287

حضرت علیؑ نے حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی شہادت کے بعد ان کے قاتل سے انتقام کیوں نہیں لیا؟

Print Friendly, PDF & Email

دوسرا اعتراض

الف۔ قصاص کا حق خداوند عالم کی طرف سے ایک ایسا حق ہے جو مقتول کے ولی کو حاصل ہوتا ہے لیکن اس حق سے استفادہ اور اس پر عمل کرنا واجب نہیں اور مقتول کا ولی چاہے تو معاف کردے یا پھر قاتل سے دیت لے، بہت سے ایسے لوگ ہیں کہ جن کے ماں، باپ، بھائی، بچے عزیز و اقارب کسی کے ہاتھوں قتل ہوتے ہیں لیکن شخصی و سماجی مصلحت کی بنا پر، یا کسی ایسی مصلحت کے رعایت کی بنا پر جو قتل اور قصاص سے بھی زیادہ مہم ہوتی ہے ایسی صورت میں یا تو خاموش رہتے ہیں یا اپنے حق سے دستبردار ہوجاتے ہیں۔

حضرت علیؑ کے اعلی و ارفع اخلاق کو مد نظر رکھتے ہوئے اور آپ کی تربیت و پرورش کا رسولؐ اکرم جیسی شخصیت کے ہاتھوں ہونا یہ بتاتا ہے کہ آپ نے جو کیا وہی سب سے افضل اور سب سے مناسب تھا دین کی حفاظت اورمسلمانوں کی مصلحت کیلئے۔

ب۔ حضرت علیؑ کے خاموش رہنے اور انتقام نہ لینے کا ایک دوسرا سبب تنہائی، بے یاوری اور لوگوں کی عدم حمایت ہے کہ جس کی طرف
حضرت علیؑ نے خطبہ شقشقیہ میں بھی اشارہ کیا ہے۔

ج۔ جن لوگوں نے اس اعتراض کو پیش کیا ہے، اور جو لوگ دختر پیغمبرؐ کے گھر پر حملہ کا انکار کررہے ہیں ان سے پوچھاجانا چاہئے کہ کیوں رسولؐ خدا نے اپنے چچا سید الشہداجناب حمزہ کے وحشی قاتل سے انتقام نہیں لیا؟ جنگ تبوک سے واپسی پر جن لوگوں نے صحابہ کرام پر حملہ کیا اوررسول کو قتل کرنے کی کوشش کی انہیں کیوں معاف کیا گیا اور انہیں تنبیہ بھی نہیں کی گئی۔ ؟(1)

(علماء اہل سنت کی توجیہات اور روایات سے آشنائی کے لئے مسند احمد بن حنبل، ج۵، ص۴۵۳۔ ۴۵۴، حدیث ابو الطفیل عامر بن واثلہ، تفسیر القرآن العظیم، ابن کثیر، ج۲ ص۳۸۶۔ ۳۸۷، تفسیر الکشاف زمخشری، ج۲، ص۲۸۲، و تفسیر در المنثور فی التفسیر بالمأثور، سیوطی، ج۳، ص۲۵۹، سورہ توبہ کی آیت ۷۴ کے ذیل میں مراجعہ کیا جاسکتا ہے۔)

کیوں ابن مغیرہ بن ابی العاص جس نے سید الشہدا جناب حمزہ کی ناک کاٹ کر انہیں مثلہ کیا تھا کو پہلے تو چھوڑ دیا پھر اسے تین دن کی مہلت دیدی کی مدینہ سے نکل جائے اور پھر مہلت دی ہوئی مدت کے بعد اسے قتل کیا ۔ (2)

ابو سفیان، معاویہ، عمرو بن عاص اور مشرکین و کفار کے تمام سرداروں کو جنہوں نے رسولؐ اسلام اور مسلمانوں کو اذیت اور سختیاں دیں اور بہت سے مسلمانوں کو دعوت اسلامی کے آغاز اور جنگ بدرو احد، خندق و خیبر میں قتل کیا تھا، کیوں بخشا اور ان سے انتقام کیوں نہیں لیا؟
کیوں عثمان بن عفان سےانتقام نہیں لیا جب کہ انھوں نے رسولؐ اسلام کی (ربیبہ) ام کلثوم کا قتل کیا تھا ؟ (3)

