وَ اِذۡ قُلۡنَا لَکَ اِنَّ رَبَّکَ اَحَاطَ بِالنَّاسِ ؕ وَ مَا جَعَلۡنَا الرُّءۡیَا الَّتِیۡۤ اَرَیۡنٰکَ اِلَّا فِتۡنَۃً لِّلنَّاسِ وَ الشَّجَرَۃَ الۡمَلۡعُوۡنَۃَ فِی الۡقُرۡاٰنِ ؕ وَ نُخَوِّفُہُمۡ ۙ فَمَا یَزِیۡدُہُمۡ اِلَّا طُغۡیَانًا کَبِیۡرًا۔ (الإسراء :60)
ترجمہ: اور (اے رسول وہ وقت یاد کیجئے) جب ہم نے آپ سے کہا تھا کہ آپ کے رب نے لوگوں کو احاطہ کیا ہوا ہے اور جو خواب ہم نے آپ کو دکھلایا ہے اور وہ درخت جسے قرآن میں ملعونہ ٹھہرایا گیا ہے اسے ہم نے صرف لوگوں کی آزمائش قرار دیا اور ہم انھیں ڈراتے ہیں مگر (افسوس) یہ ان کی بڑی سرکشی میں اضافے کا سبب بنتا جاتا ہے۔’
اس آیت میں خصوصی طور پر ایک ‘شجرہ ملعونہ’ یعنی وہ درخت جو قرآن کی نظر میں ملعون ہے کا ذکر ہو رہا ہے۔ اس درخت کے بارے میں تین باتوں کا ذکر ہے۔
• پہلے یہ کہ یہ وہ درخت ہے جسے رسولؐ اللہ کو خواب میں بطورِ پیشن گوئ دکھلایا گیا ہے۔
• دوسرے یہ کہ اس درخت کے ذریعہ سے لوگوں کا امتحان لیا جائے گا اور
• تیسرے یہ کہ اس درخت کی خباثت سے لوگوں کو ڈرایا گیا ہے مگر بد بختی سے اس کا اثر یہ ہوگا کہ ان کی طغیانی میں اضافہ ہی ہوگا۔
اس آیت کی تفسیر میں بیان کی گئ احادیث میں متعدد طریقہ سے وارد ہوا ہے کہ رسول اللہؐ نے خواب میں دیکھا کہ بندر آپؐ کے منبر پر اچھل کود کر رہے ہیں، جس کے بعد آپؐ بہت رنجیدہ ہوئے اور آپؐ کو بہت کم ہنستے ہوئے دیکھا گیا۔ جب آنحضرتؐ نے اس کی تفصیل و تاویل کے بارے میں جناب جبرئیل سے سوال کیا تو انھوں نے بتایا کہ آپؐ کے بعد آپؐ کی امت پر بنی امیہ کے بادشاہ حکومت کریں گے جو دین کو مزاق بنا دیں گے اور حکومت کو آپس میں بانٹ لیں گے۔ چنانچہ سہل بن سعد، یعلی بن مرہ، سعید بن المسیب اور عائشہ کی روایت ہے کہ ‘شجرہ ملعونہ’ سے مراد بنی امیہ ہیں۔ ان راویان کی روایات کو اس آیت کے ضمن میں اہل تسنن کی ان تفاسیر میں دیکھا جاسکتا ہے- علامہ جلال الدین سیوطی کی در منثور، فخر رازی کی تفسیر کبیر اور تفسیر قرطبی۔
مندر جہ بالا روایت کے علاوہ بھی اہل تسنن کی تفاسیر میں اس بات کا ذکر ہے کہ قرآن میں جس “شجرہ ملعونہ” کا ذکر ہوا ہے وہ خاندان بنی امیہ ہے:
• تفسیر روح المعانی ج ١۵ ص ١٠٧
• تفسیر کبیر ج ۵ ص ١١۴
• تفسیر بیضاوی ج ٣ ص ٢٠٦
• تفسیر ابن کثیر ج ٣ ص ٢۴٦
مگر اہل تسنن میں جو بنی امیہ کے شیدائ ہیں ان روایات کو قبول نہیں کرتے۔ بلکہ وہ یہ الزام لگاتے ہیں کہ اس طرح کی روایات کو شیعوں نے جعل کیا ہے۔ جبکہ حقیقت تو یہ ہے کہ ان کے بزرگ علماء نے اس بات کو نقل کیا ہے کہ قرآن کے “شجرہ ملعونہ” بنی امیہ ہیں۔
اسی آیت کے ذیل میں اہل تسنن کی تفاسیر میں یہ روایت بھی ملتی ہے:
ابن عباس فرماتے ہیں کہ قرآن مجید میں ‘شجرة ملعونہ’ سے مراد زقوم کا درخت ہے۔ یہ درخت جہنم کی تہہ میں اگا ہوگا اور یہ دوزخیوں کی خوراک ہوگا۔ یہی درخت تھا جسے حضورؐ کو معراج میں دکھایا گیا تھا اور اسے کفار کے لیے آزمائش بنایا گیا ہے، کیونکہ وہ کہتے ہیں کہ آگ درخت کو جلا دیتی ہے تو پھر یہ درخت کیسے آگ سے بچ پاے گا۔ (تفسیر طبری جلد 15)
