رسول اسلام (ص) کو کس نے زہر دیا تھا؟

فریقین کی کتابوں میں اس بات کا ذکر ملتا ہے کہ الله کا رسولؐ اس دنیا سے مسموم رخصت ہوا ہے۔ اس بات پر کتب احادیث میں بزرگ اصحاب اور علماء کی گواہی بھی موجود ہے کہ رسول اسلام (ص) کو زہر سے شہید کیا گیا ہے۔ (المستدرك علي الصحيحين، ج3، ص61، ح4395) پھر سوال یہ اٹھتا ہے کہ وہ کون شخص تھا جس نے رحمت العالمین کو زہر دے کر شہید کیا؟ اس بارے میں اہل تسنّن کا موقف یہ ہے کہ حضور اکرم (ص) کو خیبر کی جنگ کے موقع پر ایک یہودی عورت نے زہر دیا تھا۔ جس کا اثر یہ ہوا کہ آپؐ اس دار فانی سے رخصت ہو گئے۔ اس بارے میں اہل تسنّن کے یہاں سب سے زیادہ معتبر مانی جانے والی کتاب میں بھی یہ روایت ملتی ہے۔ محمد بن اسماعيل بخاری اپنی کتاب صحيح بخاری میں روایت نقل کرتے ہیں:
قالت عَائِشَةُ كان النبي صلي الله عليه و (آلہ) سلم يقول في مَرَضِهِ الذي مَاتَ فيه يا عَائِشَةُ ما أَزَالُ أَجِدُ أَلَمَ الطَّعَامِ الذي أَكَلْتُ بِخَيْبَرَ فَهَذَا أَوَانُ وَجَدْتُ انْقِطَاعَ أَبْهَرِي من ذلك السُّمِّ.

عايشہ کہتی ہیں کہ: رسول خدا (ص) اپنے اس مرض میں کہ جس کے ذریعے وہ دنیا سے رخصت ہوئے تھے، فرمایا کرتے تھے کہ جو کھانا میں نے خیبر میں کھایا تھا، ابھی تک اس کی تکلیف کو محسوس کر رہا ہوں اور ابھی میں نے یوں محسوس کیا ہے کہ اسی کی وجہ سے میرے دل کی رگیں پھٹ گئی ہیں۔
(صحيح البخاري، ج4، ص1611، ح4165، كِتَاب الْمَغَازِي، بَاب مَرَضِ النبي (ص) وَ وَفَاتِهِ)
اس روایت میں یہ بتایا گیا ہے کہ جو غذا رسول الله (ص) نے اپنی رحلت سے چار سال قبل کھائی تھی ، وہ ان کی شہادت کا سبب بنی ہے۔ غور طلب ہے کہ جنگ خیبر سن سات ہجری میں واقع ہوئی تھی جبکہ رسول اسلام (ص) سن گیارہ ہجری میں اس دنیا سے رخصت ہوئے ہیں۔ یہ ممکن ہی نہیں کہ زہر کسی شخص پر اتنی طویل مدت کے بعد اثرانداز ہو۔ یہی سبب ہے کہ اس روایت کو عقل و منطق قبول نہیں کرتی ۔ لہذا یہ وہ زہر نہیں ہو سکتا ، جس نے رسول الله (ص) کی جان لی ہو۔ اس کے علاوہ اس بارے میں روایات نقل ہوئی ہیں کہ رسول الله (ص) کے سامنے پیش کی جانے والی مہلک غذا نے اپنے زہریلے ہونے کی خبر رسول اسلام (ص) کو خود دی ہے۔
ابن كثير دمشقی نے اپنی تالیف میں لکھا ہے :
و في صحيح البخاري «عن ابن مسعود قال: لقد كنا نسمع تسبيح الطعام و هو يؤكل» يعني بين يدي النبي و كلمه ذراع الشاة المسمومة و أعلمه بما فيه من السم۔
یعنی صحيح بخاری میں ابن مسعود سے نقل ہوا ہے: وہ کہتے ہیں کہ: ہم رسول خدا (ص)کے کھانا کھاتے وقت، کھانے کے تسبیح پڑھنے کی آواز کو سنا کرتے تھے، یعنی رسول خدا کے سامنے پڑا ہوا زہر آلود گوشت، رسول خدا سے باتیں کرتا تھا اور خود گوشت نے رسول خدا کو بتایا کہ مجھے نہ کھانا کیونکہ میں زہر آلود ہوں۔
(البداية و النهاية،ج 6،ص286،)
اس بیان سے یہ معلوم ہوجاتا ہے کہ سرور عالم (ص) کو اپنی غذا کے زہرآلودہ ہونے کی خبر ہوجاتی تھی اور آپؐ اس سے اجتناب کرتے تھے۔ اس طرح یہ ممکن نہ تھا کہ آنحضرت (ص) اپنی مرضی سے زہریلی غذا تناول فرماتے۔ ہاں اگر کوئی جبرا ان کو زہر کھلاتا یا پلاتا تب ہی ممکن تھا کہ آپؐ کو مسموم کیا جائے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ آنحضرت (ص) کو زبردستی زہر دیا گیا ہے، جس کے سبب آپؐ کی شہادت واقع ہوئی ہے۔ پس سوال یہ اٹھتا ہے کہ وہ کون شخص ہے کہ جس نے رسول اسلام (ص) کو کوئی زہر آلود شۓ جبرا کھلائی یا پلائی ہے؟ اس روایت کو متعدد اہل تسنّن علماء نے نقل کیا ہے۔ بخاری اور مسلم کے علاوہ دیگر اہل تسنّن علماء نے لکھا ہے :

قالت عَائِشَةُ لَدَدْنَاهُ في مَرَضِهِ فَجَعَلَ يُشِيرُ إِلَيْنَا أَنْ لَا تَلُدُّونِي فَقُلْنَا كَرَاهِيَةُ الْمَرِيضِ لِلدَّوَاءِ فلما أَفَاقَ قال أَلَمْ أَنْهَكُمْ أَنْ تَلُدُّونِي قُلْنَا كَرَاهِيَةَ الْمَرِيضِ لِلدَّوَاءِ فقال لَا يَبْقَي أَحَدٌ في الْبَيْتِ إلا لُدَّ و أنا أَنْظُرُ إلا الْعَبَّاسَ فإنه لم يَشْهَدْكُمْ.