(اس کی توضیح یہ ہے کہ قوم عثمان کا ایک شخص جس کا نام معاویہ بن مغیرہ بن ابی العاص تھا کہ جس نے جنگ احد میں جناب حمزہ کی ناک کاٹ کر مثلہ کیا اور جنگ احد کے ختم ہونے کے بعد مدینہ پہونچا تو عثمان نے اسے پناہ دیا رسولؐ خدا کو بذریعہ وحی اطلاع ملی کی معاویہ بن مغیرہ بن ابی العاص یہیں موجود ہے عثمان نے سمجھا اس کی بیوی ام کلثوم نے معاویہ بن مغیرہ بن ابی العاص کے موجود ہونے کی خبر رسولؐ کو دی ہے لہذا عثمان نے ایسا گھونسا مارا کہ چار دن کے بعد ام کلثوم کا انتقال ہوگیا)

رسولؐ خدا کا انتقام نہ لینا کیا اس بات کی دلیل ہے کہ یہ سب واقعات اصلا رونما ہی نہیں ہوئے؟

د۔ حضرت علیؑ نے اگر قصاص اور انتقام کا قصد کیا بھی ہوتا تو کس عدالت کا دروازہ کھٹکھٹاتے؟
تاریخ گواہ ہے کہ پورا لشکر خلفاء کے اختیار اور نظر میں تھا اور جب چاہتے اپنے فائدے کے لئے قانون بھی بدل دیتے۔

مغیرہ بن شعبہ کی زنا کاری کا معاملہ اور گواہوں کی گواہی کو نہ ماننا اور عمر کا گواہوں کو کوڑا مارنا ،(4) واقعہ خالد بن ولید اور مالک بن نویرہ کا قتل اور مالک کی بیوی کے ساتھ زنا خالد کے سلسلہ میں ابو بکر کا دفاع اور اس کے عمل کی توجیہ ،(5) عبد اللہ بن عمر بن خطاب کے ہاتھوں ہرمزان کے قتل کا معاملہ یہ سب نمونے ہیں حاکمان وقت کی قضاوت دادرسی اور انصاف کے نہ ہونے کے۔

حضرت علیؑ کاحضرت فاطمہؐ زہرا کے قاتلوں، ان پر حملہ کرنے والوں سے قصاص اور انتقام نہ لینے میں مذکورہ اسباب بھی قابل تأمل ہیں اس لے کہ حضرت علیؑ جانتے تھے کہ اقدام بھی کریں گے تو اس کا کوئی نتیجہ نہیں نکلے گا اس لئے کہ قاضی ہی اصل ملزم و مجرم ہے۔
——————————————————————————————————–

1. ((أکرہ ان یتحدث الناس ان محمداً یقتل أصحابہ))
2. أنساب الاشراف ج۱، ص۴۱۰، غزوات الرسول، غزوۃ احد، مقتل الذی مثل بجثة حمزۃ۔
3. ((فضرب عثمان بنت رسول اللہ۔ ۔ ۔ و ماتت فی فی الیوم الرابع))۔ الکافی، ج۳، ص۲۵۲۔ ۲۵۳، کتاب الجنائز، باب النوادر، ح۸۔
4. الأغانی، ج۱۶، ص۱۰۹، أخبار مغیرہ بن شعبہ، و نسبہ؛ قاموس الرجال، ج۱۰، ص۱۹۷، شرح حال مغیرہ بن شعبہ، سیر أعلام النبلاء، ج۳، ص۳۰۔
5.تاریخ طبری، ج۲، ص۲۷۳، حوادث سال۱۱، ذکر البطاح و خبرۃ، قاموس الرجال، ج۴، ص۱۴۷، شرح حال خالد بن ولید، سیر أعلام النبلاء، ج۱، ص۳۷۷، شرح حال خالد بن ولید۔

Short URL : https://saqlain.org/so/lrxm

اپنا تبصرہ بھیجیں

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.