جب مانگنے والے نے اپنے لیے عذاب مانگا

سَأَلَ سَائِلٌ بِعَذَابٍ وَاقِعٍ لِّلْكَافِرِ‌ينَ لَيْسَ لَهُ دَافِعٌ.
(ترجمہ: ایک سوالی نے اس عذاب کا سوال کیا جو کافروں پر واقع ہونے والا ہے…)

آیت ‘سأل سائل یا آیت عذاب واقع،’ سورہ معارج کی آیت نمبر ١ اور ٢ کو کہا جاتا ہے جس کے مطابق کافروں کی درخواست پر خدا نے عذاب نازل فرمایا۔ شیعہ مفسرین کے مطابق یہ آیت نعمان بن حارث فہری کے بارے میں نازل ہوئی ہے جس نے غدیر خم میں امام علیؑ کی جانشینی پر اعتراض کرتے ہوئے خدا سے عذاب کا مطالبہ کیا تھا۔
جب نعمان نے غدیر خم کے مقام پر پیغمبر اکرمؐ کی زبانی حضرت علیؑ کی جانشینی کی خبر سنی تو اس نے پیغمبر اکرمؐ سے کہا جب آپ نے خدا کی وحدانیت اور اپنی رسالت کی گواہی دینے کے لیے کہا تو ہم نے آپ کے حکم کی اطاعت کی اس کے بعد آپؐ نے ہمیں جہاد، حج، روزہ، نماز اور زکات کا حکم دیا اسے بھی ہم نے قبول کیا لیکن آپؐ اس پر راضی نہیں ہوئے اب اس جوان(علیؑ) کو اپنا جانشین مقرر کر رہے ہیں۔ یہ فیصلہ آپؐ کا اپنا ذاتی فیصلہ ہے یا خدا کا؟ پیغمبر اکرمؐ نے قسم کھاتے ہوئے فرمایا کہ یہ حکم خدا کی طرف سے ہے۔ اس پر نعمان نے کہا: “خدایا! اگر یہ بات حق ہے اور یہ تیرا حکم ہے تو آسمان سے مجھ پر ایک پتھر نازل کر دے۔”
اس حدیث کے مطابق اس کی درخواست کے بعد آسمان سے اس کے سر پر ایک پتھر آ گرا اور وہ وہیں پر مارا گیا اس وقت یہ آیت نازل ہوئی۔
(تفسیر برہان (سورہ معارج کی تفسیر) ،تفسیر نمونہ ج۲۵، ص۷؛ تفسیر المیزان، ج۲۰، ص۱۱)
سن ١٠ ہجری غدیر کے موقعہ پر نازل ہونے والی آیتوں میں سورہ معارج کی اس آیت کا شمار بھی ہوتا ہے۔ لہذا یہ آیت بھی نہ صرف یہ کہ حضرت علیؑ کی ولایت کی اہمیت کو ظاہر کرتی ہے بلکہ اس کی شان نزول حضرت علیؑ کے منصوص من اللہ جانشین رسولؐ ہونے کا اظہار کرتی ہے۔ یہی سبب ہے کہ شیعہ تفاسیر میں اس آیت کو ولایت مرتضوی کے ضمن میں پیش کیا جاتا ہے۔

