خلافت حاصل کرنے کے لیے حضرت نے تلوار کیوں نہ اٹھائی؟

غدیر خم کے میدان میں ہزاروں اصحاب کی موجودگی میں رسول اسلام (ص) نے حکم خدا پر عمل کرتے ہوئے حضرت علیؑ کو اپنا بلافصل خلیفہ بنائے جانے کا اعلان فرمایا۔ اور یہ کوئی پہلا یا آخری موقعہ نہیں تھا حضور اکرم (ص) حضرت علیؑ کی ولایت کا اعلان فرمایا ہو۔ اسلام کی پہلی دعوت، دعوت ذوالعشیرہ سے لیکر غدیر خم کے منبر تک متعدد مواقع پر آنحضرتؐ نے اس فریضہ کو امت کے سامنے انجام دیا۔ مگر جب رسولؐ اسلام کی وفات ہوئی تو نااہل افراد مسند خلافت پر قابض ہوگئے. انھوں نے اہلبیتؑ رسولؐ پر بیعت طلب کرنے کے نام پر حد درجہ ظلم کیا۔ نتیجتًا مولا علیؑ اور ان کے اہلبیتؑ کو منصب حکومت سے دور کر کے خانہ نشین کر دیا۔ امت کی خیرخواہی کو مدِّ نظر رکھتے ہوۓ امیرالمومنینؑ نے حصول خلافت کے لیے تلوار نہیں اٹھائی۔ مگر افسوس لوگوں نے آپؑ کی خاموشی کو دوسرا رنگ دے دیا اور اب لوگ سوال کرتے ہیں کہ اگر حضرت علیؑ حقیقی جانشینِ پیغمبرؐ تھے تو انھوں نے اپنا حق حاصل کرنے کے لیے تلوار کیوں نہ اٹھائی؟ یہ کیسے ممکن ہے کہ علیؑ جیسا بہادر اپنے حق کو چھینتا ہوا دیکھے اور تلوار نہ اٹھاے؟ چنانچہ، مخالفین کا کہنا ہے کہ حضرت علیؑ کا خاموش رہنا یہ بتاتا ہے کہ نہ تو وہ خلافت کو اپنا حق سمجھتے تھے اور نہ ہی کسی نے ان کا یہ حق چھینا بلکہ وہ خلفاء ثلاثہ کی حکومت و خلافت سے راضی تھے۔
اس سوال کے بہت سے جواب دیے گئے ہیں۔ ان میں سے چند وجوہات یہ ہیں۔ امیرالمومنینؑ کی خاموشی کی پہلی اور سب سے اہم وجہ یہ تھی کہ آپؑ کو رسول الله (ص) نے وصیت فرمائی تھی کہ “اے علیؑ اگر تم کو مددگار اور ساتھ دینے والے ملیں تو اپنے حق کے لیے تلوار اٹھانا ورنہ خاموش رہنا”۔ روایت میں اس طرح ملتا ہے:-
عَنْ أَمِيرِ اَلْمُؤْمِنِينَ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اَللَّهِ صَلَّى اَللَّهُ عَلَيْهِ وَ آلِهِ : يَا عَلِيُّ إِنَّمَا أَنْتَ بِمَنْزِلَةِ اَلْكَعْبَةِ تُؤْتَى وَ لاَ تَأْتِي فَإِنْ أَتَاكَ هَؤُلاَءِ اَلْقَوْمُ فَسَلَّمُوا لَكَ اَلْأَمْرَ فَاقْبَلْهُ مِنْهُمْ وَ إِنْ لَمْ يَأْتُوكَ فَلاَ تَأْتِهِمْ حَتَّى يَأْتُوا اَللَّهَ.
(بشارة المصطفی لشیعة المرتضی ج ۱، ص ۲۷۷
بحار الأنوار ج ۴۰، ص ۷۸)

