کیا صحابہ کی اکثریت حدیث غدیر میں لفظ ‘مولا’ سے ‘دوست’ کا معنی سمجھی تھی ؟؟؟.

کیا صحابہ کی اکثریت حدیث غدیر میں لفظ ‘مولا’ سے ‘دوست’ کا معنی سمجھی تھی ؟؟؟.

حدیث غدیر ایک ایسی حدیث ہے جسے ١٠٠ سے زیادہ صحابہ نے نقل کیا ہے۔ اس حدیث کے متواتر اور معتبر ہونے پر طرفین کے علماء کا اتفاق ہے۔ مگر اہل تسنّن علماء، چونکہ سقیفائی خلافت کے وفادار ہیں، اس لیے وہ لفظ ‘مولا’ کے معنی و مفہوم پر بے جا بحث کرتے ہیں۔ ان کے اکابر میں جو ناصبیت میں ڈوبے ہوئے ہیں وہ تو حدیث غدیر کا سرے سے ہی انکار کر دیتے ہیں اور جو علماء انکار نہیں کر سکے وہ لفظ ‘مولا’ سے دوست مراد لیتے ہیں۔ انھیں میں ایک مشہور شخصیت ہے محدث دہلوی۔ ان کا کہنا ہے کہ ‘حدیث غدیر کے ذیل کا قرینہ بتاتا ہے کہ کلمہ ‘مولا’ سے ‘محبت’ مراد ہے اور وہ قرینہ یہ دعا ہے: ‘اللہم وال من والاہ و عاد من عاداہ’ ہے۔ دعا کے اس فقرے کا معنی یہ ہے کہ پرودگار ! اسے دوست رکھ جو علیؑ کو دوست رکھے اور اسے دشمن قرار دے جو ان سے دشمنی کرے’۔ محدث دہلوی کا اس اعتراض سے مقصد یہ ہے کہ حدیث غدیر میں حضرت علیؑ کی ولایت کا اعلان نہیں ہے بلکہ یہ ان کی محبت کی اہمیت کو ظاہر کرنے کے لیے بیان کی گئ ہے۔
حالانکہ ان کا یہ اعتراض احمقانہ ہے پھر بھی اس کے جواب میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ خود اس واقعہ کا ماقبل اور ما بعد کے قرائن ظاہر کرتے ہیں کہ اس دعا سے مراد صرف محبت نہیں ہے بلکہ یہ محبت ولایت کا لازمہ ہے۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو صحابہ خصوصًا ابوبکر و عمر بن خطاب حضرت علیؑ کو مبارک باد نہ دیتے۔ اس سے یہ صاف ظاہر ہوتا ہے کہ جو صحابہ وہاں موجود تھے وہ لفظ مولا کو دوست نہیں بلکہ ‘والی و حاکم’ ہی سمجھ رہے تھے۔ اس کے علاوہ ابن کثیر نے جو روایت براء بن عازب سے نقل کیا ہے اس میں کلمہ ‘بعدی’ آیا ہے: ‘من کنت مولاہ فانّ علیًا بعدی مولاہ’ (جس کا میں مولا ہوں بیشک میرے بعد علیؑ اس کے مولا ہیں) (ریاض النضرہ: ج ١٣ ص ١۵٣)
کیا رسول اکرم (ص) کے کہنے کا مقصد یہ ہے کہ میرے بعد علیؑ سے محبت کرنا میری زندگی میں ان سے محبت کرنے کی ضرورت نہیں ہے؟؟ جبکہ سرور کائنات کا یہ قول عام و خاص کی زبان پر ہے کہ “علیؑ سے محبت نہیں کرے گا مگر مومن اور علیؑ سے بغض نہ رکھے گا مگر منافق۔” اس کے علاوہ خطبہ غدیر کے لیے جو اہتمام کیا گیا اور جو اس کے ماقبل اور بعد میں جو واقعات رو نما ہوئے وہ سب یہی ظاہر کرتے ہیں کہ لفظ مولا سے حاضرین نے حضرت علیؑ کی ولایت ہی مراد لیا ہے۔
بہر حال اس میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ مولا علیؑ سے محبت و دوستی رکھنا ایمان کی علامت ہے۔ اسی سبب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بارہا اور متعدد مواقع پر اپنے اصحاب کو مولائے کائنات حضرت علیؑ ابن ابی طالبؑ سے محبت کرنے کی نصیحت فرمائ ہے۔ آنحضرت (ص) نے اپنی امت کو واضح طور پر حکم دیا تھا کہ مولا علیؑ اور ان کی اولاد سے محبت کریں۔ اس محبت کی اس قدر اہمیت ہے کہ قرآن مجید نے اہلبیتؑ کی محبّت و مودّت کو اجرِ رسالت قرار دیا ہے. قرآن کی محکم آیت ہے کہ ‘قل لا اسئلکم علیہ اجرا الا المودة فی القربیٰ…’ ‘میرے حبیب آپ ان سے کہہ دیجیے کہ میں تم سے کوئ اجر رسالت نہیں چاہتا مگر یہ کہ تم میرے قرابت داروں سے مودت کرو…’
اتنی تاکید کے بعد بھی رسول اکرم (ص) کے اصحاب نے فرمان قرآن اور فرمان رسولؐ کو پائمال کردیا۔ جتنا زیادہ مرسل اعظم (ص) نے مولا علیؑ سے محبت کی تاکید کی تھی اتنا ہی شدّت سے صحابہ نے حضرت علیؑ اور ان کی ذریت سے نفرت و دشمنی کا اظہار کیا ہے۔
ابوبکر کی بیعت طلب کرنے کے لیے جو لوگ حضرت علیؑ کے گھر پر آگ اور لکڑی لیکر آئے تھے کیا انھیں یہ نہیں یاد تھا کہ غدیر میں رسول اللہ نے (ص) مولا علیؑ سے محبت کرنے کا حکم دیا ہے؟ جی ہاں انھیں اچھی طرح یاد تھا۔ اگر وہ اعلان غدیر اور لفظ مولا کا مطلب صرف حضرت علیؑ سے محبت سمجھتے تو کبھی ان کے گھر پر حملہ نہ کرتے کیونکہ ان کی حکومت کے لیے علیؑ کی محبت خطرہ نہیں تھی بلکہ ان کی حکومت و خلافت کے لیے حضرت علیؑ کی ولایت خطرہ تھی اس لیے انھوں نے حضرت علیؑ سے بیعت طلب کر لینا ضروری سمجھا۔ اسی طرح جب مسلمانوں نے مل کر امیرالمومنینؑ کو اپنا چوتھا خلیفہ بنالیا تھا تو پھر ان سے ان لوگوں نے جنگیں کیوں لڑیں جن کو حکومت کی لالچ تھی؟ کیا عثمان کے قتل کا بدلہ لینا فرمانِ رسولؐ سے زیادہ اہم تھا؟ غور طلب ہے کہ جنگ جمل اور جنگ صفین میں وہ صحابہ بھی تھے جنھوں نے بزبان مرسلؑ اعلان غدیر سنا تھا۔ کیا انھیں اس حدیث کا قرینہ نہیں یاد تھا کہ مولا علیؑ سے محبت کرنے کا فرمان جاری کیا گیا ہے؟ وہ یقینًا جانتے اور سمجھتے تھے مگر پھر بھی انھوں نے ہر صورت میں حکم رسولؐ کی مخالفت کی۔ اور نہ ان لوگوں نے مولا علیؐ کی ولایت کو قبول کیا، نہ ان کی خلافت کو قبول کیا اور نہ ہی ان سے دوستی اور محبت نبھائی۔
حقیقت تو یہی ہے کہ صحابہ کی اکثریت حضرت علیؑ سے بغض و حسد رکھتی تھی اور اس بات کا اعتراف صحابہ کا دفاع کرنے والے پکےناصبی علماء نے بھی کیا ہے۔ اپنی کتاب میں وہابیوں کے ہردل عزیز عالم ابن تیمیہ (جنہیں وہ شیخ الاسلام بھی کہتے ہیں، جبکہ بقیہ مسلمان ان کو شیخ النواصب کہتے ہیں) اس حقیقت کا اعتراف کرتے ہیں کہ صحابہ کی اکثریت مولا علیؑ سے شدید بغض رکھتی تھی۔ اس کا اظہار انھوں نے ان جملوں میں کیا ہے:
“…و لم یکن کذالک علی، فان کثیرا من الصحابة التابعین کانوا یغبضونہ و یسبونہ و یقاتلونہ…”
جبکہ علیؑ سے صحابہ اور تابعین کی اکثریت بغض رکھتی تھی اور ان کو برا بھلا کہتی تھی اور انھوں نے ان سے جنگ بھی کی ہے…
(منھاج سنہ ج ٧ ص ١٣٧)

