عالم اسلام میں جتنے بھی فرقے ہیں ان میں مکتب تشیع کو بہت سے امتیازات حاصل ہیں ان میں ایک یہ ہے کہ وہ رسول اکرم (ص) کی وصیت ‘حدیث ثقلین’ پر عمل کرتے ہیں ۔ تشیع کو یہ اعزاز رہا ہے کہ یہ فرقہ حضرت علی علیہ السلام اور ان کی پاک ذریت کا پیروکار ہے اور یہی اس کی شناخت ہے ۔ ابتداء ہی سے اس فرقہ کی بنیاد اتباع اہلبیت پیغمبرؐ رہی ہے۔ عقائد ہوں یا اصول دین ، احکام شرعی ہوں یا تفسیرِ قرآن یا تعلیمات اخلاق و آداب، ہر میدان میں شیعہ فرقے نے صرف اہلبیتؑ علیہم السلام کی پیروی کی ہے۔ اس روش کی وجہ قرآن کا یہ فرمان ، ” میرے حبیب آپ ان سے کہہ دیجیے کہ اگر تم اللہ سے محبت کرتے ہو تو میرا اتباع کرو..”(آل عمران:٣١) اور رسول اکرم (ص) کا یہ قول کہ “جو یہ چاہتا ہے کہ میرا اتباع کرے اسے چاہیے کہ حضرت علیؑ ابن ابی طالب ع اور ان کی ذریت کی ولایت کو قبول کرلے۔” (غایة المرام ج ١ ص ٧٠) اسی روش پر چلتے ہوئے اہل تشیع نے ہمیشہ سے ان افراد سے محبت کی ، جن سے اہلبیتؑ نے اظہار محبّت کیا اور ان سے براءت و بیزاری کی جنھوں نے اہلبیتؑ سے دشمنی یا اختلاف کیا یا جن سے خود اہلبیتؑ نے دوری اختیار کر لی ہو۔ اور چونکہ شیعوں نے سقیفائی خلافت سے براءت اور دوری اختیار کی اس لیے شیعوں پر ‘رافضی’ اور ‘کافر’ ہونے کی تہمت لگائ جاتی ہے۔ اس مختصر مضمون میں اس دوری اور بیزاری کی ایک اہم وجہ کا ذکر کیا جا رہا ہے۔ اور وہ وجہ دخترِ رسولؐ، خاتون محشر حضرت فاطمہ زہراء صلوات اللہ و سلامہ علیہا کا ان خلفاء سے اظہارِ ناراضگی کرنا ہے۔ اس بات کو صرف معتبر شیعہ ہی نہیں بلکہ مستند اہل تسنّن کتابوں میں بھی دیکھا جاسکتا ہے کہ حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا شیخین سے شدید ناراض تھیں اور ان کی یہ ناراضگی مرتے دم تک رہی۔ اس ضمن میں اہل تسنّن کے نزدیک اہم ترین کتاب سے دو تین روایات بطور مثال پیش کر رہے ہیں۔
• محمد بن اسماعیل بخاری نے اپنی کتاب کے باب كتاب الفرائض کے بَاب قَوْلِ النبي (ص) لا نُورثُ ما تَرَكْنَا صَدَقَةٌ کی حديث نمبر 6346 میں لکھا ہے کہ:
فَهَجَرَتْهُ فَاطِمَةُ فلم تُكَلِّمْهُ حتي مَاتَتْ.
پس فاطمہؑ (سلام اللہ علیہا)نے ابوبکر کو چھوڑ دیا اور مرتے دم تک ان سے بات نہیں کی۔
(صحيح البخاري، ج 6، ص 2474، ح6346)
• اسی طرح بخاری نے خمس کے ابواب میں نقل کیا ہے کہ:
فَغَضِبَتْ فَاطِمَةُ بِنْتُ رسول اللَّهِ صلي الله عليه (و آلہ) و سلم فَهَجَرَتْ أَبَا بَكْرٍ فلم تَزَلْ مُهَاجِرَتَهُ حتي تُوُفِّيَتْ.