“یا علیؑ ! تمہاری منزلت کعبہ کی ہے لوگ کعبہ کے پاس جاتے ہیں کعبہ کسی کے پاس نہیں جاتا. اگر یہ قوم تمہارے پاس آے اور اپنے امور کو تمہارے حوالے کردے تو تم قبول کر لینا اور اگر وہ نہ آئیں تو تم ان کے پاس نہ جانا۔”
اس جملے سے دو بات واضح ہوجاتی ہیں۔
اوّلا یہ کہ حضرت علیؑ کی منزلت امت میں کعبہ کی ہے۔ آپؑ کو اللہ تعالیٰ نے خلیفہ مقرر کیا ہے. لوگ آپؑ کا اتباع کریں یا نہ کریں آپؑ کی حیثیت پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔ دوسرے یہ کہ امیرالمومنینؑ کے لیے ضروری نہیں تھا کہ وہ اپنا حق حاصل کرنے کے لیے امت کے پاس جاتے بلکہ یہ امت کی ذمہ داری تھی کہ وہ اپنی امورکو ان کے حوالے کردیتے۔ حضرت علیؑ کو حکومت سے مطلب ہی نہیں تھا بلکل عوام اگر ان کو اپنا حاکم تسلیم کرلیتی تو گمراہ نہ ہوتی ۔
لہذا یہ سوال ہی بنیادی طور سے غلط ہے۔
ایک موقعہ پر یہی سوال کسی شخص نے خود امیرالمومنینؑ سے پوچھا تھا جسے علامہ طبرسیؓ نے اپنی مشہور کتاب ‘الاحتجاج’ کی پہلی جلد میں نقل کیا ہے. اس شخص نے سوال کیا “یا امیر المومنینؑ ! آپ نے ناکثین( اصحاب جمل) مارقین ( نافرمان و باغی گروہ یعنی معاویہ اور اس کے ساتھی) اور خوارج کے خلاف تلوار چلائی لیکن تینوں خلفاء اور ان کے ساتھیوں کے خلاف ذوالفقار کیوں نہیں نکالی ؟”
آپؑ نے سائل کے جواب میں ارشاد فرمایا. ” اس وقت میرے لئے چھ انبیاء کی سیرت تھی :
سب سے پہلے جناب نوح (ع) کی مثال میرے سامنے تھی جب انہیں ان کی قوم نے مغلوب کیا تو فرمانے لگے” ( رب انی مغلوب فانتصر- سورہ القمر -10) یعنی” اے اللہ میں مغلوب کردیا گیا ہوں. میری مدد کر”
اس جملے سے امیرالمومنینؑ کی مراد یہ ہے کہ جس طرح نبی کے مغلوب کیے جانے کے بعد بھی اس کی نبوت پر کوئ حرف نہیں آتا اور اس کی نبوت برقرار رہتی ہے تو نبی کے وصی کو اگر امت مغلوب کردے تو کیا اس کی وصایت پر کوئی فرق پڑ سکتا ہے؟ پس مولا (ع) نے جناب نوح (ع) کی سیرت پر عمل کیا اور اللہ سے مدد کی دعا کی. جس طرح اللہ نے نوح (ع) کی مدد کی اسی طرح آل محمد (ص) کی بھی مدد فرمائےگا.

“دوسری مثال جناب لوط (علیہ السلام) کی تھی جو میرے سامنے تھی جس پر میں نے عمل کیا۔ جب لوطؑ نے کہا ( لو ان لی بکم قوة او آوی الی رکن شدید. ہود -80) یعنی ” اے کاش میرے پاس اتنی قوت ہوتی کہ میں تمہارا مقابلہ کرسکتا یا مجھے مضبوط طاقت کی پناہ مل سکتی ” اس جملے سے امیرالمومنین کی مراد یہ تھی کہ جناب لوط (علیہ السلام) کے گھر پر جب فرشتے لڑکوں کی شکل میں آئے تاکہ ان کی قوم پر عذاب ڈالا جاسکے تب ان کی بدکار قوم مجمع کی صورت میں آپؑ کے گھر کی طرف نکل آئی. اور غلغلہ کرنے لگے تو جناب لوط (ع) نے ان کو بہت سمجھایا کہ یہ میرے مہمان ہیں لیکن آپؑ کی بات کسی نے نہ مانی بلکہ ان مہمانوں کو ان کے حوالے کرنے کے لیے بضد رہے تب جناب لوطؑ نے فرمایا: ‘آج میرے پاس تم سے مقابلہ کرنے کی سکت ہوتی یعنی اصحاب و انصار ہوتے تو میں تمہارا مقابلہ کرتا . لیکن میں تنہا ہوں اور کوئی طاقتور مددگار بھی نہیں پاس جس کی مدد سے میں تم سے مقابلہ کروں.’ اس مثال سے امیرالمومنینؑ کی مراد یہ تھی کہ اگر ان کے پاس بھی مخلص مددگار ہوتے تو آپؑ غاصبین خلافت کا مقابلہ کرتے مگر افسوس امت کی اکثریت نے آپؑ کو کمزور اور ناتواں بنادیا تھا۔ یہی سبب تھا کہ آپؑ نے اپنے حق کو غصب کرنے والوں سے مقابلہ نہ کیا۔