اہل تسنّن علماء میں بعض افراد مثلاً آلوسی اور ابن تیمیہ اس بات کے معتقد ہیں کہ اس آیت کا واقعہ غدیر کے ساتھ کوئی ارتباط نہیں ہے کیونکہ سورہ معارج مکی سورتوں میں سے ہے اور ہجرت سے پہلے نازل ہوئی ہے، جبک واقعہ غدیر ہجرت کے دسویں سال جب پیغمبر اکرمؐ حجۃ الوداع سے واپس آ رہے تھے، رونما ہوا ہے (روح‌المعانی، ج۱۵، ص۶۳؛ ابن تیمیہ، منہاج السنۃ النبویۃ ج۷، ص۴۵۔)
چنانچہ ان کا اعتراض یہ ہے کہ سورہ معارج، جس کی یہ ابتدائ آیت ہے، ایک مکی سورہ ہے جبکہ واقعہ غدیر آنحضرتؐ کی حیات طیبہ کے آخری سال میں پیش آیا تھا تو یہ کیسے ممکن ہے کہ اس آیت میں منکر ولایت علیؑ حارث بن نعمان پر عذاب کا ذکر ہو؟ یعنی ان کا کہنا ہے کہ یہ سورہ حضور اکرم (ص) کی ہجرت سے پہلے مکہ میں نازل ہو چکا تھا تو یہ کیسے ممکن ہے کہ آنحضرتؐ کے آخری ایام میں رونما ہونے والے واقعہ کا اس میں ذکر ہو؟
اس اعتراض کے لیے ایک سے زیادہ جواب موجود ہیں۔ اولًا یہ کہ اس حقیقت سے مسلمان واقف ہیں کہ قرآن تدریجًا نازل ہوا ہے۔ لہذا ایسا نہیں ہے کہ ہر سورہ کی تمام آیات ایک ساتھ نازل ہوئ ہوں۔ ایک ہی سورہ کی بعض آیتیں مکہ میں نازل ہوئ ہیں اور بعض آیتیں مدینہ میں. اس کے علاوہ اگر کوئ یہ کہے کہ کسی سورہ کے مکی یا مدنی ہونے کا قاعدہ یہ ہے کہ اس کی ابتدائ آیات اگر مکہ میں نازل ہوئ ہوں تو وہ مکی سورہ ہے ورنہ وہ سورہ مدنی کہہ لائ جائے گی۔ مگر یہ قاعدہ سو (١٠٠) فیصد ہر سورہ پر لاگو نہیں ہوتا کہ اگر ابتدائ آیات مکی ہوں تو اس سورہ کو مدنی نہیں کہا جاتا یا یہ کہ اگر ابتدائ آیتیں مدینہ میں نازل ہوئ ہوں تو اس سورہ کو مکی نہیں کہا جاتا۔ اس کی چند ایک مثال یہ ہیں۔
• سورہ ‘کہف’ کی ابتدائ سات آیات مدنی ہیں مگر یہ سورہ مکی ہے۔ (الاتقان ج ١ ص ۴١)

• سورہ ‘مطففین’ کی پہلی آیت مدنی ہے اور تمام آیات مکی ہیں پھر بھی یہ سورہ مکی مشہور ہے۔ (جامع البیان ج ٣٠ ص٩١)

• سورہ ‘لیل’ کی تمام آیتیں مکہ میں نازل ہوئ ہیں جبکہ پہلی آیت مدینہ میں نازل ہوئ ہے۔ یہ سورہ بھی مکی ہے۔ (الاتقان ج ١ ص ۴٨)

• سورہ ‘مجادلہ’ مکی سورہ ہے مگر اس کی ابتدائ دس آیات مدنی ہیں (ارشاد العقل و السلیم ج ٨ ص ٢١۵)
اس طرح کی اور بھی مثالیں موجود ہیں۔

دوسری بات یہ کہ ایسا بھی ہوا ہے کہ قرآن کی آیات دو مرتبہ نازل ہوئ ہوں جیسا کہ اکثر علماء نے وضاحت کی ہے کہ نصیحت، یاد دہانی یا آیت کی شان و اہتمام کے پیش نظر بعض قرآنی آیات دوبار نازل ہوئ ہیں۔ مثال کے طور پر سورہ روم کی ابتدائ آیات، ‘بسم اللہ الرحمن الرحیم’ وغیرہ۔ سورہ فاتحہ کو ‘سبع مثانی’ کہا ہی اس لیے جاتا ہے کہ دوبار نازل ہوئ ہے۔ (الغدیر -اردو ج ١ ص ١٣٨)

تیسرے یہ کہ اگر ان آیات کا نزول مکہ میں فرض کر بھی لیا جائے تو بھی حارث کے واقعہ کو جھٹلایا نہیں جاسکتا. علامہ امینی نے اپنی کتاب الغدیر میں اس واقعے کو اہل تسنّن کے ٣٠ معروف حوالوں سے نقل کیا ہے مثلاً فرائد السمطین، تفسیر الکشف و البیان، تفسیر سراج المنیر وغیرہ۔ (تفصیل کے لیے کتاب الغدیر جلد ١ ص ٢٣٩-٢۴٦ کی طرف رجوع کریں۔) اس لیے گرچہ حارث پر عذاب کے واقعے کو اس آیت کی شان نزول نہ بھی سمجھا جائے تب بھی تاویل تو کہا ہی جاسکتا ہے۔ یعنی اگر یہ فرض کرلیا جائے کہ سورہ معارج کی ابتدائ آیتیں مکہ میں نازل ہو چکی تھیں تب بھی ولایت علیؑ کی اہمیت ظاہر کرنے کے لیے اور ان آیات کی تاویل کو ظاہر کرنے کے لیے جبرئیل امین ان آیات کو رسول اسلام (ص) پر دوبارہ لیکر وارد ہوئے ہوں۔

