ماہ صیام میں اہل تسنّن کے یہاں ایک خاص نماز کا بہت زیادہ چلن ہے۔ اس نماز کو وہ ‘نماز تراویح’ کہتے ہیں۔ نماز عشا کے بعد تقریبًا تمام سنّی مساجد میں اس نماز کو باجماعت ادا کیا جاتا ہے۔ ان کے یہاں اس نماز کی بہت زیادہ تاکید کی جاتی ہے بلکہ وہ اس نماز کو ‘سنّتِ موکدہ’ شمار کرتے ہیں۔ جبکہ اہل تشیّع اس نماز کو بالکل بھی اہمیت نہیں دیتے بلکہ اس کو عمر کی ایجاد کردہ بدعت مانتے ہیں۔
ایک مشہور اہل سنّی عالم مولانا اسرار احمد کا ایک بیان یوٹیوب پر ملتا ہے جس میں آپ فرماتے ہیں کہ “چونکہ شیعہ حضرت عمر سے دشمنی رکھتے ہیں اور ان سے نفرت کرتے ہیں اس لیے ان کی ایجاد کردہ نماز تراویح کو ادا نہیں کرتے۔” کیا واقعًا یہی سبب ہے کہ شیعہ نماز تراویح نہیں پڑھتے؟؟
اس سوال کا جواب دینے سے پہلے یہ بتا دینا ضروری ہے کہ شیعہ رسول اللہ (ص) کے قول کے پابند ہیں اور ‘حدیث ثقلین’ پر عمل کرتے ہوئے صرف قرآن اور اہلبیتؑ کی اتباع کرتے ہیں۔ فقہ ہو، عقائد ہوں، آداب و اخلاق ہو، ہر معاملے میں وہ صرف اور صرف رسول اللہ (ص) اور ان کے اہلبیتؑ کے فرامین کو ہی حجّت مانتے ہیں۔ اہل تشیّع اصول دین و فروع دین کے ہر معاملے میں رسولؐ اور آل رسولؑ کے احکام کے پابند ہیں۔ ان ذوات مقدسہ کے علاوہ وہ کسی کے اجتہاد پر قطعًا عمل نہیں کرتے، چاہے وہ کوئ بھی ہو۔ احادیث اہلبیتؑ میں اس بات کا ذکر ملتا ہے کہ نماز تراویح ایک بدعت ہے جس سے خود مرسلِ اعظم (ص) نے امت کو روکا ہے۔
عن أبي عبد الله جعفر بن محمد (عليهما السلام) أنه قال: “صوم شهر رمضان فريضة، والقيام في جماعة في ليلة بدعة، وما صلاها رسول الله (صلى الله عليه وآله) في لياله بجماعة التراويح”
امام جعفر صادق (ع) کا ارشاد ہے کہ “ماہ رمضان کے روزے واجب ہیں اور اس کی راتوں میں جماعت سے نماز تراویح ادا کرنا بدعت ہے۔ رسول اللہ (ص) نے ایسی کوئ نماز جماعت سے نہیں ادا کی ہے۔ ”
مستدرك الوسائل – الميرزا النوري – ج ٦ – الصفحة ٢١٧
اسی طرح کی ایک اور روایت میں ملتا ہے کہ سرورِ کائنات (ص) نے خود امت کو اس نماز کی ادائیگی سے روکا ہے۔
فقام فی الیوم الثالث على منبره فحمد الله وأثنى علیه ثم قال : أیها الناس ، إن الصلاة باللیل فی شهر رمضان من النافلة فی جماعة بدعة ،…. ألا فلا تجمعوا لیلا فی شهر رمضان لصلاة اللیل ،…، ألا وإن کل بدعة ضلالة وکل ضلالة سبیلها إلى النار ، ثم نزل وهو یقول : قلیل فی سنة خیر من کثیر فی بدعة
مرسل اعظم تیسرے روز منبر پر تشریف لے گئے اور خطبہ ارشاد فرمایا جس میں آپؐ نے کہا :ائے لوگو! نوافل نماز شب کا ماہ رمضان میں جماعت سے ادا کرنا بدعت ہے…. لہٰذا نماز شب کے لیے مسجد میں مت جمع ہوا کرو ….جان لو کہ ہر بدعت گمراہی ہے اور گمراہی صرف جہنم کی طرف لے جاتی ہے…
