مجھ کو معلوم ہے کتنی ہے لیاقت میری |
میں بھی استاد بنوں یہ نہیں حاجت میری |
|
فخر اس میں ہے کہ میں خود سے تو کہہ لیتا ہوں |
ڈر ہے اس بات سے ہوجائے نہ شہرت میری |
|
مقطع میرا ہو مگر شاعری استاد کی ہو |
اسکو میں اپنا کہوں یہ نہیں عادت میری |
|
سب کو معلوم ہے اصلاح کراتا ہوں میں |
کم نہ ہوجائے گی اس سے کوئی عزت میری |
|
شاعری کرتا ہوں ایمان بتانے کے لئے |
ساتھ جائے گی یہی دین کی دولت میری |
|
لیکے اجرت میں قصیدہ پڑھوں اللہ توبہ |
ہوگی سب پہ عیاں اب یہ حقیقت میری |
|
میں ہوں مداح علی ابن ابی طالب کا |
خوب اللہ نے بنائی ہے یہ قسمت میری |
|
آگے پڑھتا ہوں قصیدہ میں غدیر خم کا |
ہوگی مقبول یقیناً یہ عبادت میری |
|
مجھ کو آواز دے جس کو ہو ضرورت میری |
دوست دشمن ہو سبھی یہ ہے عنایت میری |
|
یا علی کہہ کے بلاتا ہے جو مشکل میں مجھے |
اسکی آساں کروں مشکل یہ ہے عادت میری |
|
یہ شرف مجھ کو فقط مجھ کو ملا خالق سے |
خانۂ کعبہ بنا جائے ولادت میری |
|
قولِ احمد ہے ملے اسکو عبادت کا شرف |
اک نظر دیکھ لی ہو جس نے بھی صورت میری |
|
اپنے محبوب کا اللہ نے چنا مجھ کو ولی |
خم کے میداں میں ہوئی نشر ولایت میری |
|
مجھ کو مرسل نے کیا اتنا بلند ہاتھوں پہ |
تاکہ پہچان لیں سب دیکھ لیں صورت میری |
|
کہہ کے بخِ لَکَ تینوں نے جو کی تھی بیعت |
توڑ دی جاکے سقیفہ میں وہ بیعت میری |
|
یاعلی تم نہ اگر ہوتے تو ہوجاتا ہلاک |
ہوکے دشمن بھی نہیں کرسکا غیبت میری |
|
شیخ جی جب بھی پھنستے تھے بلاتے تھے ضرور |
دل میں پر انکے کھٹکتی رہی شہرت میری |
|
نام کے واسطے صدیق و غنی سب ہیں مگر |
دونوں عالم میں ہے مشہور صداقت میری |
|
بھاگے دشمن جو اگر مدّمقابل آکر |
وار پیچھے سے کروں یہ نہیں فطرت میری |
|
عورتوں بچوں پہ چلتی نہیں تلوار میری |
قتل بوڑھوں کو کروں یہ نہیں سیرت میری |
|
دیکھ کر نسلوں کو تب چلتی ہے تلوار میری |
جنگ کے میداں میں بھی ایسی ہے بصیرت میری |
|
جنگ خندق میں امر کے کئے جب دو ٹکڑے |
بھاگے سب دشمنِ دیں چھا گئی ہیبت میری |
|
بخشوائیں گے اسے خود ہی رسولِ عربی |
بس گئی دل میں جس جس کے بھی الفت میری |
|
پاؤگے خلد میں جاگیر یقیناً منظرؔ |
ہے اگر دل میں ذرا سی بھی محبت میری |