خطبہ فدک

حضرت زہراؐ نے جب قرآن کی آیات کے ذریعے سے ابوبکر کو شکست دے دی اور رسول ؐخدا کی شہادت پر اپنی مصیبت اور غم کے عمیق ہونے کا بیان کر دیا تو آپ ؐ انصار سے مخاطب ہوئیں اور یہ خطبہ ارشاد فرمایا:

یا مَعْشَرَ النَّقِیبَةِ وأَعْضَادَ الْمِلَّةِ وحَضَنَةَ الْإِسْلَامِ مَا هَذِهِ الْغَمِیزَةُ فِی حَقِّی و السِّنَةُ عَنْ ظُلَامَتِی؟ أَ مَا كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صلی الله علیه و آله أَبِی یقُولُ الْمَرْءُ یحْفَظُ فِی وُلْدِهِ سَرْعَانَ مَا أَحْدَثْتُمْ و عَجْلَانَ ذَا إِهَالَةٍ و لَكُمْ طَاقَةٌ بِمَا أُحَاوِلُ وقُوَّةٌ عَلَى مَا أَطْلُبُ و أُزَاوِلُ أَ تَقُولُونَ مَاتَ مُحَمَّدٌ ص فَخَطْبٌ جَلِیلٌ اسْتَوْسَعَ وَهْنُهُ واسْتَنْهَرَ  فَتْقُهُ وانْفَتَقَ رَتْقُهُ وأَظْلَمَتِ الْأَرْضُ لِغَیبَتِهِ وكَسَفَتِ الشَّمْسُ والْقَمَرُ وانْتَثَرَتِ النُّجُومُ لِمُصِیبَتِهِ وأَكْدَتِ الْآمَالُ وخَشَعَتِ الْجِبَالُ وأُضِیعَ الْحَرِیمُ وأُزِیلَتِ الْحُرْمَةُ عِنْدَ مَمَاتِهِ فَتِلْكَ واللَّهِ النَّازِلَةُ الْكُبْرَى والْمُصِیبَةُ الْعُظْمَى لَا مِثْلُهَا نَازِلَةٌ ولَا بَائِقَةٌ عَاجِلَةٌ أَعْلَنَ بِهَا كِتَابُ اللَّهِ جَلَّ ثَنَاؤُهُ فِی أَفْنِیتِكُمْ وفِی مُمْسَاكُمْ ومُصْبَحِكُمْ یهْتِفُ فِی أَفْنِیتِكُمْ هُتَافاً وصُرَاخاً وتِلَاوَةً وإِلْحَاناً ولَقَبْلَهُ مَا حَلَّ بِأَنْبِیاءِ اللَّهِ ورُسُلِهِ حُكْمٌ فَصْلٌ وقَضَاءٌ حَتْمٌ- وما مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُولٌ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلُ أَ فَإِنْ ماتَ أَوْ قُتِلَ انْقَلَبْتُمْ عَلى‏ أَعْقابِكُمْ ومَنْ ینْقَلِبْ عَلى‏ عَقِبَیهِ فَلَنْ یضُرَّ اللَّهَ شَیئاً وسَیجْزِی اللَّهُ الشَّاكِرِینَ.

