دشمنان خدا کے لیئے سخت و شدیدالفاظ کا استعمال

دشمنان خدا کے لیئے سخت و شدیدالفاظ کا استعمال:

الله رحمٰن و رحیم ہے۔ وہ اس بات کو بہت پسند کرتا ہے کہ اس کے بندے اٹھتے بیٹھتے اس کی رحمانیت کا ذکر کرتے رہیں۔ بلاشبہ اس کے غضب پر اس کی رحمت غالب ہے۔ حتیٰ اللہ اس بات کو پسند نہیں کرتا کہ اس کا کوئی گناہگار بندہ بھی اس کی رحمت سے مایوس ہو۔ اس لیے اس نے اپنی رحمت سے مایوسی کو کفر قرار دیا ہے۔ اس کے باوجود قرآن کی متعدد آیات میں اللہ کے لعنت کرنے کا ذکر ملتا ہے۔ کبھی کسی فرد کی خدا سرزنش کرتاہے ، ( تبت یدا ابی لہب و تب، یا،انا شانئک ھو الابتر، اس کی واضح مثالیں ہیں۔) تو کبھی کسی گروہ پر مجموعی طور پر لعنت کرتا ہے۔ یقینًا اس کے باوجود بھی الله کی عزت و بلندی پر کوئی حرف نہیں آتا، نہ اس کی رحمانیت متاثر ہوتی ہے بلکہ اس ملعون کی پستی کا اندازہ ہوتا ہے کہ وہ شخص کتنا بدبخت ہے کہ وہ اللہ جیسے رحمٰن و رحیم، بے انتہا کریم، سریع الرضا رب کی بھی خوشنودی اور رضا حاصل نہ کرسکا۔ اس کی نافرمانی اور طغیانی اس منزل پر پہنچ گئ ہے کہ کریم پروردگار بھی اس پر لعنت کرتا ہے۔
پس کسی ملعون اور رذیل شخص کے لیے سخط الفاظ یاایسا ہی فعل انجام دینا خلاف ادب واخلاق بات نہیں ہے ورنہ خدا خود کبھی اپنی عبادت کرنے والے جن ‘عزازیل’ کو شیطان اور ابلیس نہ کہتا اور نہ اسے کبھی مردودبارگاہ قرار دیتا (یہ دونوں نام اللہ نے بطور طنز استعمال کیا ہے ورنہ شیطان کا حقیقی نام عزازیل ہے)
پس ہم دیکھتے ہیں کہ تاریخ میں بعض مواقع ایسے بھی آئے ہیں جہاں پر اللہ کی حجتوں نے خدا کے دشمنوں کے لیے سخت جملے استعمال کیے ہیں۔ (اور ایسا کرنے سے ان مقدس ہستیوں کی بزرگی اور تقدس پر کوئی حرف نہیں آتا۔)
مندر جہ ذیل سطور میں اس قسم کے چند واقعات بطور نمونہ پیش کررہے ہیں:-

• جنگ خندق میں جب عمرو بن عبدود نے رسول اسلام (ص) سے ( نعوذ باللہ ) بدتمیزی کی تو آپؐ نے اس کے خلاف یہ جملہ استعمال کیا: من لھٰذا الکلب؟ کون اس کتّے کے مقابلے پر جائے گا؟
(تفسیر قمی ج ٢ ص ١٨٣)

• قرآن کریم میں سورہ قلم کی آیت نمبر 13
“عتل بعد ذالک زنیم” میں لفظ ‘عتل’ اور ‘زنیم’ استعمال ہوا ہے جن کے بارے میں مفسرین نے بیان کیا ہے کہ : ‘العتل عظيم الكفر والزنيم الدعي۔’ عتل سے مراد بہت بڑا کفر ہے اور زنیم سے مراد حرام زادہ ہے۔
(تفسير القمی – ج ٢ – ص ٣٨٠)
یہ آیت رسول اسلام (ص) کے ایک دشمن ولید بن مغیرہ (جو خالد بن ولید کا باپ ہے) کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔
کنزل العمال (ج ١ ص ١۵٦) اور تفسیر روح المعانی (ج ٢٩، ص ٢٨) میں رسول اکرم (ص) سے منسوب روایت میں اس لفظ ‘زنیم’ کے معنی حرام زادہ بیان ہوئے ہیں۔ پس یہ نتیجہ نکالا جاسکتا ہے کہ اللہ نے رسول اللہ (ص) کے دشمن کے لیے سخت جملہ استعمال کیا ہے (بلکہ اس طرح کہا جائے تو بہتر ہے کہ اللہ نے اس کی حقیقت اور خباثت کو آشکار کیا ہے)

