صراط مستقیم: ہدایت کا راستہ

اللہ تبارک و تعالٰی نے انسانوں کی ہدایت کے لیے ہر دور میں انبیاء و مرسلین بھیجے۔ اس امت کی رہنمائ کے لیے محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جیسا مرسل اعظم بھیجا اور خاتم الانبیاء پر اپنا کلام قرآن مجید نازل فرمایا۔ اس کے ساتھ ساتھ خالق کائنات نے اپنے کلام قرآن پاک میں اپنے بندوں کو ایک اہم دعا بھی تعلیم فرمائ، جس کا ورد کرنے کو اس نے تمام مسلمانوں پر دن میں دس مرتبہ فرض قرار دیا ہے۔ وہ دعا یہ ہے: ‘اھدنا الصراط المستقیم’ ہمارے پرودگار! ہم سب کو صراط مستقیم کی ہدایت فرما. سورہ فاتحہ کی اس آیت اور اس کے بعد کی آیات سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ راستہ اور کچھ نہیں بلکہ خدا کے محبوب بندوں کی پیروی کرنے کا راستہ ہے۔ سوال یہ ہے کہ جب سرور کائنات (ص) کو اس بات کا علم تھا کہ امت گمراہ ہو جائگی تو کیا آنحضرت (ص) نے صراط مستقیم کی طرف امت کی رہنمائ نہیں کی؟ کیا آنحضرت (ص) نے ان کو صرف دعا تعلیم کرا دی اور بس؟ بالکل نہیں، آنحضرتؑ نے واضح طور پر امت کی صراط مستقیم کی طرف رہنمائ فرمائ ہے۔
اس مضمون میں ہم ان بے شمار احادیث میں سے چند کو پیش کر رہے ہیں جن سے پتہ چل جائےگا کہ کن افراد کی پیروی کو ‘صراط مستقیم’ کہا گیا ہے؟
• رسول اکرم (ص) نے مولا علیؑ سے ارشاد فرمایا: ‘انت الطریق الواضح وانت الصراط
المستقیم وانت یعسوب الدین’
یا علیؑ تم خدا کی طرف واضح راستہ ہو، تم ہی صراط مستقیم (ہدایت کا سیدھا راستہ) ہو۔ تم ہی یعسوب الدین (دین کے رہبر) ہو۔
اہل تسنّن حوالہ جات:
• الکشف والبیان ثعلبی ج۱ص۱۲۰
• شواهد التنزیل ج۱ص۷۴
• مجمع الزوائد هیثمی ج۹ص۱۱۲
• ابن حجر در الاصابه ج۲ص۱۳۰
• التهذیب ابن عساکر ج۲ص۸۵
• المناوی در کنوز حقائق ص۲۰۲
• ذخائر العقبی ص۱۸
• الریاض النضره ج۲ص۲۰۹

اسی طرح روایات میں یہ بھی موجود ہے کہ اہلبیتؑ کی محبت بھی صراط مستقیم ہے۔ یعنی جو ان حضرات سے محبت رکھتا ہے اور ان کی ولایت کو قبول کرتا ہے وہ صراط مستقیم پر گامزن ہے۔
امیرالمومنین علیہ السلام نے بھی اس حقیقت کی طرف اس جملہ میں اشارہ فرمایا ہے:
ان الصراط المستقیم محبتنا اهل البیت۔
بیشک صراط مستقیم ہم اہلبیتؑ کی محبت ہے۔
اہل تسنّن حوالہ:
مناقب ابن مردویه ص۸۶

پس جو بھی صراط مستقیم کا متمنی ہے اسے چاہیے کہ اہلبیتِؑ رسولؐ سے محبت کرے۔ چنانچہ روایات میں موجود ہے کہ روز قیامت پل صراط پر سے امن وآمان کے ساتھ وہی شخص گزر سکے گا جس کے پاس اہلبیتؑ کی محبت و ولایت کا پروانہ ہوگا۔ لہذا ارشاد مرسل اعظم ہے:
لا یوجز احد الصراط الا من کتب له علی الجواز، ان علی الصراط لعقبة لا یجوز احد الا بجواز من علی بن ابی طالب.
پل صراط پر سے وہی گزر پائے گا جس کے پاس ویزا ہوگا۔ بیشک اس صراط پر ایسی ڈھلان ہے جس پر سے کوئ نہیں گزر پائے گا مگر یہ کہ اس کے پاس علیؑ ابن ابی طالبؑ کا دیا ہوا ویزا ہوگا۔
اہل تسنّن حوالے:
• تاریخ بغداد ج۱۰ ص۳۵۵
• تاریخ دمشق ج۴۴ ص۲۵۴
یہی سبب ہے کہ رسول اعظم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بارہا امت کو اپنے اہلبیتؑ سے محبت اور ان کی اتباع کا حکم دیا ہے۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ رسول خدا (ص) لوگوں کو کسی فرمان کا حکم دیں مگر اس کی طرف نشاندہی نہ کریں۔ پس جب الله اور اس کے رسولؐ نے امت کو ‘اھدنا الصراط المستقیم’ پڑھنے کی تاکید کی ہے تو اس صراط کی طرف واضح رہنمائی بھی فرمائ ہے۔ آخر میں پرودگار کی بارگاہ میں دعا ہے: ہمارے پرودگار! ہم سب کو ان اہلبیتؑ کے راستے پر ثابت قدم رکھ جن پر نہ کبھی تیرا غضب نازل ہوا اور نہ یہ اشخاص کبھی گمراہ ہوئے۔