مسلمانوں کی کتابوں میں جتنی اہم ، معتبر، صحیح السند اور متواتر روایت ‘حدیث غدیر’ ہے اس معیار کی شاید ہی کوئی دوسری حدیث ہو۔ اس حدیث کو بعض محدثین نے ٨٠ طُرُق سے نقل کیا ہے۔ اسی باعث سقیفائ اور درباری علماء واقعہ غدیر کی بابت شک پیدا کرنے میں مجبور و بے بس نظر آتے ہیں،ان علماء کے بس میں نہیں کہ وہ ‘حدیث غدیر’ کے معتبر ہونے پر شک کریں۔ لہٰذا انھوں نے یہ حربہ استعمال کیا کہ اس حدیث میں موجود لفظ ‘مولا’ کی اس طرح تاویل کریں کہ ان کے خلفاء پر غصب خلافت کا الزام نہ آنے پائے۔ اپنے اس مقصد کے تحت ان ضمیر فروش علماء نے بارہا معتبر اور متواتر روایتوں کو ضعیف کہا اور منگھڑت اور جعلی روایات کو ‘احسن’ اور ‘صحیح’ کی سند دی ہے۔ اس کے علاوہ یہ لوگ واقعہ غدیر پر بھی بچکانہ اعتراضات کرتے رہے ہیں تاکہ اس واقعہ کی اہمیت کو کسی طرح سے کم کر سکیں۔ اس طرح انھوں نے بھولے بھالےعوام کو صدیوں سے گمراہ کرنے کی مہم چھیڑ رکھی ہے۔ مگر عوام میں موجود کچھ باشعور شعراء اور ادباء نے ان کی اس کوشش کو ناکام کردیا۔ اعلانِ غدیر سے لے کر آج تک متعدد شعراء نے اپنے اشعار میں لفظِ ‘مولا’ کے معنی تاجدارِ ولایت ہی لیا ہے۔ بلکہ صوفیوں نے ‘من کنت مولاہ…’ پر باقاعدہ قوالیاں کہی ہیں اور ان کے مریدوں نے اس کو دل و جان سے پڑھا بھی ہے، جو وہابیوں کو کھٹکتا رہا ہے(فی الحال قوالی کی ماھیت سے یہاں بحث نہیں ہے) ۔ کتاب ‘الغدیر’ کے موءلف علامہ امینی نے اپنی کتاب میں اس موضوع پر تفصیلی گفگتو کی ہے۔ اس ذخیم کتاب میں جہاں آپ نے حدیث غدیر کے متعلق صحابہ، تابعین، مفسرین، علماء وغیرہ کے اقوال نقل کیے ہیں، وہیں کئی صدیوں کے شعراء اور ادباء کے کلام بھی جمع کیے ہیں ، جس کا مقصد بس یہی ثابت کرنا ہے کہ سقیفائ علماء لفظ ‘مولا’ کی جو تاویل کرتے ہیں ، وہ جہالت اور بغض علیؑ پر مبنی ہے۔
اس مختصر مضمون میں ہم کتاب ‘الغدیر: قرآن، حدیث اور ادب میں’ کی پہلی جلد میں موجود شعراء کے کلام کی ایک جھلک پیش کر رہے ہیں۔ امید ہے اس کو پڑھنے کے بعد قارئین کرام کتاب الغدیر کی طرف رجوع کریں گے اور مستفید ہوں گے۔
• اعلانِ غدیر کے فورًا بعد حسان بن ثابت نے رسول اکرم (ص) کی اجازت سے ایک فی البدیہ نظم پڑھی، جس کا ایک شعر ہے۔
“فقال لہ قم یاعلیؑ فاننی،
رضیتک من بعدی امامًا و ھادیًا”
“پھر (رسولؐ اللہ نے) ان سےفرمایا: یا علیؑ! کھڑے ہو جاؤ کیونکہ میں نے تمھیں اپنے بعد امام و ہادی بنانا پسند کیا۔
• اسی طرح ایک اور بزرگ صحابی قیس بن سعد نے یہ اشعار کہے:
” و علیؑ امامنا و امام،
لسوانا اتیٰ بہ التنزیل۔
یوم قال النبیؐ من کنت مولاہ،
فھٰذا مولاہ خطب جلیل۔”