عايشہ کہتی ہیں کہ میں نے رسول خدا (ص)کی بیماری کے دوران زبردستی ان کے منہ میں دوائی ڈالی، انھوں نے اشارے سے کہا کہ مجھے دوائی نہ دو، میں نے اپنے آپ سے کہا کہ شاید یہ اس وجہ سے ہے کہ مریض کا دوائی کھانے کو دل نہیں کرتا اور جب رسول خدا (ص) تندرست ہو گئے تو فرمایا کہ کیا میں نے تم کو منع نہیں کیا تھا کہ مجھے دوائی نہ دو ؟ پھر انھوں نے فرمایا کہ اس گھر میں جس نے بھی مجھے دوائی دی تھی اب ان سب کو میرے سامنے وہی دوائی پلاؤ غیر از عباس کہ کیونکہ انھوں نے تم لوگوں والا کام میرے ساتھ نہیں کیا تھا۔

حوالہ جات:
• صحيح البخاري، ج4، ص1618، ح4189، كِتَاب الْمَغَازِي، بَاب مَرَضِ النبي (ص) وَوَفَاتِهِ؛
• صحیح بخاری ج5، ص2159، ح5382، كِتَاب الطِّبِّ، بَاب اللَّدُودِ؛
• صحیح بخاری ج6، ص2524، ح6492،كِتَاب الدِّيَاتِ، بَاب الْقِصَاصِ بين الرِّجَالِ وَالنِّسَاءِ في الْجِرَاحَاتِ؛
• صحیح بخاری ج6، ص2527، ح6501، بَاب إذا أَصَابَ قَوْمٌ من رَجُلٍ هل يُعَاقِبُ
• صحيح مسلم، ج4، ص1733، ح2213، كِتَاب السَّلَامِ، بَاب كَرَاهَةِ التَّدَاوِي بِاللَّدُودِ

اس روایت سے ایک بات تو بخوبی ظاہر ہوجاتی ہے کہ عائشہ اور ان کے ساتھی رسولؐ کے حکم کی مخالفت کرتے تھے اور ان کے ساتھ زبردستی بھی کیا کرتے تھے۔
اس روایت سے متعلق چند سوالات زہن میں پیدا ہوتے ہیں:
اوّلاً تو یہی کہ رسول خدا (ص) کو اس طرح جبرا دوا پلانے کی کیا ضرورت تھی؟ اگر ان کو رسولؐ کی صحت کی اتنی زیادہ فکر تھی تو آنحضرتؐ کی محبوب بیٹی کے ذریعہ یہ دوا پلائی جاسکتی تھی یا خود طبیب اس فعل کو انجام دے سکتا تھا۔ اس کے علاوہ کیا حضور اکرم (ص) کو نہیں معلوم تھا کہ کون سی چیز ان کے لیے نفع بخش ہے اور کون سی چیز ان کے لیے نفع بخش نہیں ہے۔
دوسرے یہ کہ جب حضور اکرم (ص) نے صریحًا دوا کے پینے سے انکار کردیا تھا تو عائشہ اور ان کے ساتھیوں کو کیا حق پہنچتا تھا کہ وہ رسولؐ کے حکم کی مخالفت کریں؟ کیا ان کو رسولؐ کے فیصلے کی مخالفت کا انجام نہیں معلوم تھا؟
تیسرے کیا کوئی عقل مند انسان اس بات کو قبول کرے گا کہ جو دوا مریض کے لیے بنا ئی گئی ہے اسے دوسروں کو بھی پلائے جانے کا حکم دے؟ بالکل نہیں کوئی عام عقل مند شخص اس بات کو قبول نہیں کرے گا چہ جا ئیکہ اللہ کا رسولؐ ایسا حکم دے جبکہ خود آنحضرتؐ کو یہ پسند نہیں تھا کہ ان کو وہ دوا پلائی جائے۔ جس رسولؐ نے اپنے جانی دشمن قریش سے فتح مکہ کے بعد بدلہ نہ لیا وہ اس معمولی بات کا بدلہ اپنے خیرخواہوں سے کیسے لے سکتا ہے؟ یقینًا یہاں بات کچھ اور ہے۔ در اصل اس روایت میں کوشش کی گئ ہے کہ یہ ظاہر کیا جائے کہ، معاذ اللہ ثم معاذ اللہ، اپنے آخری وقت میں رسول اللہ (ص) کی دماغی حالت صحیح نہیں تھی۔ شائد اسی لیے بخاری نے اپنی کتاب کے مختلف ابواب میں اس روایت کو ذکر کیا ہے تا کہ ‘ہذیان’ والی بات کی حمایت کی جاسکے۔

بہر حال صحیح بخاری اور مسلم کی اس روایت سے ہمارے اس سوال کا جواب یقینی طور پر مل جاتا ہے کہ رسول اسلام (ص) کو زہر کس نے دیا؟