“(جناب) ابراہیم خلیل الرحمن (علیہ السلام) کی مثال بھی میرے سامنے تھی کہ جب انہوں نے اپنی قوم سے فرمایا ( واعتزلکم مما تعبدون من دون اللہ. مریم -48) یعنی ” میں تم سے اور تمہارے ان معبودوں سے کنارہ کشی اختیار کرتا ہوں جنہیں تم اللہ کے سوا پوجتے ہو ”
اس جملے سے مولائے کائنات کی مراد یہ ہے کہ جب جناب ابراہیم (ع) اپنی قوم کی نافرمانی کی وجہ سے ان سے کنارہ کشی کرسکتے ہیں جبکہ وہ نبی اور خلیل اللہ تھے تو پھر نبی کا وصی قوم سے کنارہ کشی کرے تو کیا مضائقہ ہے اور خصوصًا جب یہ خانہ نشینی بموجب رضائے خدا و مصلحت دین کے لیے ہو.
“(جناب) موسی علیہ السلام کی مثال بھی میرے سامنے تھی جس پر عمل کرنا میرے لیے لازم تھا۔ جب موسیؑ نے کہا ( ففررت لما خفتکم .الشعراء-21) اور میں نے تم ( فرعون) سے دوری اختیار کی جب مجھے اپنی جان کا خدشہ لاحق ہوا.”
جناب موسی کی مثال سے یہ بات پتہ چلتی ہے کہ کلیم اللہ نے اپنی جان کے دفاع میں مصر کو ترک کیا اور مدائن چلے گئے اور جب حالات سازگار ہوئے تو واپس تشریف لائے. اسی طرح وصی رسول خدا (ص) حضرت امیر المومنین کو بھی اس امت سے خدشہ تھا لہذا آپؑ نے بھی انہیں ترک کردیا اور حالات کی سازگاری اور حکم خدا کے منتظر رہے اور قیام نہ کیا. پس جو شئ نبی کے لیے عیب نہ ہو وہ وصی کے لیے کیسے عیب بن سکتی ہے.

“(جناب)ہارون کی مثال بھی میرے سامنے تھی جب انہوں نے فرمایا ( یابن ام ان القوم استضعفونی وکادوا یقتلوننی.اعراف-50) یعنی ” اے میرے بھائی! اس امت نے مجھے کمزور کردیا اور میرے قتل پر آمادہ ہوگئے ”
اس مثال سے امیرالمومنینؑ کی مراد یہ ہے کہ جب جناب موسیؑ چالیس دن کے بعد تورات کی الواح لے کر کوہ طور سے واپس آئے اور قوم کو بچھڑے کی پرستش کرتے پایا تو جناب ہارونؑ پر غضبناک ہوئے کہ انہوں نے قوم کو اس کام سے کیوں نہ روکا ؟ تو جناب ہارونؑ نے جواب دیا ‘اے میرے بھائی ! آپ کی قوم نے میری نافرمانی کی اور مجھے اکیلا کردیا اور کمزور کردیا بلکہ میرے قتل کے درپے ہوگئے.’ پس وصئ موسیؑ کے لیے جیسے حالات موسیؑ کے بعد پیدا ہوئے ایسے ہی حالات حضرت علیؑ کے لیے نبی اکرمؐ کے بعد پیدا ہوئے اور مولا علیؑ نے وہی کیا جو جناب ہارون نے کیا. تبھی تو نبی نے فرمایا تھا ( اے علیؑ تمہیں مجھ سے وہی نسبت حاصل ہے جو ہارونؑ کو موسیؑ سے تھی.

“سیرت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ والہ وسلم) بھی میرے پیش نظر تھی جس کا اتباع مجھ پر لازم تھا۔ جب آنحضرتؐ نے مجھے اپنے بستر پر سلا کر ہجرت فرمائی اور غار میں جا چھپے. یہ آپؐ کا چھپنا دشمنوں کے شر سے بچنے کے لیے تھا.”
اس مثال سے حضرت علیؑ کی مراد یہ ہے کہ سرور کائناتؐ کا دشمن کے شر سے محفوظ رہنے کے لیے خود کو مخفی کرنا اور چھپانا اللہ کا حکم تھا، جس پر نبی نے عمل کیا. پھر جب جنگوں کا حکم آیا تو آپؐ نے انھیں کفار کے خلاف جنگ فرمائی. اسی طرح امیرالمومنینؑ کا رسول اکرم (ص) کے بعد ایک مخصوص مدت تک خاموشی اختیار کرنا بھی امر الہی تھا جس پر آپؑ نے عمل کیا. اور جب جنگوں کا زمانہ آیا تو شیر خدا حضرت علیؑ سے بڑھ کر راہ خدا میں جہاد کرنے والا کوئی نہ تھا.
امیرالمومنینؑ کے اس تفصیلی جواب سے آپؑ کی خاموشی کے چند وجوہات اور معلوم ہوتے ہیں۔ ایک تو یہ کہ آپؑ کی خاموشی کسی بزدلی کی وجہ سے نہ تھی بلکہ آپؑ نے ان حالات میں انبیاؑ کی سیرت پر عمل کرتے ہوئے اپنی اور اپنے چاہنے والوں کی جان محفوظ رکھی۔ دوسرے آپؑ کو اگر امت کا ساتھ ملتا تو آپؑ یقیناً جنگ کرتے اور اپنے حق کو حاصل کر لیتے۔ بہرحال آپؑ کا اپنے حق کے لیے تلوار نہ اٹھانا اس بات کی ہرگز دلیل نہیں ہے کہ آپؑ اپنے وقت کے خلفاء کی خلافت سے راضی تھے یا یہ کہ آپؑ نے اپنے حق خلافت کو فراموش کردیا تھا۔

Short URL : https://www.saqlain.org/35ia