“پس علیؑ ہمارے اور تمام مسلمانوں کے امام ہیں۔ اس (اعلان کے) سلسلے میں اُس دن آیتیں نازل ہوئ ہیں جس دن نبیؑ نے فرمایا ‘میں جس کا مولا ہوں اس کے یہ علیؑ بھی مولا ہیں’۔”
• مشہور شاعر محمد بن عبد اللہ حمیری نے واقعہ غدیر مسلمانوں کو اس طرح یاد دلایا:
” تناسوا نصبہ فی یوم خم
من الباری و من خیر الانام۔”
یعنی “ان سب نے اس بات کو بھلا دیا کہ حضرت علیؑ کو اللہ اور رسول اللہ (ص) نے غدیر کے دن منصبِ خلافت عطا کیا تھا۔”
• اسی طرح کے اشعار کے ساتھ شہید مودّت کمیت بن زید اسدی نے روز غدیر کو یاد کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ “غدیر خم کے گھنے درختوں والے دن رسول الله (ص) نے مولا علیؑ کی ولایت کا اعلان کیا۔ اے کاش ! لوگ رسولؐ کی اطاعت کرتے اور اس طرح خلافت کو بیچ نہ ڈالتے، میں نے ایسی ممنوع بات کبھی نہیں دیکھی۔”
• سید اسماعیل حمیری نے واقعہ غدیر کو بہترین طریقہ سے منظوم کیا ہے. آپ نے غدیر کے واقعہ پر ایک مکمل نظم کہی ہے جس کے کچھ اشعار کے مفہوم یہاں پیش خدمت ہے۔
“اسی لیے پروردگار عالم نے علیؑ کو رسولؐ کی خلافت کے لیے وصی کی حیثیت سے منتخب کیا۔ سفر کو میدان غدیر خم میں روک دیا اور حاجیوں کے عظیم اجتماع میں پالان شتر کے منبر پر کھڑے ہو کر چڑھتے ہوئے دن کی طرح حیدرؑ کو اپنے ہاتھوں پر بلند کیا اور یہ اعلان کیا :” اے لوگو! آگاہ ہو جاؤ ، جس کا میں مولا ہوں اس کے یہ علیؑ بھی مولا ہیں۔” آنحضرتؐ نے پھر لوگوں سے ہوچھا:” کیا میں نے تم لوگوں تک پیغام پہنچا دیا؟” سب نے کہا: ” ہاں “۔ پھر آپؐ نے فرمایا: ” تم سے جو بھی یہاں موجود ہے اس کو چاہیے کہ اس پیغام کو ان لوگوں تک پہنچا دے، جویہاں موجود نہیں….”
• آخر میں عربی ادب کے ایک استاد شاعر ابو ماتم کے دو مصرے کا ذکر کر کے اس مضمون کو یہیں ختم کرتے ہیں۔
“یوم الغدیر استوضح الحق اھلہ،
بضحیاء لا فیھا حجاب و لا ستر۔…..”
یعنی “غدیر کے دن حق دار کا حق واضح ہو گیا تھا۔ اس وقت چڑھتے سورج کے اُجالوں میں نہ کوئ حجاب تھا نہ کوئ پردہ۔ رسول اسلام (ص) نے منبر پر کھڑے ہوکر لوگوں کو حق کی دعوت دی … اس واضح اعلان کے باوجود کینہ پرور افراد نے علیؑ کے حق کا انکار کر دیا۔”
ان تمام اشعار سے دو باتوں کا پتہ بآسانی لگایا جا سکتا ہے ایک یہ کہ روزِ غدیر رسول اللہ (ص) نے حضرت علیؑ کی ولایت و خلافتِ بلافصل کا اعلان کیا تھا۔ اس اعلان کی آواز جو سنہ دس ہجری کو بلند کی گئ تھی آج بھی امت کے کانوں میں گونج رہی ہے۔ دوسری بات یہ کہ جن شعراء نے اس حدیث کی حقیقت کو سمجھ لیا انھوں نے اپنے اشعار میں اس بات کو ظاہر کردیا کہ حضرت علیؑ کے ساتھ ظلم ہوا اور ان کو خلافتِ بلافصل سے محروم کردیا گیا۔