(وسائل الشیعہ ج ٨ باب عدم جواز الجماعة فی صلاة النوافل فی شھر رمضان)
اسی طرح کی اور بھی احادیث شیعہ کتب میں موجود ہیں جن میں اہلبیتؑ نے نماز تراویح کو بدعت بتایا ہے اور اپنے ماننے والوں کو اس کے ادا کرنے سے روکا ہے۔
شیعہ کتابوں میں تو اس بات کا بھی ذکر ہے کہ مولائے کائنات حضرت علیؑ نے اپنے دورِ خلافت میں تمام مسلمانوں کو اس نماز کے ادا کرنے سے روکا تھا مگر شر پسند افراد کے فتنہ برپا کرنے کی وجہ سے ان لوگوں کو ان کے حال پر چھوڑ دیا گیا۔ (کافی ج٨)
ِیہی سبب ہے کہ تمام شیعہ علماء و فقہا نے اہلبیتؑ کی تاسّی میں نماز تراویح کو بدعت شمار کیا ہے اور اپنے پیروکاروں کو اس کے ادا کرنے سے روکا ہے۔
مولانا اسرار صاحب کی یہ بات تو صحیح ہے کہ شیعہ عمر سے سخت نفرت کرتے ہیں اور دشمنی رکھتے ہیں۔ مگر اس وجہ سے نماز تراویح کو ترک کرتے ہیں یہ کہنا زیادتی ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ خود عمر نے بھی اس نماز کو باجماعت نہیں ادا کیا۔
تفصیل کے لیے اس مضمون کو ضرور پڑھیئے۔ کیا عمر ابن خطاب نے خود نماز تراویح ادا کی؟
صرف حضرات شیعہ ہی نہیں، نماز تراویح سے ہر کلمہ گو کو گریز کرنا چاہیے کیونکہ آنحضرت (ص) نے بہ نفس نفیس خود نماز تراویح ادا کرنے سے اپنی امت کو روکا ہے ۔ یہ روایت اہل تسنّن کی معتبر کتابوں میں نقل ہوئ ہے۔
زید بن ثابت کہتے ہیں کہ…….چوتھے دن رسول اللہ (ص) غضبناک حالت میں گھر سے باہر تشریف لائے اور اصحاب کو حکم دیا کہ اپنے گھروں پر ہی نماز شب کو ادا کیا کریں اور فرمایا:
“کسی بھی مرد کے لیے نماز کے ادا کرنے کی بہترین جگہ اس کا گھر ہے سوائے نماز واجب کے۔”
اہل تسنن حوالے:
صحيح مسلم – ج ٢ – ص ١٨٨
كنز العمال – ج ٧ – ص٨١٦
صحيح البخاري – البخاري – ج ٧ – ص ٩٩
عمدة القاري – العيني – ج ٧ ص١٧٧
اہل تسنّن کی کتابوں میں موجود اس روایت کو بھی شیعوں کے تراویح نہ پڑھنے کی دلیل کے طور پر پیش کیا جا سکتا ہے۔
مختصر یہ کہ اولًا شیعہ کتب میں یہ بات موجود ہے کہ سرورِ عالم (ص) نے اور ائمہ اہلبیتؑ نے اس نماز کو بدعت قرار دیا ہے۔ دوسرے یہ کہ شیعہ اس لیے نماز تراویح ادا نہیں کرتے کیوں کہ رسول اکرم (ص) نے پوری امت کو اس نماز کے باجماعت ادا کرنے سے سختی سے روکا ہے۔
اس لیے شیعہ سے نہیں بلکہ اہل تسنّن سے یہ سوال ہونا چاہیے کہ “جب مرسل اعظم (ص) نے واضح طور پر اس نماز کو باجماعت مسجد میں ادا کرنے سے روکا ہے تو کیوں اس کو تم لوگ اس طرح ادا کرتے ہو؟؟”
سبحان الله بہت خوب