امام حسن علیہ السلام کا معاویہ کے نام ایک تاریخی خط

21 رمضان سنہ چالیس ہجری کو امیر الموءمنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام کی شہادت واقع ہوئ۔ اس کے بعد تمام امت مسلمہ نے متحد ہوکر سبطِ اکبر، فرزندِ علیؑ مرتضیٰ حضرت امام حسن مجتبیٰ علیہ السلام کی بیعت کرلی۔ حجاز، عراق، یمن، ایران تمام علاقوں کے مسلمانوں نے خاندانِ رسالتؐ مآب کی امامت کو قبول کرلیا۔ مگر دشمن اسلام خاندان بنی امیہ کو یہ امن و امان کا ماحول پسند نہیں آیا۔ مسلمانوں کے دوسرے خلیفہ عمر بن خطاب نے ابوسفیان کے بیٹے معاویہ بن ابوسفیان کو شام کا گورنر بنایا پھر تیسرے دور خلافت میں بھی بدستور وہ شام کا گورنر بنا رہا۔ جب لوگوں نے مولا علی علیہ السلام کو اپنا چوتھا خلیفہ چن لیا اس موقع پر معاویہ نے حضرت علی علیہ السلام کی خلافت کے خلاف آواز اٹھائ، بغاوت کی اور عثمان کے قاتل کو بہانہ بناکر ان سے نبرد آزما ہوا، جس کے نتیجے میں جنگ صفین واقع ہوئ۔ پھر ان کی شہادت کے بعد اس نے اپنا مقصد آشکار کردیا اور مولا حسنؑ کے خلاف بھی علم بغاوت بلند کردیا۔

وہ یہ چاہ رہا تھا کہ مسلمانوں کی حکومت کو کسی طرح سے ہتھیا لے۔ اس نے اہلبیتؑ پر یہ الزام لگایا کہ اہلبیتؑ ہمیشہ مسلمانوں کے خلفاء کے خلاف رہے ہیں۔ اس نے امام حسن علیہ السلام کو خط لکھ کر اس الزام کو دہرایا اور اپنی خلافت کی دعوےداری بھی پیش کردی۔ جس کا جواب امام حسن علیہ السلام نے یوں تحریر فرمایا:
“ہم (اہلبیتؑ) کو اس بات سے بےحد افسوس ہوا کہ کس طرح سے ہمارے حق کو ان لوگوں نے غصب کر لیا جو لوگ مسلمانوں میں صاحبِ فضل اور باکمال مانے جاتے تھے، جن کا مسلمانوں میں ایک مقام تھا اور جو اسلام میں سبقت رکھتے تھے۔ مگر اس سے زیادہ عجیب اور حیرت آنگیز بات یہ ہے کہ اے معاویہ! تم اس بات کا دعویٰ کر رہے ہو جس کے تم بالکل اہل نہیں ہو۔ تمھارے پاس نہ کبھی دین کی کوئ فضیلت رہی ہے نہ کبھی تمھارے اندر دین کا کوئ اثر دیکھا گیا جس کی کہ تعریف کی جا سکے۔ بلکہ اس کے برعکس تم قریش میں رسول الله صلی الله علیہ وآلہ کے سب سے بڑے دشمن کے بیٹے ہو، جو اسلام کے خلاف لشکر کشی کرتا رہا ہے….اس لیے اپنی باطل فکر سے باہر نکلو اور ہٹ دھرمی سے باز آکر میری بیعت کرلو جس طرح تمام لوگوں نے میری بیعت کرلی ہے۔ تم اس بات سے بخوبی واقف ہو کہ خدا کے نزدیک دیگر آفراد سے اور تم سے بھی کہیں زیادہ اس خلافت کا میں حقدار ہوں۔ (اس لیے) خدا سے ڈرو اور مسلمانوں کا خون بہانے سے بچو۔ یاد رکھو کہ مسلمانوں کا ناحق خون بہانے کا جرم لے کر خدا سے ملاقات کرنا تمھارے لیے بہت نقصان دہ ثابت ہوگا۔”
(مقاتل ابن آثم جلد 4 صفحہ 151، شرح بھج البلاغہ جلد 16 صفحہ 23)۔

اس جواب میں امام حسن علیہ السلام نے یہ واضح فرمایا ہے کہ خلافتِ رسول الله صلی الله علیہ وآلہ مِنجانب الله اہلبیتؑ کا حق ہے۔ امت نے اہلبیتِ پیغمبرؐ کے ساتھ بے وفائ کی اور سب نے مل کر ان کو اس مقام سے محروم کردیا۔آپ نے اس بات پر اظہارِ افسوس اور اظہار تعجّب کیا ہے کہ کس طرح ان لوگوں نے مسلمانوں میں اپنے مقام کا غلط فائدہ اٹھا کر اہلبیتؑ کے حق کو غصب کرلیا اور خلافت کو آپس میں تقسیم کرلیا۔ (آپ کی مراد پہلے تین خلفاء ہیں۔)

ان تینوں میں یہ بات تو ہےکہ ان سب نے مکہ میں ہی اسلام قبول کرلیا تھا۔ان کا شمار مسلمانوں میں سابقین میں ہوتا رہا۔ یہ لوگ اسلام کی چھوٹی بڑی فتوحات میں موجود رہے۔ مگراس بات کا معاویہ اور اس کے خاندان سے کیا لینا دینا۔ اس کا خاندان تو شروع سے ہی دشمن اسلام اور مخالف اسلام رہا ہے۔اس نے روز اول سے پیغمبر اسلام کی مخالفت کی ہے۔اور آج اسی رسول اسلام کی خلافت پر قابض ہونا چاہتاہے۔

آپؑ نے پھر خود معاویہ کو اس کی بے دینی یاد دلائ ہے – نہ اس میں کوئ کمال تھا نہ اس نے اسلام کے لیے کوئ قربانی دی تھی کہ اس کو خلافت کے لیے امیدوار سمجھا جائے۔ بلکہ اس کے برعکس اس نے اور اس کے خاندان نے بالخصوص اس کے باپ ابوسفیان نے ہمیشہ اسلام اور اس کے رسولؐ سے دشمنی رکھی۔

آخر میں آپؑ نے معاویہ کو اپنی بیعت کرنے کی نصیحت فرمائ اور خدا کا خوف دلاتے ہوئے اپنے ذاتی مفاد کے لیے مسلمانوں کا ناحق خون بہانے سے پرہیز کرنے کی تلقین کی۔

مسلمانوں کی پہلی خلافت نے اسلام کا سب سے بڑا نقصان یہ کیا کہ معاویہ جیسے نااہل اور بے دین افراد کے لیے خلافت حاصل کرنے کا دروازہ کھول دیا۔ تاریخ گواہ ہے کہ امام حسن علیہ السلام کے بعد مسلمانوں میں جتنے بھی عام خلفاء ہوئے وہ سب بے دین اور بدکار تھے۔

اللہم العن اوّل ظالم ظلم حق محمد وآل محمد وآخر تابع لہ علیٰ ذالک۔