1,899

زیارت اربعین کی انفرادیت-

Print Friendly, PDF & Email

مکتب اہلبیتؑ میں بزگانِ دین کی قبور کی زیارت کرنے کو خاصی اہمیت حاصل ہے۔ قربتِ اِلٰہی کی نیّت سے مقدّس ہستییوں کی قبروں پر جانے کو مذہب شیعہ میں مستحسن عمل شمار کیا گیا ہے. یہی سبب ہے کہ ائمہ معصومین علیہم السلام کی زیارت کی بہت زیادہ تاکید کی گئ ہے اور اس عمل کا بہت زیادہ ثواب بتایا گیا ہے. اہلبیتِ اطہار (ع) کی قبور کی زیارت کا ثواب بعض روایات میں دوسری اہم عبادتوں سے کئ گنا زیادہ شمار کیا گیا ہے۔ خصوصی طور پر امام حسینؑ کی قبر مطہر کی زیارت کا ثواب کئ حج و عمرہ سے زیادہ بتایا گیا ہے۔ روایتوں سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ بعض ایام میں سبطِ اصغر امام حسینؑ کی زیارت سال کے دوسرے دنوں سے زیادہ اہمیت کی حامل ہے۔ ان ہی خاص ایام میں روز اربعین بھی شامل ہے۔ گزشتہ کئ برسوں میں یہ دیکھا گیا ہے کہ امام حسینؑ کے چہلم پر لاکھوں کی تعداد میں عاشقان مظلومِ کربلا اظہار عقیدت کے لئے نجف سے کربلا کا سفر پیدل طئے کرتے ہیں۔ اس کثیر مجمع میں مرد و زن، جوان، بچّے، بوڑھے ہر عمر کے افراد موجود رہتے ہیں۔ زیارت اربعین کی ایک خصوصیت تو یہی ہے کہ اتنا بڑا مجمع دنیا کے کسی علاقے میں بہ یک وقت جمع نہیں ہوتا۔

زیارت اربعین کی ایک انفرادیت و فضیلت، امام حسن عسکریؑ کی اس روایت سے بخوبی ظاہر ہوتی ہے کہ جس میں آپ (ع) نے فرمایا: “مومن کی پانچ علامتیں ہیں پہلی: روزانہ اکیاون رکعت نماز پڑھنا، دوسری زیارت اربعین (کی تلاوت)، تیسری دائیں ہاتھ میں انگوٹھی پہننا، چوتھی خاک پر سجدہ کرنا اور پانچویں بلند آواز میں بسم اللہ پڑھنا(نماز میں حمد و سورے کے شروع میں)۔”
(مفاتیح الجنان: زیارت اربعین)

اس روایت میں زیارت اربعین کو مومن کی پانچ علامتوں میں سے دوسری علامت شمار کیا گیا ہے۔ غور طلب ہے کہ ائمہ معصومین (ع) نے اپنے شیعوں کو خصوصی طور پر اور بارہا امام حسینؑ کی زیارت کی ترغیب دی ہے۔ کسی روایت میں بیس حج کا ثواب بتایا گیا ہے تو کسی میں اسی حج کا ثواب بیان کیا گیا ہے۔ زیارت اربعین کی انفرادیت یہ ہے کہ اس دن کی زیارت کو کسی شخص کے ‘مومن’ ہونے کی علامت قرار دیا گیا ہے۔ لہذا جب کوئ شخص اس روز سید الشہداء (ع) کی زیارت کرتا ہے تو وہ بہت زیادہ ثواب حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ بارگاہ احدیت سے ‘مومن’ ہونے کی سند بھی حاصل کر لیتا ہے۔ شائد یہی سبب تھا کہ امام صادق علیہ السلام نے اربعین کی تکریم و تعظیم پر تأکید کرتے ہوئے اپنے قریبی صحابی جناب صفوان ابن مہران جمّال کو زیارت اربعین کی تعلیم دی۔ جس کی ابتداء ان الفاظ میں ہوتی ہے:
‘اٙلسّٙلاٙمُ عٙلیٰ وٙلِیِّ اللّٰہِ وٙ حٙبِیْبِہِ….
( مصباح المتہجد، شیخ طوسی،ص 788- 789)

مرحوم شیخ عبّاس قمیؓ نے اپنی کتاب مفاتیح الجنان میں روزِ اربعین کی زیارت کے ذیل میں اس نسخہ کے ساتھ ساتھ ایک اور نسخہ کا ذکر کیا ہے۔ زیارت کے اس نسخہ کو امام حسینؑ کی قبر مطہر کے سب سے پہلے زائر اور رسول اسلام (ص) کے بزرگ صحابی جناب جابر بن عبد اللہ انصاری نے پڑھا تھا۔ شیخ عباس قمّی نے اس زیارت کو مکمل طور پر ١۵ رجب کی خصوصی زیارت میں نقل کیا ہے جس کے ابتدائی جملے یہ ہیں: “السلام علیکم یا آل الله…”
تاریخی اعتبار سے سب سے پہلے جو زیارت قبر سید الشہداء پر پڑھی گئ وہ روزِ اربعین کی زیارت تھی جسے جناب جابر اور ان کے ساتھی عطا نے پڑھی تھی۔ تب سے آج تک، زمانے گزرتے گئے ایک سے ایک بادشاہوں نے حکومتیں کیں اور اپنی اپنی ناقص فہموں کے مطابق زیارت امام حسینؑ پر پابندیاں عائد کیں مگر سن ۶۱ ہجری کے روز اربعین سے جو یہ زیارتِ قبرِ شہداء کربلا(ع) کا سلسلہ شروع کیا گیا تھا وہ آج تک جاری و ساری ہے۔

Short URL : https://saqlain.org/0dtj

اپنا تبصرہ بھیجیں

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.