اسی کتاب میں ایک اور مقام پر ابن تیمیہ نے لکھا ہے:
“..و قد عُلِم قدح کثیر من الصحابة فی عٙلیِِّ…”
یہ بات معروف ہے کہ صحابہ کی اکثریت علیؑ کی توہین کیا کرتی تھی۔
(منھاج السنّہ ج ٧ ص ١۴٧)
ابن تیمیہ کے ان شواہد کے بعد کسی اور دلیل کی ضرورت نہیں رہ جاتی ہے۔ آخر میں ہم پھر سرورِ کائنات کی اس غدیری دعا کی طرف پلٹتے ہیں: ‘پرودگار ! اسے دوست رکھ جو علیؑ کو دوست رکھے اور اسے دشمن قرار دے جو ان سے دشمنی کرے۔’ اہل تسنّن کے علماء کے اقوال سے ثابت ہوتا ہے کہ صحابہ کی اکثریت مولائے کائنات سے بغض رکھتی تھی۔ پس ان کی اس نفرت و دشمنی نے انھیں اللہ اور اس کے رسولؐ اور ان کے اہلبیتؑ کی بارگاہ میں ‘مغضوب علیھم و الضالین’ بنا دیا۔ پھر اس سے کوئ فرق نہیں پڑتا کہ مسلمان جماعت صحابہ کو کتنا بھی ‘رضی اللہ’ کہتے رہیں۔ لہذا اگر حدیث غدیر میں مولا علیؑ سے محبت کرنے کا پیغام ہوتا تب بھی صحابہ کی اکثریت نے رسول اللہ (ص) کی نافرمانی کی ہے۔

Short URL : https://saqlain.org/so/nri1