تبصرہ:
اس بات سے کوئ انکار نہیں کرتا کہ قرآن میں دوزخیوں کی خوراک کا ذکر ہے اور وہ درخت زقوم کا درخت ہے۔
اس درخت کا ذکر قرآن کی ان سورتوں میں موجود ہے۔ سورۃ الصافات:62،سورۃ الدخان:43 اور سورۃ الواقعہ:52۔ مگر اس آیت میں ‘شجرہ ملعونہ’ کے اطلاق اس درخت پر نہیں ہو سکتا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ قرآن بتا رہا ہے کہ ‘شجرہ ملعونہ’ لوگوں کے لیے ایک امتحان ہے جس کے شر سے ان کو ڈرایا گیا ہے۔ جہنم کے درخت سے خوف تو دلایا جاسکتا ہے مگر اس کے ذریعے سے لوگوں کا امتحان کس طرح ہوسکتا ہے جبکہ جہنم تو خود سزا کا مقام ہے امتحان گاہ تو یہ دنیا ہے۔ اس لیے اس ‘شجرہ ملعونہ’ کا سبب امتحان یا ‘فتنہ’ ہونا یہ بتاتا ہے کہ یہ درخت جہنم میں نہیں بلکہ اسی دنیا میں ہے۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ قرآن کی یہ آیت بتا رہی ہے کہ اس امتحان سے لوگوں کو ڈرایا گیا، مگر ان کی طغیانی میں اور اضافہ ہی ہوا ہے۔ اگر یہ درخت جہنم میں موجود ہے تو یہ کافروں، مشرکوں اور منافقوں کی غذا ہے بھلا جہنم میں اس درخت سے ان کی طغیانی میں کیوں کر اضافہ ہوگا؟
شیعوں میں اس بات پر کوئ اختلاف نہیں ہے کہ قرآن میں ‘شجرہ ملعونہ’ بنی امیہ کو کہا گیا ہے۔ اس کی ایک واضح مثال یہ روایت ہے جو علامہ سید ہاشم بحرانی نے سورہ اسراء کی اس آیت کے ذیل میں رقم کیا ہے:
علامہ طبرسی نے احتجاج میں روایت کی ہے کہ معاویہ کی مجلس میں مروان ابن حکم نے امام حسن(علیہ السلام) سے کہا: ’’وَ اللَّهِ لَأَسُبَّنَّكَ وَ أَبَاكَ وَ أَهْلَ بَيْتِكَ سَبّاً تَتَغَنَّى بِهِ الْإِمَاءُ وَ الْعَبِيد؛” خدا کی قسم تمھیں اور تمھارے باپ اور تمھارے اہل بیت کو اس طرح گالیاں دوں گا کہ غلام اور کنیز اپنے ترانوں میں اسے استعمال کریں گے‘‘،
امام حسن(علیه السلام) نے اس سے فرمایا: میں تجھے اور تیرے باپ دادا کو گالی نہیں دوں گا، لیکن خداوند عالم نے تجھ پر اور تیرے باپ دادا اور تیرے خاندان اور تیری اولاد اور جو کوئی تیرے باپ کی اولاد قیامت کے دن تک پیدا ہوگی رسول خدا(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کی زبانی لعنت کی ہے، خدا کی قسم اے مروان اس بات کا انکار، نہ تو کرسکتا ہے اور نہ اس مجلس میں جو لوگ بیٹھے ہوئے ہیں وہ لوگ کرسکتے ہیں کہ یہ لعنت تجھ پر اور تیرے باپ دادا پر رسول خدا(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کی زبان سے جاری کی گئی ہے، اور خدا اور اس کے رسول صادق ہیں، اللہ تعالی قرآن میں فرمارہا ہے: «وَ الشَّجَرَةَ الْمَلْعُونَةَ فِی الْقُرآن وَ نُخَوِّفُهُمْ فَمَا یَزِیدُهُمْ إلاَّ طُغْیَانا کَبِیرا[ سورۂ اسراء:٦٠]» اور اے مروان قرآن میں تجھے اور تیری اولاد کو ‘شجرہ ملعونہ’ کہا گیا ہے اور یہ پیغام رسول خدا(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کو جبرئیل کی زبانی بھیجا گیا ہے۔
(البرهان في تفسير القرآن، مؤسسه بعثه – قم، ج۱، ص۲۷۹، ۱۲۷۴ش)