معاشرے اور سماج کی بقا اور عروج کے لیے قرآن نے جو اصول مرتب کیے ہیں ان میں سے ایک یہ ہے کہ انسان اپنے اوپر احسان کرنے والے کا شکریہ ادا کرے. یقینًا وہ حقیقی احسان کرنے والا اللہ ہے مگر جس کے ذریعہ سے اللہ نے یہ نیکی اس کے ساتھ کی ہے اس شخص کا بھی شکریہ ادا کرنا ضروری ہے. قرآن کا فرمان ہے: “ھل جزاء الاحسان الا الاحسان” – ‘نیکی کا بدلہ نیکی کے سوا اور کیا ہے؟’ “۔ محسنِ اسلام جناب ابوطالبؑ نے اللہ کے پیغام کی تبلیغ میں جو قربانیاں پیش کی ہیں ان کا عوض اللہ ہی دے سکتا ہے۔ حبیب خدا کی جان کی حفاظت میں جو فدا کاری کا مظاہرہ جناب ابوطالبؑ اور ان کے گھروالوں نے کیا ہے اس کا بدلہ روزِ جزا اللہ اور اس کا رسولؐ دیں گے۔ اس ذیل میں ایک حدیث اس طرح بیان ہوئ ہے:
امام حسینؑ سے روایت ہے کہ ہم اپنے والد محترم امیرالمومنینؑ حضرت علیؑ ابن ابی طالبؑ کے ساتھ رحبہ میں موجود تھے. لوگ میرے والد کے اردگرد بیٹھے ہوئے ان کی باتوں کو سن رہے تھے۔ اس موقع پر ایک شخص اٹھا اور اس نے میرے والد سے سوال کیا: اے امیرالمومنینؑ ! اللہ نے آپؑ کو بلند مقام اور منزلت پر فائز کیا ہے جبکہ آپؑ کے والد اس وقت دوزخ کے عذاب میں گرفتار ہیں۔ (معاذ اللہ)
حضرت علیؑ نے جواب دیا: “ایسا کہنے سے باز رہ۔ خدا تیرا منہ توڑدے! مجھے قسم ہے اس کی جس نے محمدؐ کو حق کے ساتھ مبعوث فرمایا۔ جان لو! اگر میرے والد (ابوطالبؑ) دنیا کے تمام گناہ گاروں کی شفاعت کریں تو اللہ تعالیٰ ان کی شفاعت کو قبول کرلے گا۔ کیا ایسا ہوسکتا ہے کہ میں جنّت و جہنم کا تقسیم کرنے والا قرار دیا جاؤں اور میرے والد دوزخ کے عذاب میں گرفتار ہوں؟؟
مجھے قسم ہے اس ذات کی جس نے محمدؐ کو حق کے ساتھ مبعوث کیا: قیامت کے دن، پنجتن اور ائمہؑ کے انوار کے علاوہ کسی نور میں اتنی چمک نہ ہوگی جتنی چمک ابوطالبؑ کے نور میں ہوگی۔ قیامت کے دن ابوطالبؑ کا نور دوسرے تمام انوار کو مات دے دیگا۔ یاد رکھو ابوطالبؑ کا نور ہمارے نور سے ہے جسے خدائے تعالیٰ نے آدمؑ کی پیدائش سے ہزارہا سال پہلے خلق کیا تھا۔”
ابوطالب- مظلوم تاریخ (علامہ امینی) ص١۵۵
اس روایت کو علامہ امینی، صاحب ‘الغدیر’، نے دس حوالوں سے نقل کیا ہے، جن میں کنزل الفوائد (ص٨٠) اور تفسیر البرہان (٣/٧٩۴) بھی شامل ہیں۔ یقینًا محسنِ اسلام جناب عمران ابو طالبؑ اس مرتبے اور منزلت کے مستحق ہیں۔ حضور اکرم (ص) کے اقوال اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ جتنی ڈھارس اور حوصلہ آپؑ کو جناب ابوطالبؑ سے تھا اتنا کسی اور سے نہیں تھا۔
خود خالق کائنات نے قرآن میں اپنے حبیبؐ کو ابوطالب کی خدمات کو ان الفاظ میں یاد دلایا ہے : “الم یجدک یتیما فآوی” ‘کیا ہم نے آپؐ کو یتیم پایا اور آپ کی کفالت نہیں کی؟’ ” (الضحی:٦)
افسوس کہ مسلمانوں کا ایک طبقہ اپنے پیروں کے اجداد کی دشمنی میں سید بطحیٰ کو کافر قرار دیتا ہے۔ یہ وہی لوگ ہیں جن کو یزید اور اس کے باپ، دادا ‘رضی اللہ’ دکھائی دیتے ہیں۔ ان عقل کے اندھوں کی بیماری کا کوئ علاج نہیں ہے ورنہ یہ بتانے کی ضرورت نہیں ہے کہ جس نے دین خدا پر اس قدر احسان کیا ہو اور وہ نگاہ خدا ورسول میں محبوب بھی ہو اللہ تعالی اگر اسے کسی ایک خدمت کی بھی جزا عطا فرما دیگا تو جنت میں وہ جگہ ملیگی کہ وہاں بڑے بڑے مسلمانوں کی رسائ بھی نہیں ہو سکتی ہے۔