عظمت فاطمہ زہرا (س) اہل سنت کی کتابوں میں۔

اہل تسنّن کی اکثریت اہلبیت پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے احترام کی قائل ہے۔ ان کے بعض محدثین نے اپنی اپنی مسانید، صحاح اور سنن میں اہلبیت اطہار کے فضائل سے متعلق روایتیں نقل کی ہیں۔ حالانکہ انھیں کتابوں میں مخالفین کے منگھڑت فضائل بھی نقل کیے گئے ہیں مگر تاریخ گواہ ہے کہ صرف اہلبیت اطہار کا بلند کردار ہی تھا جو ان فضائل و مناقب کا حقیقی حقدار رہا اور رہے گا۔ جبکہ تاریخ کا معمولی سا علم رکھنے والا بھی یہ بات جان جائے گا کہ بقیہ جن افراد کی من گھڑت فضیلتیں گنوائی گئی ہیں ، وہ کیسے کیسے کردار کے مالک تھے ۔ جعلی حدیثیں گڑھنے والوں نے نااہل افراد کے لیے بہت سی احادیث گڑھیں ہیں ، مگر حقیقی طور پر جو اقوالِ مرسلِ اعظم (ص) ہیں ، وہ نورانیت کے حامل ہیں ۔اس مختصر مقالے میں ہم اہل تسنّن کتابوں میں موجود دخترِ رسولؐ جناب سیدہ (س) کے فضائل کا ذکر کریں گے۔

ان روایات میں ایک حصہ تو ان روایتوں کا ہے جن میں صرف جناب فاطمہ (س) کا ہی نہیں بلکہ تمام پنجتن کا ذکر ہے مثلًا خطیب بغدادی اپنی تاریخ میں ابن عباس سے روایت کرتے ہیں کہ پیغمبر اسلام (ص) نے فرمایا کہ “جب میں شب معراج آسمان پر گیا تو میں نے در جنّت پر لکھا ہوا دیکھا: ‘سوائے اللہ کے کوئ خدا نہیں ہے، محمدؐ اللہ کے رسول ہیں، علیؑ محبوبِ خدا ہیں، حسنؑ و حسینؑ برگزیدگان خدا ہیں اور فاطمہؐ منتخبِ خدا ہیں اور ان کے دشمنوں پر اللہ کی لعنت ہے” (تاریخ بغدادی ج ١ ص ٢۵٩)

اس طرح کی روایتیں طرفین کی کتابوں میں کثرت سے موجود ہیں۔ جبکہ دوسرا حصہ ان روایات کا ہے جن میں خصوصی طور پر صرف خاتون محشر جناب فاطمہ زہرا (س) کا ذکر ہوا ہے۔ اس طرح کی ایک دو روایتیں صحیح بخاری و صحیح مسلم میں بھی نقل ہوئ ہیں۔ (صحیح مسلم ج ٧ ص ١۴٢، ج ٨ ص ٨۴، صحیح بخاری ج ۴ ص ۴٨، ج ٧ ص ١۴٢)۔ اس طرح کی کچھ روایات خلیفہ اول کی بیٹی عائشہ سے بھی نقل ہوئ ہیں۔

• عائشہ کہتی ہیں کہ “فاطمہ (س) سے زیادہ میں نے کسی کو سچا نہیں پایا،سوائے ان کے والد (رسول اللہؐ) کے”
(اہل تسنّن حوالے: مستدرک علی الصحیحین ج ٣ ص ١٧۵, الاستیعاب ج ۴ ص ٣٧٧، حلیة الاولیاء ج ٢ ص ۴٢)

• ایک دوسری روایت میں عائشہ روایت کرتی ہیں کہ “….آنحضرتؐ نے جناب فاطمہ (س) سے فرمایا:”کیا تم اس بات سے راضی نہیں ہو کہ تم جنّت کی عورتوں کی سردار ہو؟” یہ سن کر جناب فاطمہ (س) خوش ہوگئیں۔ (صحیح بخاری ج ۴ ص ١٨٣) اسد الغابہ میں اس روایت میں یہ جملہ ہے کہ “تم کائنات کی عورتوں کی سردار ہو” (اسد الغابہ ج ٦ ص ٢٢٦)

• سنن ترمزی میں عائشہ سے روایت ہے کہ میں (عائشہ) نے وقار کے ساتھ اٹھنے اور بیٹھنے میں فاطمہ (س) سے زیادہ کسی کو رسول خدا (ص) سے زیادہ مشابہ نہ پایا۔ جب وہ نبیؐ کی خدمت میں آتی تھیں تو آپؐ ان کی طرف (احترامًا) بڑھتے اور ان کا بوسہ لینے کے بعد انہیں اپنی جگہ پر بٹھاتے تھے… (سنن ترمزی ج ۵ ص ٦۵٧، سنن ابو داوود ج ۴ ص ٣۵٦، المستدرک ج ۴ ص ٣٠٣)

• اہل تسنّن کتابوں میں یہ بات بھی درج ہے کہ رسول الله (ص) جب بھی عزم سفر کرتے تو جاتے وقت سب سے آخر میں جس سے ملتے وہ فاطمہ (س) ہوتی تھیں اور جب سفر سے واپس ہوتے تھے تو سب سے پہلے جس سے ملتے تھے وہ فاطمہ (س) ہوتی تھیں۔
(سنن ابی داوٴد ج ۴ ص ٨۵
مسند احمد ج ٦ ص ٣٧٠
المستدرک ج ١ ص ٦٦۴)

ان تمام روایات سے نہ صرف یہ کہ جناب فاطمہ (س) کے بلند مرتبے کا پتہ چلتا ہے بلکہ یہ بھی واضح ہوجاتا ہے کہ مرسل اعظم (ص) سب سے زیادہ اپنی دختر جناب فاطمہ (س) کو عزیز رکھتے تھے۔ آنحضرت (ص) کا مشہور قول کہ ‘فاطمہؑ میرا جز ہے جس نے اسے ناراض کیا اس نے مجھے ناراض کیا’ (كنز العمال ج ١٢ ص١١١) بھی یہی بتاتا ہے۔ ان تمام روایتوں سے یہ بھی معلوم ہوجاتا ہے کہ مرسلِ اعظم (ص) نے اپنی حیات میں اپنی لخت جگر جناب سیدہ (ص) کی منزلت کو اور آپؐ کی ان سے بے انتہا محبت کو اس قدر امت کے سامنے واضح فرما دیا تھا کہ جس سے انکار ناممکن ہے۔ مگر افسوس اشرار امت نے رسول اسلام (ص) کے ان اقوال کی پرواہ نہ کیا اور ان کی دختر کو اس قدر اذیت پہنچائی کہ آپؑ کی شہادت واقع ہوگئ۔

Short URL : https://saqlain.org/so/yqi