حضرت رسول خدا (ص) کی بیٹی حضرت فاطمہؑ(سلام اللہ علیہا) ابوبکر سے غضبناک ہو گئیں اور ان سے بات کرنا تک چھوڑ دیا تھا اور ان سے مرتے دم تک بات نہیں کی۔
(صحيح البخاري، ج 3، ص 1126، ح2926)
• اپنی کتاب کے ایک اور باب میں محمد بن اسماعيل بخاري نے جناب سیدہ سلام اللہ علیہا کی ناراضگی اور اس کی شدت کو ان الفاظ میں رقم کیا ہے۔
وَ عَاشَتْ بَعْدَ النبي صلي الله عليه (و آلہ) و سلم سِتَّةَ أَشْهُرٍ فلما تُوُفِّيَتْ دَفَنَهَا زَوْجُهَا عَلِيٌّ لَيْلًا و لم يُؤْذِنْ بها أَبَا بَكْرٍ وَ صَلَّي عليها-
حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ (وآلہ)وسلم کے بعد فاطمہؑ (سلام اللہ علیہا) چھ ماہ تک زندہ رہیں اور جب وہ دنیا سے چلی گئیں تو ان کے شوہرحضرت علیؑ نے ان کو رات کو دفن کیا اور ابوبکر کو اس کی بالکل بھنک نہ لگنے دی اور خود ہی ان پر نماز پڑھی۔
صحيح البخاري، ج 4، ص 1549، ح3998، كتاب المغازي، باب غزوة خيبر)
ان روایات کو شیخ بخاری نے اس طرح اور ان ابواب میں نقل کیا ہے کہ پڑھنے والے کو یہ لگے کہ بنت رسولؐ کی ناراضگی صرف مال فدک اور میراثِ نبیؐ کو لے کر تھی۔ جبکہ اسی بخاری میں موجود روایات سے معلوم ہوجاتا ہے کہ حضرت زھراء سلام اللہ علیہا کو دنیا کے مال و دولت سے کوئی رغبت نہ تھی۔ بہرحال ان تمام روایات سے یہ بخوبی معلوم ہو جاتا ہے کہ بنت پیغمبر (ص) شیخین سے شدید ناراض تھیں اور آپؑ نے اپنی ناراضگی کو تاریخ کے اوراق میں درج بھی کروایا ہے۔ چنانچہ کسی بھی لحاظ سے دختر رسولؐ کی ناراضگی کوئی معمولی یا فراموش کرنے والی بات نہیں ہے بلکہ یہ حق و باطل کے درمیان ایک نمایاں معیار ہے۔ آپؑ کا یہ وصیت کرنا کہ ‘میرے جنازے کو رات کی تاریکی میں دفن کرنا’ یہ بتاتا ہے کہ آپؑ صرف اپنے اوپر ظلم کرنے والوں ہی سے نہیں بلکہ اس ظلم پر خاموش رہنے والے اہل مدینہ سے بھی ناراض تھیں۔ آپؑ کا یہ عمل خاموش رہ جانے کی گنجائش کو نہیں چھوڑتا۔ دخترِ رسولؐ کی روداد سننے والا یا تو ان کا ساتھ دے اور ان کے مخالف سے براءت کرے یا اپنے آپؑ کو ان لوگوں میں شمار کرلے جن سے سیدہ عالمؑ ناراض تھیں۔
شیعوں کا جرم صرف اتنا ہے کہ انھوں نے ہمیشہ اہلبیتؑ علیھم الصلوٰۃ والسلام کا ساتھ دیا۔ ہر اختلاف میں اہلبیتؑ ہی کو حق پر مانا اور ان کا ساتھ دیا۔ ان کا مخالف چاہے وہ کوئی بھی ہو اس کو گمراہ سمجھا اور اس سے براءت کیا۔ معاویہ اور حضرت علیؑ کی جنگ میں حضرت علیؑ کا ساتھ دیا، معاویہ اورامام حسنؑ کی جنگ میں امام حسنؑ کا ساتھ دیا، یزید وامام حسینؑ کی جنگ میں امام حسینؑ کا ساتھ دیا۔ پس اسی طرح شیخین اور حضرت فاطمہؑ سلام اللہ علیہا کے اختلاف میں حضرت فاطمہ (ص) کا ساتھ دیا اور دیتے ہیں۔ اور جس طرح پنجتن کے دیگر مخالفین سے اظہار براءت کرتے ہیں ، اسی طرح دختر رسول اور پنجتن پاک علیھم الصلوٰۃ والسلام کے تمام مخالفین سے بھی براءت کرتے ہیں۔ لہذا تعجب شیعوں پر نہیں بلکہ ان مسلمانوں پر ہے کہ وہ کس طرح پنجتنؑ سے محبت کا دعویٰ کرتے ہیں اور ان کے مخالفین سے محبت بھی کرتے ہیں ، جبکہ انھیں بھی مخالفین سے براءت کرنی چاہیے ۔