دوسرا اعتراض جو مخالفین ولایت مرتضویؐ کرتے ہیں وہ یہ کہ قرآن کا فرمان ہے کہ ‘رسول (ص) جب تک آپؐ (ان مشرکین) کے درمیان موجود ہیں ان پر عذاب نازل نہیں ہوگا’ (انفال:٣٠)
پس یہ کیسے ممکن ہے کہ رسول اکرم (ص) کی موجودگی میں حارث بن نعمان فہری پر آسمان سے عذاب نازل ہوا ہو؟ کیونکہ یہ واقعہ صریحًا قرآن کی مخالفت کر رہا ہے اس لیے یہ ایک جھوٹ ہے اور صرف شیعوں کی ایجاد ہے اور کچھ نہیں۔
اس کا جواب یہ ہے کہ یہ بات صحیح ہے کہ رسول اسلام (ص) کا وجود عذاب الٰہی کے نازل ہونے میں رکاوٹ تھا۔ مگر اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ کسی حال میں بھی عذاب نہ آئے گا اس کا مطلب یہ ہے کہ عذاب پوری قوم پر فی الجملہ نہ آئے گا۔ ایسا اس لیے ہے کیونکہ خود رسول خدا (ص) نے بعض مشرکین کے لیے بددعا فرمائ جو کہ عذاب الٰہی کی شکل میں ان مجرموں پر نازل ہوا۔ احادیث و روایات میں ایسے واقعات بآسانی مل جائیں گے جہاں نبی رحمت کو مخالفین پر اظہار ناراضگی اور بددعا کرنی پڑی جس کی بدولت اس شخص پر عذاب الٰہی نازل ہوا ہے۔ چنانچہ تاریخ اسلام میں ابوزمعہ، مالک بن طلالہ اور حکم بن ابى‌العاص کا نام عذاب الہی میں مبتلا ہونے والوں کے عنوان سے ثبت ہیں (تفسیر نمونہ، ج۲۵، ص۱۲-۱۳۔)
اس طرح کے کئ واقعات اہل تسنّن حوالوں میں بھی موجود ہیں۔
• صحیح مسلم میں ہے کہ جب قریش رسول اکرم (ص) کی مخالفت پر کمر بستہ ہو گئے تو آپ نے بد دعا فرمائی،” خدایا ان پر زمانے یوسفؑ کی طرح غلّہ کا عذاب نازل فرما۔” پیغمبرؐ کی بد دعا سے ایسا قحط پڑا کہ تمام غلّہ ختم ہوگیا بھوک سے وہ حالت ہو گئ کہ قریش مردار کھانے پر مجبور ہوگئے۔ (صحیح مسلم ج ۵ ص ٣۴٢)

• روایت میں ملتا ہے کہ ابولہب کے بیٹے لہب نے رسول خدا (ص) کو برے الفاظ سے پکارا۔ آپؐ نے اس بدتمیز کے لیے بد دعا کی کہ ‘خدا اس پر کسی حیوان کو مسلط کر دے’ ۔نتیجتًا روایت میں ملتا ہے کہ شام کے ایک سفر پر جب ابو لہب کا بیٹا گیا تو دوران سفر رات میں ایک درندے نے اس پر حملہ کیا اور اسے چیر پھاڑ ڈالا۔
(مزید تفصیل کے لیے قارئین کتاب الغدیر اردو کی پہلی جلد کی طرف رجوع کر سکتے ہیں)
اس لیے مخالفین کا یہ اعتراض بھی بے معنی ہے۔
اس واقعہ کی صداقت کے لیے یہی کافی ہے کہ اسے شیعوں کے علاوہ مستند اہل تسنّن علماء نے بھی تفصیل سے نقل کیا ہے جن میں سے چند ایک کے نام یہ ہیں- ابو اسحاق ثعلبی، حاکم حسکانی (دعاہ الھداة الی اداء حق الموالات)، سبط ابن جوزی (تذکرة خواص الامہ)، ابوبکر قرطبی وغیرہ۔