رسول اسلام (ص) کی رحلت کے بعد سے اہل تسنّن سقیفائ خلافت کے پیروکار رہے ہیں۔ ان کے پاس اس سلسلہ خلافت کی حمایت کے لیے نہ تو کوئ قرآنی دلیل موجود ہے اور نہ ہی سنّت رسولؐ میں کوئ نص موجود ہے۔ اس لیے ابوبکر کی خلافت کی حمایت میں اہل تسنّن جو سب سے اہم وجہ سامنے لاتے ہیں وہ اصحابِ رسولؐ کا ‘نام نہاد’ اجماع ہے۔ ان کا دعویٰ ہے کہ ابوبکر کی خلافت پر تمام اصحابِ رسولؐ کا اجماع تھا۔
اس مضمون میں ہم اس موضوع پر مختصر گفتگو کریں گے اور اس بات کا طئرانہ جائزہ لیں گے کہ ‘کیا واقعًا ابوبکر کی خلافت کو امت کا اجماع حاصل تھا؟’
علمائے کرام اور اسلامی تاریخ کے طالب علم اس بات سے واقف ہیں کہ ابوبکر کی خلافت کا اجماع کیسے وجود میں آیا اس لیے ہمیں اس واقعہ کی تفصیل میں جانے کی ضرورت نہیں ہے۔ بہر حال، ہم خلافت پر امت کے اجماع کے دعوے کا مختصراً جائزہ ضرور لیں گے کہ آیا اس بات میں کوئی صداقت ہے یا نہیں؟
اجماع کے حامیوں کا دعویٰ ہے کہ سقیفہ کے واقعہ نے ایسا موڑ اختیار کیا کہ وہاں موجود ایک گروہ نے ابوبکر کی بیعت کر لی۔
ابوبکر کی حمایت میں مسلمانوں کی طرف سے پیش کیے جانے والے اجماع کے بارے میں علم کلام کی ایک اہم کتاب شرح المقاصد کے مصنف سعد تفتازانی کے درج ذیل الفاظ کافی ہیں:
’’جب بھی ہم کہتے ہیں کہ ابوبکر کی خلافت کے لیے اتفاق اور اجماع تھا، ہم اس کا حقیقی معنی میں اتفاق اور اجماع کا دعویٰ نہیں کرتے کیونکہ ہم تسلیم کرتے ہیں کہ (سقیفہ میں) ایک اور گروہ تھا جو ابوبکر کے خلاف متفق تھا۔ مزید یہ کہ ایسا نہیں ہے کہ تمام لوگوں نے (سقیفہ کے موقع پر) خوشی سے ابوبکر کی خلافت کی منظوری دی تھی۔ بلکہ مہاجرین اور انصار کے درمیان اختلاف پیدا ہونے کے بعد، انصار کے دو گروہ اوس و خزرج کے اندرونی جھگڑے اور عمر کی طرف سے سقیفہ میں ان سے تنہا بیعت نے ابوبکر کی راہ ہموار کی۔”
(شرح المقاصد جلد 5 ص 254-267)
جب مسلمانوں کے سامنے یہ بات پیش کی جاتی ہے کہ صحابہ میں ابوبکر کی خلافت سے متعلق شدید اختلاف تھا تو وہ جوابًا کہتے ہیں کہ ‘یہ بہتر ہے کہ ہم اس معاملے میں خاموشی اختیار کرلیں اور ان معاملات پر بحث سے گریز کریں کیونکہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ سلم جب بھی صحابہ کے درمیان جھگڑا ہوتا تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ سلم خاموش رہتے۔ لہٰذا اس معاملے (ابوبکر کی خلافت کے) پر تحقیق اور تجزیہ کرنے کی کوشش نہ کی جائے۔’
اس موقع پر سعد تفتازانی کا قول پیش کرنا مناسب ہے تاکہ یہ سمجھا جا سکے کہ ابوبکر کے لیے اجماع کے اس دعوے کی وجہ سے سنی کس طرح مصیبت میں پڑ گئے ہیں اور کس طرح اس سے نکلنے کی کوشش کرتے ہیں۔
سعد تفتازانی کہتے ہیں:
‘تمام مسلمان علماء ابوبکر کی امامت پر متفق ہیں اور ان کے بارے میں حسن ظن رکھنے سے یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ اگر ان تمام علماء کے پاس ابوبکر کی امامت کے لیے واضح دلائل موجود نہ ہوتے تو اس بارے میں ان کے خیالات میں اتفاق نہ ہوتا۔’
شرح المقاصد جلد ٢ص ٢٩٨
اس کے جواب میں ہم کہتے ہیں کہ اگر بات ابوبکر کی امامت کے بارے میں مسلمان علماء کے بارے میں اچھی رائے رکھنے تک پہنچ جائے تو واضح ہے کہ ابوبکر کی خلافت کا معاملہ صحابہ کرام کے بارے میں اچھی رائے پر مبنی ہنہ کہ رسول (ص) کے فیصلے (تقلید) پر عمل کرنا ہے۔ یعنی خلافت کے معاملے میں امت نے رسول اکرم (ص) کے اعلانِ غدیر اور ولایت علیؑ کے فیصلے کا انکار کردیا اور صحابہ کی تقلید کرلی ہے۔
مزید یہ کہ اگر امر خلافت ایک تقلیدی معاملہ ہے تو اس بات کو ثابت کرنے کے لیے قرآنی آیات اور روایات لانے کی کوئی ضرورت نہیں۔ بلکہ شروع ہی میں یہ بیان کر دینا چاہیے کہ اس معاملے میں ہم صحابہ کرام کی پیروی کر رہے ہیں اور چونکہ انہوں نے ایسا کیا ہے اس لیے ہم صرف ان کے بتائے ہوئے راستے پر چل رہے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ قرآن اور روایات کے ذریعے ابوبکر کی خلافت پر بحث کرنے کی ضرورت ہی نہیں ہے، بلکہ صرف یہ کہنا کہ ہم اس سلسلے میں صحابہ کی پیروی کر رہے ہیں کافی ہے۔ چنانچہ اگر خلافت کا دارومدار صحابہ کی تقلید کرنا ہے تو یزید (علیہ لعنت و العذاب) کی خلافت کو ماننے سے مسلمان کیوں گریز کرتے ہیں. اس وقت موجود صحابہ اور تابعین کی اکثریت نے یزید ملعون کی بیعت کر لی تھی اور نواسہ رسولؐ کی نصرت سے انکار کردیا تھا۔
آخری بات اگر امت کا اجماع خلافت کو ثابت کرتا ہے تو مسلمان حضرت علی ،جو کہ ہر لحاظ سے خلیفہ برحق تھے، ان کے مخالفین کو باغی کیوں نہیں مانتے؟