شیعوں پر جو اعتراضات ہوتے رہتے ہیں ان میں سے ایك اعتراض متعہ(عارضی نكاح) كے سلسلے میں كیا جاتا ہے۔ ان کے مخالفین کا یہ الزام ہے کہ شیعوں نے مذہب میں ایک نئی چیز عقد متعہ (عارضی نكاح) كے ذریعے بدعت پیدا کی ہے۔ اور ایك اعتراض متعہ كے خلاف یہ بھی ہے كہ ائمہ معصومین علیہم السلام كے دور میں اس كا کوئ جواز نہیں ملتا ہے۔ ائمہ اہل بیت علیہم السلام بھی اس عقد متعہ کے قائل نہیں تھے بلکہ یہ بدکاری شیعوں کے علماء نے رائج کی ہے۔
جواب :
اس عقد نکاح یعنی متعہ كا جواز قرآنِ مجید کی آیات،مستند احادیث اور صحابہ كرام كے عمل میں موجود ہے۔ اس اعتراض کے جواب میں اہل تشیع علماء نے متعدد مقالے اور کتابچے بھی تحریر فرمائے ہیں۔ اس مختصر آرٹیكل میں ممکن نہیں ہے کہ ہم اس موضوع سے متعلق مكمل تفصیلات كو بیان كریں۔
یاد رہے کہ یہ اعتراض یا شیعوں پر یہ الزام لگانا کچھ نیا نہیں ہے۔ جب سے خلیفہ دوّم نے اس کو حرام کیا ہے تب سے اس کو مباح جاننے کے جرم میں یہ بات گڑھی جاتی رہی ہے کہ شیعوں نے اس بدعت کو رائج کیا ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ شیعوں کا عقیدہ یہ ہے کہ حلالِ محمّدی تا قیامت حلال رہے گا۔ اس کو کوئ حرام نہیں کر سکتا۔یہاں پر عقدہ متعہ(عارضی نكاح) كے سلسلے میں ائمہ معصومین علیہم السلام كے نظریات کو پیش کرنے کے لیے ایك جامع اور دلچسپ مناظرہ نقل کررہے ہیں۔
روایت كی گئی ہے كہ عبداللہ ابن معمر لیثی نے امام محمد باقر علیہ السلام سےشكایت كی – مجھے اطلاع ملی ہے كہ آپ متعہ (عارضی نكاح) كی اجازت دیتے ہیں۔
امامؑ: اللہ نے جسے اپنی كتاب میں جائز قرار دیا ہے اور حدیث رسولؐ(سنت) جس كی تصدیق كرتی ہے صحابہ كرام نے جس پر عمل كیا اسے ہم حرام کیسے کر سکتے ہیں؟
عبداللہ: مگر عمر نے تو اس کو حرام قرار دیا ہے۔
امامؑ: تم اپنے (رہبران) اصحابِ رسولؐ كی سیرت پر عمل كرتے ہو اور ہم خود رسول اكرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم كی سنت پر عمل پیرا ہیں۔
عبداللہ: كیا آپ اس بات سے راضی ہوں گے كہ آپ كی خواتین اس نکاح عارضی میں ملوث ہوں؟
امامؑ: اے احمق!یہاں خواتین كو اس بحث میں شریك کرنے کی کیا ضرورت ہے؟
بیشك!! الله نے اپنی كتاب میں اس كو جائز قرار دیا ہے اور اپنے بندوں كو اس کی اجازت بھی دی ہے، پھر تم کو یا کسی اور کو کیا اختیار ہے کہ لوگوں کو اس سے روکیں؟
(اچھا تو یہ بتاءو) کیا تم اس بات سے راضی ہو كہ تمہاری عورتیں مدینہ كے جلاہوں (بنكروں) میں سے كسی سے نكاح كریں؟
عبد اللہ: نہیں!
امامؑ: تم اعتراض كرنے والے كون ہوتے ہو جبكہ اللہ نے اس کی اجازت دی ہے؟
عبداللہ: یہ اس لیے کہ یہ بات میرے لئے قابل قبول نہیں ہے كہ ایك جلاہا (بنكر) میری بہن یا بیٹی کا شریك حیات بننے-
امامؑ: جب اللہ اس بات سے راضی و خوشنود ہے اور وہ ان (جلاہوں) کا نكاح جنّت کی حوروں سے كردے اور وہ ان کے ساتھ جنّت کے باغات میں ہمیشہ رہیں، پھر تم کو کیا پریشانی ہے کہ اپنی خواتین کو ان کا شریکِ حیات نہ بننے دو۔
عبداللہ نے مسكرا كر كہا: آپ كا سینہ علم سے ایسے لبریز ہے جس طرح ایک سر سبز و شاداب درخت ہوتا ہے،جس كے پھل آپ كے لیے اور اس كا رزق لوگوں كے لیے ہے۔
بحار الانوار، جلد ۴۶، صفحہ ۳۵۶ ، كشف الغمہ (علی ابن موسیٰ اربلی ، متوفی ۶۹۳ ھ)
اس مختصر مناظرے میں کچھ اہم نکات غور طلب ہیں۔
اول – یہ کہ جب قرآن اور سنّت میں عقد متعہ کو مباح قرار دیا گیا ہے تو کسی کو اختیار نہیں ہے کہ اس کو حرام سمجھے ۔
دوسرے -یہ کہ ائمہ اہل بیت علیہم السلام متعہ کو ہمیشہ سے حلال اور مباح جانتے رہے ہیں۔
تیسرے- یہ کہ جو اس عقد متعہ کو حرام قرار دیتا ہے وہ سنّت عمر کا پیروکار ہے اور سنّت محمّدی(صلی الله علیہ وآلہ وسلم)سےاس کا انحراف ہے۔
چوتھے – یہ کہ شیعوں پر یہ اعتراض کرنا غلط ہے کہ شیعوں نے اس عقد کو اپنے لیے مباح کر لیا ہے۔ اگر کسی کو عقدمتعہ سے پریشانی ہے تو وہ الله اور قرآن پر اعتراض کرے کیونکہ الله نے اسے اپنے بندوں کے لیے مباح بنایا ہے۔ (یہ بھی یاد رہے کہ قرآن کی کوئ آیت الله نے شیعوں کے مشورے پر نہیں نازل کی ہے اور نہ ہی شیعوں کی فرمائش پر متعہ مباح کیا گیا ہے)
چوتھے- یہ کہ کسی عورت کا چاہے دائمی عقد ہو یا عارضی نکاح ہو اس کے معیار اور سماجی مرتبے کے مطابق ہوتا ہے۔