اے جماعت بزرگان ، اے اس ملت کے طاقتور بازوؤ ، اے دین کی حفاظت کرنے والو، میرے حق کے غصب ہونے میں تم نے یہ کیسی سستی اور بے پرواہی کا مظاہرہ کیا ہے ؟ کیا میرے بابا رسول خدا نے فرمایا نہیں تھا کہ: ہر شخص کا خیال اسکی اولاد کے احترام میں ملحوظ خاطر رکھا جاتا ہے ؟ تم لوگوں نے کتنی تیزی سے اس قول کے خلاف عمل کیا ہے، اگرچے مجھے تم لوگوں سے یہی امید تھی، اسکے باوجود کہ تم میں میرے حق کو واپس لینے کی طاقت و قدرت ہے، کیا تم نے یہ گمان کر لیا ہے کہ رسول خدا دنیا سے چلے گئے ہیں اور اب میں لا وارث ہو گئی ہوں ؟ آہ افسوس کہ بابا کا دنیا سے چلے جانا کتنا  درد ناک اور غمناک تھا، انکی وفات سے اس امت میں بہت ہی بڑا خلا پیدا ہو گیا ہے، تمام نظام درہم برہم ہو گیا ہے، انکے نہ ہونے سے زمین تاریک ہو گئی ہے، سورج و چاند نے اپنی روشنی کھو دی ہے، تمام ستارے اپنے مدار سے ہٹ گئے ہیں، آرزوؤں  کی کشتی ڈوب گئی ہے، اس غم سے پہاڑ جھک گئے ہیں، انکی وفات سے تمام حرمتوں کو پامال کر دیا گیا ہے، اور خدا کی قسم یہ بہت ہی بڑا اور بے نظیر حادثہ تھا۔

ہاں یہ حتمی مقدر اور تقدیر تھی کہ جسکو خداوند نے وحی کے ذریعے سے اپنے رسول کو پہلے سے بتایا ہوا تھا کہ:

اور محمد فقط رسول ہیں، دوسرے رسولوں کی طرح، اگر وہ مر جائیں یا قتل کر دئیے جائیں، تم راہ حق سے ہٹ جاؤ گے اور جہالت کی طرف واپس پلٹ جاؤ گے، اسکو جان لو کہ جو بھی زمانہ جاہلیت کی طرف پلٹ جائے گا تو اس سے خداوند کو کوئی نقصان نہیں ہو گا، اور خداوند اپنی نعمتوں کا شکر ادا کرنے والوں کو اچھی جزاء دیتا ہے۔

إِیهاً بَنِی قَیلَةَ أَ أُهْضِمَ تُرَاثُ أَبِی وأَنْتُمْ بِمَرْأًى مِنِّی ومَسْمَعٍ ومُنْتَدًى ومَجْمَعٍ تَلْبَسُكُمُ الدَّعْوَةُ وتَشْمَلُكُمُ الْخِبْرَةُ وأَنْتُمْ ذَوُو الْعَدَدِ و الْعُدَّةِ والْأَدَاةِ والْقُوَّةِ وعِنْدَكُمُ السِّلَاحُ والْجُنَّةُ تُوَافِیكُمُ الدَّعْوَةُ فَلَا تُجِیبُونَ وتَأْتِیكُمُ الصَّرْخَةُ فَلَا تُغِیثُونَ وأَنْتُمْ مَوْصُوفُونَ بِالْكِفَاحِ مَعْرُوفُونَ بِالْخَیرِ والصَّلَاحِ والنُّخْبَةُ الَّتِی انْتُخِبَتْ والْخِیرَةُ الَّتِی اخْتِیرَتْ لَنَا أَهْلَ الْبَیتِ …

أَلَا وقَدْ قُلْتُ مَا قُلْتُ هَذَا عَلَى مَعْرِفَةٍ مِنِّی بِالْجِذْلَةِ الَّتِی خَامَرَتْكُمْ والْغَدْرَةِ الَّتِی اسْتَشْعَرَتْهَا قُلُوبُكُمْ ولَكِنَّهَا فَیضَةُ النَّفْسِ ونَفْثَةُ الْغَیظِ وخَوَرُ الْقَنَاةِ وبَثَّةُ الصَّدْرِ وتَقْدِمَةُ الْحُجَّةِ فَدُونَكُمُوهَا فَاحْتَقِبُوهَا دَبِرَةَ الظَّهْرِ نَقِبَةَ الْخُفِّ بَاقِیةَ الْعَارِ مَوْسُومَةً بِغَضَبِ الْجَبَّارِ وشَنَارِ الْأَبَدِ مَوْصُولَةً بِنَارِ اللَّهِ الْمُوقَدَةُ  الَّتِی تَطَّلِعُ عَلَى الْأَفْئِدَةِ فَبِعَینِ اللَّهِ مَا تَفْعَلُونَ وسَیعْلَمُ الَّذِینَ ظَلَمُوا أَی مُنْقَلَبٍ ینْقَلِبُونَ وأَنَا ابْنَةُ نَذِیرٍ لَكُمْ بَینَ یدَی عَذابٍ شَدِیدٍ فَاعْمَلُوا إِنَّا عامِلُونَ  وانْتَظِرُوا إِنَّا مُنْتَظِرُونَ.

