عالم اسلام میں اگر کسی میراث اور جاگیر کی بہت زیادہ اہمیت رہی ہے تو وہ باغ فدک ہے۔ رسول خدا (ص) کے اس دنیا سے رخصت ہونے کے بعد جو اختلافات شروع ہوئے ان میں ایک مرکزی حیثیت باغ فدک کو بھی حاصل ہے۔ اہل تشیع اس باغ کو ہمیشہ سے دختر رسولؐ جناب فاطمہ علیہا سلام کی ملکیت مانتے رہے ہیں ۔ اہل تسنّن علماء کے درمیان اس بابت دو راۓ پائ جاتی تھی، بعض خلفاء اسے مسلمانوں کا حق مانتے تھے تو بعض اس کو جناب سیدہ (س) کی جاگیر جانتے تھے۔ جن خلفاء ، مثلًا عمر بن عبد العزیز، نے زمین کے اس خطے کو جناب فاطمہ (س) کا حق جانا ، انھوں نے اپنے خیال (یا اسے اجتہاد کہیے) کی تائید میں اپنے دورِ حکومت میں فدک کو اولاد فاطمہ (س) کے سپرد کردیا۔
اس مضمون میں ہمارا مقصد اہل تسنّن مصادر سے شیعہ موقف کو ثابت کرنا ہے۔ اس مختصر مضمون میں ہم یہ پیش کریں گے کہ بزرگ اہل تسنّن علماء کی تالیفات میں یہ بات موجود ہے کہ سرورِ کائنات (ص) نے اپنی حیات طیبہ ہی میں فدک کی ملکیت خاتون محشر ، حضرتِ فاطمہ زہرا (س) کے سپرد کردی تھی۔ لہذا باغ فدک نہ مسلمانوں کا حق ہے اور نہ ہی رسول اللہ (ص) کی میراث ہے۔ چند مشہور حوالہ جات یہ ہیں:-
• علامہ جلال الدین سیوطی نے اپنی تفسیر ‘الدر المنثور’ میں سورہ اسراء کی آیت ‘و آتِ ذِی القُربٙی حٙقّٙہُ'(اپنے قرابت داروں کو ان کا حق دے دو) کے ذیل میں ابو سعید خدری سے روایت کی ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئ تو رسول الله (ص) نے فاطمہؑ کو بلایا اور فدک انھیں دے دیا۔ اسی طرح ابن عباس نے بھی روایت کیا ہے کہ جب یہ آیت ‘و آتِ ذِی القُربٙی حٙقّٙہُ’ نازل ہوئ تو آنحضرت (ص) نے فدک کو اپنی ملکیت سے خارج کر کے فاطمہ (س) کے حوالے کردیا۔ (الدرالمنثور ج ۵ ص ٢٧٣)
• یہی بات ہیثمی نے بھی ابوسعید خدری سے روایت کی ہے۔ (مجمع الزوائد ج ٧ ص ۴٩)
• میزان الاعتدال میں ذہبی نے اس روایت کو نقل کرنے کے ساتھ ساتھ اس کی صحت کا اعتراف بھی کیا ہے۔ (میزان الاعتدال ج ٣ ص ١٣۵)۔
• ملّا متقی ہندی نے بھی اپنی تالیف ‘کنزالعمال’ میں ابو سعید خدری سے روایت کی ہے کہ جب یہ آیت ‘و آتِ ذِی القُربٙی حٙقّٙہُ’ نازل ہوئ تو پیغمبر اسلام(ص) نے فاطمہؑ کو فدک ہبہ کر دیا اور فرمایا: “اے فاطمہؑ ! یہ فدک اب تمھارا ہے۔”
(کنزالعمال ج ٣ ص ٧٦٧)
یہی موقف دختر رسول (ص) کا بھی تھا کہ ان کے پدربزرگوار رسول اکرم (ص) نے فدک کی ملکیت ان کے حوالے کردی تھی مگر افسوس کہ خلیفہ نے آپ کی بات کو قبول نہ کیا۔ افسوس اس بات پر بھی ہے کہ جس خاتون کی گواہی کیا بلکہ محض وجودنے نجران کے نصاری’ کے خلاف اسلام کے وقار کا تحفظ کیا ، اسی مقدس خاتون سےخلیفہ گواہی طلب کر رہا تھا۔