• ایک موقع پر جب بنی امیہ کے افراد معاویہ کے دربار میں امام حسن علیه السّلام اور بنی ہاشم کے لیے توہین آمیز جملے استعمال کر رہے تھے تو سبط اکبر امام حسن علیہ السلام نے ان کے جواب میں ہر ایک کی حقیقت آشکار کر تے ہوۓ چند جملے ارشاد فرماۓ ۔ آپ نے عمرو بن العاص کو اس طرح خطاب فرمایا:
و اما انت یا عمرو بن العاص الشاني اللعين الأبتر، فإنما أنت كلب أول أمرك، أن أمك بغية، وأنك ولدت على فراش مشترك….
اے عمروبن عاص تو پست ہے، لعین ہے، ابتر ہے، تو کتّا ہے اور تیری ماں فاحشہ تھی اور تیری ولادت میں چندافراد شریک ہیں….
(الاحتجاج – ج ١ – ص ٤١١)
• مسلمانوں کے دوسرے خلیفہ عمر بن خطاب کو بھی مسجد نبوی میں سب کے سامنے اہلبیتؑ کے غضب کا سامنا کرنا پڑا تھا۔
روي أن عمر بن الخطاب كان يخطب الناس على منبر رسول الله صلى الله عليه وآله، فذكر في خطبته أنه أولى بالمؤمنين من أنفسهم، فقال له الحسين عليه السلام – من ناحية المسجد -:
إنزل أيها الكذاب عن منبر أبي رسول الله لا منبر أبيك!
ایک مرتبہ خلیفہ دوم منبر پر بیٹھے خطبہ دے رہے تھے۔ امام حسینؑ نے خلیفہ کی ایک بات پر ٹوکتے ہوئے کہا: اے جھوٹے ! اتر میرے جد رسول خدا (ص) کے منبر پر سے یہ تیرے باپ کا منبر نہیں ہے…
(الاحتجاج – ج ٢ – ص ١٣)
• شب عاشور امام حسینؑ کا جملہ مشہور ہے کہ جب آپؑ نے اپنے اصحاب سے خطاب کرتے ہوئے کہا: ألا وإن الدعي ابن الدعي قد ركز بين اثنتين بين السلة والذلة وهيهات منا الذلة۔
حرام زادہ جس کا باپ بھی حرام زادہ ہے، اس نے ہمیں دو چیزوں میں سے ایک کو اختیار کرنے کو کہا ہے- یا ہم تلوار نکال کر اس سے جنگ کریں یا یزید (لعین) کی بیعت کرکے ذلیل ہو جائیں اور ہم ذلت گوارہ نہیں کر سکتے۔
(اللهوف في قتلى الطفوف – ص ٥٩، اعیان الشیعہ ج ١ ص ٦٠٣، الاحتجاج ج٢ ص٢۴)

• رسول الله صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا: ہم بنی عبد المطلب ہیں، ہم سے کسی گھرانے نے دشمنی نہیں کی مگر یہ کہ وہ خراب ہوگیا۔
ہم سے کسی کتّے نے دشمنی نہیں کی مگر یہ کہ وہ خارش زدہ ہوگیا۔ پس جس کو میری بات پر اعتبار نہیں وہ تجربہ کرکے دیکھ سکتا ہے۔
بحارالانوار ج ١٠٧ ص ٣١

اس طرح کی اور روایات شیعہ کتب میں موجود ہیں جن میں اہلبیت علیہم السلام نے اپنے مخالفین کے لیے سخت الفاظ استعمال کیے ہیں۔ اسی طرح ان کے شیعوں نے بھی اہلبیتؑ کےدشمنوں کو برے نام اور القاب سے پکارا ہے۔ شیعوں کے بزرگ عالم شیخ حر آملی نے اپنی مشہور کتاب ” وسائل الشیعہ ” کی جلد ١٦ میں ایک باب (باب ٣٩) مرتب کیا ہے جس کا نام اس طرح ہے:
بَابُ وُجُوبِ الْبَرَاءَةِ مِنْ أَهْلِ الْبِدَعِ وَ سَبِّهِمْ وَ تَحْذِيرِ النَّاسِ مِنْهُمْ وَ تَرْكِ تَعْظِيمِهِمْ مَعَ عَدَمِ الْخَوْف‏۔
باب: اگر خوف نہ ہو تو اہل بدعت سے براءت کرنا، اہل بدعت کو برا کہنا، لوگوں کے سامنے ان کی برائ کرنا اور ان کی تعظیم نہ کرنا واجب ہے۔
ظاہر سی بات ہے اس باب میں روائتیں بھی اسی مضمون کی موجود ہیں۔
اس مضمون سے ہمارا مقصد یہ ظاہر کرنا ہے کہ اہلبیتؑ یقیناً اعلیٰ کردار کے حامل تھے۔ اپنے دشمنوں سے بھی ان کا برتاؤ ایسا ہوتا تھا کہ جس سے اہلبیت علیہم السلام کے اخلاق کی بلندی ظاہر ہوتی تھی۔ مگر کچھ ایسے دشمنان خدا و رسولؐ بھی تھے جو اس لائق نہ تھے کہ ان سے اچھا برتاؤ کیا جاتا۔ اس لیے ایسے پست افراد سے اہلبیتؑ نے ویسا ہی برتاؤ کیا ، جس کے وہ لائق تھے۔ ایسے جملوں سے ان کے مخالفین کے لیے خدا کا غضب ظاہر ہوجاتا تھا کہ وہ کس قدر خدا کی بارگاہ میں معتوب ہیں۔ پس ایسا بالکل نہیں ہے کہ حضرات معصومینؑ نے اپنے ہر مخالف سے ہمیشہ اچھا برتاؤ کیا یا کبھی بھی کسی مخالف کے تئیں سخت الفاظ استعمال نہ کیا ہو۔

Short URL : https://www.saqlain.org/516z