اے انصار کی جماعت، تم زندہ ہو، اور تمہاری آنکھوں کے سامنے میرے بابا کی میراث کو اس طرح ظلم سے مجھ سے چھین کر لے جائیں ؟!

میں نے اپنے اس خطاب و دعوت سے تم سب کو ایک امتحان و آزمائش میں ڈال دیا ہے، حالانکہ تمہارے پاس سب جنگی ساز و سامان تھا اور تم نیک کام اور احسان کرنے والے مشہور و معروف ہو، لیکن اب تم لوگوں کو کیا ہو گیا ہے کہ تم میری فریاد کو سن رہے ہو، لیکن میری مدد نہیں کر رہے ؟!

میرے اشکوں کو دیکھ رہے ہو، لیکن غیرت مندی کا مظاہرہ نہیں کر رہے ہو ؟! حالانکہ تم زمانہ ماضی میں شجاعت، استقامت اور مشکلات کو تحمّل کرنے والوں کی طرح معروف و مشہور تھے اور تم سب ہم اہل بیت کے خاص گروہ میں سے تھے ؟!……

ہاں میں نے تم سب کو بہت احتیاط اور معرفت کے ساتھ تمہیں تمہاری باطنی گمراہی اور ظلمت کی طرف متوجہ کر دیا ہے، نہ چاہتے ہوئے بھی میرے دل کا غم و غصہ اس طرح سے باہر آ گیا ہے، میرے صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا ہے، کہ جسکو میں اپنے سینے میں نہیں روک سکی اور اسطرح سے میری زبان پر آ گیا ہے، جاؤ میرے غصب شدہ حق کو پامال کر کے لے جاؤ اور خلافت و فدک کی اس سواری کو اپنے ہاتھوں سے رام کر  لو اور آرام سے اس پر سوار ہو جاؤ۔

لیکن یہ ضرور یاد رکھنا کہ اس سواری کے پاؤں اور پشت ہر دو زخمی ہیں، اس پر سوار ہونے کا ننگ و عار ہمیشہ باقی رہنے والا ہے، کیونکہ اس سواری پر خداوند کی مہر لگی ہوئی ہے، اور جو بھی اسکو اپنے ساتھ لگانا چاہے گا، وہ اس سوار کو ہمیشہ خداوند کے غضب کی آگ کی طرف لے جائے گی۔ خداوند نے ظالموں کا احاطہ کیا ہوا ہے، پس تم کہاں جا رہے ہو اور کدہر جا رہے ہو ؟!

غور کرو میں تمہارے پیغمبر کی بیٹی ہوں، وہ پیغمبر کہ جو تمہارے لیے بشیر اور نذیر تھا، اور انھوں نے تم خداوند کے سخت عذاب سے بھی آگاہ کیا تھا، پس اب جو تمہارا دل ہے کرو، ہم بھی تم سے بدلہ لیں گے، لہذا تم بھی اس دن کے منتظر رہو، اور ہم بھی اسی دن کے ہی منتظر ہیں۔

الطبرسی، أبی منصور أحمد بن علی بن أبی طالب (متوفى 548هـ)، الاحتجاج، ج‏1، ص108، تحقیق: تعلیق وملاحظات: السید محمد باقر الخرسان، ناشر: دار النعمان للطباعة والنشر – النجف الأشرف، 1386 – 1966 م.

أبی الفضل احمد بن أبی طاهر المعروف بابن طیفور (متوفى280 هـ ) بلاغات النساء، ص12، ناشر: منشورات مكتبة بصیرتی ـ قم.

Short URL : https://www.saqlain.org/evae