مولا علی علیہ السلام: مقدمۂ فدک کے اہم گواہ

وَ یَقُوْلُ الَّذیْنَ کَفَرُوْا لَسْتَ مُرْسَلاً قُلْ کَفٰی بِا للہ ِ شَھِیْداً بَیْنِی وَ بَیْنَکُمْ وَ مَنْ عِنْدَہُ عِلْمُ الْکِتَابِ

[1]

کافر کہتے ہیں کہ آپﷺ رسول نہیں ہیں، کہہ دیجئے کہ آپ کی رسالت کی گواہی کے لئے اللہ کافی ہے اور وہ کہ جس کے پاس کتاب کا علم ہے۔

رسول اللہ ﷺکی رحلت کے بعد خلیفۂ اوّل ابوبکر نے باغِ فدک دخترِ رسول ﷺ سے چھین لیا۔ اُن کا کہنا تھا کہ یہ مالِ فَئے ہے اور مسلمانوں کی جاگیر ہے نہ کہ رسولﷺ کی ذاتی ملکیت۔جناب سیّدہ سلام اللہ علیہا نے دعویٰ کیا کہ اس باغِ فدک کو اُن کے بابا رسول اللہ ﷺنے اُنھیں ہدیہ کر دیا تھا۔ ابوبکر نے اِس بات کے لئے اُن سے گواہ طلب کیئے۔ خاتونِ جنّت سلام اللہ علیہا نے اپنے دعویٰ کو ثابت کرنے کے لئے دو گواہ پیش کیئے اُن میں سے ایک اہم گواہ مولا علی علیہ السلام ہیں۔

مولا علی علیہ السلام کی گواہی کیوں اہم ہے؟

(۱)   مولا علی علیہ السلام کو رسول اللہ ﷺنے بچپن سے پالا ہے اُن کی پرورش خود حضرت ختمی مرتبت ﷺ نے فرمائی تھی۔ یہاں تک کہ حضرت علی علیہ السلام رسول  اللہ ﷺسے جتنے قریب رہے اتنا کوئی دوسرا رسول اللہ ﷺسے قریب نہیں رہا۔ مولا علی علیہ السلام رسول اللہ ﷺکے محرمِ اسرار تھے اور اُن کے قول کی گہرائی اور مقصد کو بخوبی سمجھتے تھے۔

(۲)   آپ علیہ السلام نے سب سے پہلے اسلام قبول کیا بلکہ تمام تر تعلیماتِ اسلام آپ علیہ السلام نے بلا واسطہ رسول اللہ ﷺسے سیکھیں ہیں۔

(۳)   قرآن کی آیات کو بھی علی علیہ السلام سے بہتر کوئی نہیں جانتا تھا۔ کون سی آیت محکم ہے کون سی متشابہ کون سی ناسخ ہے کون سی منسوخ ہے اور کیوں منسوخ ہوئی ……ان سب باتوں کا علم رسولؐ اللہ نے اپنے وصی علی علیہ السلام کو تعلیم دی تھی۔ احکامِ الٰہی کا مکمل علم بھی صرف علی علیہ السلام کو ہی تھا۔

(۴)   قرآن نے بھی مولا علیؑ کی گواہی کو بہت اہمیت دی ہے۔مثلاً سورۂ رعد:۴۳ میں رسول کی گواہی کے لئے اللہ کے ساتھ مولا علی علیہ السلام کی گواہی کا ذکر ہے۔ سورۂ آلِ عمران:۶۱ میں حضرت علی علیہ السلام کو رسول اللہ ﷺکا نفس کہا ہے اور نصاریٰ کے خلاف رسولﷺ کی رسالت کا گواہ بنایا ہے۔

(۵)   اتنا ہی نہیں بلکہ رسول اللہ ﷺنے بارہا یہ ارشاد فرمایا ہے کہ

’’علی مع الحق و الحقُّ مع علیٍ اللھم ادرِ الحقِّ حَیْثُ مَادار‘‘

علی علیہ السلام حق کے ساتھ ہیں اور حق علی علیہ السلام کے ساتھ ہے اے اللہ حق کو اُدھر موڑ دے جدھر علی علیہ السلام مڑیں۔(طرفین کا اس حدیث پر اتفاق ہے)

(۶)   علی علیہ السلام بھی مسلمانوں کے خلیفہء راشد ہیں جس طرح وہ ابوبکر کو خلیفہء راشد مانتے ہیں۔ اس طرح ایک کی گواہی دوسرے کے دعویٰ کے مقابل میں پیش کی جا رہی ہے۔

مولا علی علیہ السلام کی گواہی کیوں قبول نہیں کی گئی؟

رسول اللہ ﷺنے متعدد مقامات پر اور متعدد مواقع  پر اپنے چچا زاد بھائی اور معاونِ خاص حضرت علی ابن ابی طالب علیہما السلام کے فضائل اور مناقب مسلمانوں کو بتائے ہیں۔ کُتُبِ احادیث و سُنن میں یہ روایتیں موجود ہیں۔ ایسا بھی نہیں ہے کہ ابوبکر کو مولا علی علیہ السلام کے اِن فضائل کا علم نہیں تھا۔ بلکہ کچھ روایات فضائلِ علی علیہ السلام خود ابوبکر سے مروی ہیں۔ پھر سوال یہ ہے کہ جب علی علیہ السلام حق کے ساتھ ہیں اور عشرِ مُبشِّرہ میں شامل ہیں تو اُن کی گواہی کیوں قبول نہیں کی گئی؟ اِس لئے کہ وہ فاطمہ زہراسلام اللہ علیہا کے شوہر ہیں اور فدک میں اُن کا ذاتی مفاد شامل ہے۔ یعنی ابوبکر یہ سمجھ رہے تھے کہ علیؑ فدک کی ملکیت حاصل کرنے کے لئے [معاذاللہ]جھوٹی گواہی دے سکتے ہیں؟؟؟(بلکہ دے رہے ہیں!!!)

اب مسئلہ یہ ہے کہ اِن میں سے ایک دوسرے کو جھوٹا مان رہا ہے۔اگر ابوبکر کی بات صحیح ہے تو علی علیہ السلام کی گواہی جھوٹی ہے اور اگر علی علیہ السلام کی گواہی صحیح ہے تو ابوبکر کا دعویٰ جھوٹا/غلط ہے۔ لطف کی بات یہ ہے کہ دونوں کا شمارخُلفاء راشدین میں بھی ہے اور عشرۂ مُبَشِّرہ میں بھی ہے۔

[1]        سورۂ رعد،آیۃ ۳۴

Short URL : https://www.saqlain.org/n0u3