات:-
یہ کہنا بالکل درست ہے کہ کوفہ والوں نے امام حسین علیہ السلام کو خط لکھ کر کوفہ بلایا اور ان کا ساتھ نہیں دیا،مگر دعوت دینے والے کون کون تہے اور وہ کس کے شیعہ تہے اسے نظر انداز کر نا تاریخ کے ساتھ کے ساتہ دہوکہ دیناہے۔
اس طرح کی باتیں وہی لوگ کرتے ہیں جن کو یا تو شیعوں سے پرخاش ہے یا جن کا مقصد یزید کے جرم پر پردہ ڈالنا ہے۔ بلکہ قاتلان امام حسین ع کو صحیح تاریخ کے آیئنہ میں دیکہا جاے تو وہ یا تو صحابی پیغمبر،یا تابعین، یا انہی کی ناجائز اولاد ہیں۔لشکر یزید کے کمانڈروں اور سپاہیوں پر نگاہ کرنے سے یہ بات ظاہر ہو جاتی ہے۔شاید انہی کی صحابیت و تابعیت بچانے کی خاطر شیعوں پر قتل کا الزام عاید کیا جاتا ہے۔مگر یہ بات یاد رہے کہ حقیقت پر پردہ ڈالا جا سکتا ہے مگر اسے مٹایا نہی جا سکتا ہے۔