حدیث غدیر سے امیرالمومنین علیہ السلام کا احتجاج –

وَجَعَلْنَاهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنَا وَأَوْحَيْنَا إِلَيْهِمْ فِعْلَ الْخَيْرَاتِ وَإِقَامَ الصَّلَاةِ وَإِيتَاءَ الزَّكَاةِ وَكَانُوا لَنَا عَابِدِينَ۔(الانبیاء 73)

اور ہم نے ان کو امت پر امام بنایا ہے جو ہمارے امر سے لوگوں کی ہدایت کرتے ہیں۔ ان (ائمہ) کو ہم نیک کام کی وحی کرتے ہیں۔ یہ لوگ نماز قائم کرتے ہیں اور زکات ادا کرتے ہیں اور یہی ہمارے (سچّے) عبادت گزار ہیں۔

حدیث غدیر ایک ایسی معتبر اور متواتر روایت ہے جس کا انکار ممکن نہیں۔ اس روایت کو بہت سے صحابہ ، تابعین اور ائمہ احادیث نے نقل کیا ہے۔ بلکہ کچھ علماء نے صرف حدیث غدیر کے اسناد پر مکمل کتابیں تالیف کی ہیں۔ پھر بھی جو لوگ حضرت علیؑ کو رسول اللہ (ص) کا بلافصل جانشین نہیں مانتے وہ اس حدیث کے متعلق نامناسب اعتراضات کرتے رہتے ہیں۔ ان میں سے ایک اعتراض یہ ہے کہ ‘اگر حدیث غدیر مولا علیؑ کی بلافصل خلافت پر دلیل ہے تو کیوں خود حضرت علیؑ نے اس حدیث کے ذریعہ اپنے مخالفین پر احتجاج نہیں کیا؟ حضرت علیؑ نے امت کو غدیر کے اعلان کی یاد کیوں نہ دلائی؟ اگر حضرت علیؑ خود کو خلافت کا دعوے دار جانتے تھے تو آپؑ نے لوگوں کو اپنی امامت کی طرف دعوت کیوں نہیں دی؟

اس اعتراض کا جواب کئ طریقوں سے دیا جاسکتا ہے، ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ جب امت نے خود مرسل اعظم ( ص) کے کیے ہوئے اعلان کو فراموش کردیا تو وہ ان کے وصی کی بات کو کس طرح قبول کر لیتے؟ خاتم الانبیاء (ص) نے سوا لاکھ صحابیوں کے درمیان جو خطبہ غدیر میں ارشاد فرمایا تھا اس میں واضح طور پر حضرت علیؑ کے ‘مولا’ اور ‘ولی’ ہونے کا اعلان ہے۔ جب امت نے اس واضح قول کو فراموش کردیا تو کسی اور کی یاد دہانی کا کیا اثر ہوتا؟ اتنا ہی نہیں دخترِ رسولؐ دربارِ خلافت میں دعوہ کرتی رہیں کہ باغِ فدک میرے بابا رسول اللہ (ص) نے مجھے ‘ہبہ’ کر دیا ہے۔ کیا امت نے دختر رسولؐ کی دعوہ داری کو قبول کیا؟ جبکہ رسولؐ کے قرابت داروں سے ‘مودّت’ کا قرآن اور رسول اللہ (ص) کا واضح فرمان موجود ہے مگر اس کے باوجود بھی پوری امت نے سبطِ اصغر امام حسینؑ کے مقابلہ پر یزید ملعون کا ساتھ دیا۔ کیا یہ رسول اللہ (ص) کی مخالفت نہیں ہے؟ امام حسنؑ اور امام حسینؑ نے تو واضح طور پر امت کو اپنی امامت کی طرف بلایا تھا۔ کیا امت نے ان کی دعوت قبول کی؟؟ سچّائی تو یہ ہے کہ یہ تمام اعتراضات صرف اپنے بزرگوں کی غلطیوں کو چھپانے کی ناکام کوشش ہے اور کچھ نہیں۔

بہرحال یہ بھی ایک تاریخی حقیقت ہے کہ مولائے کائنات (ع) نے متعدد مواقع پر امت کو حدیث غدیر یاد دلائی ہے۔ چند مواقع ایسے بھی ہیں جن میں امیرالمومنینؑ نے (حلفًا) قسم دلا کر اصحاب رسول سے حدیث غدیر سے اپنی خلافت کی گواہی طلب کی ہے۔ ان میں سے بعض واقعات کو علامہ امینی نے ‘امیرالمومین کے مناشدہ’ کے عنوان سے اپنی تالیف ‘الغدیر’ کی پہلی جلد کے ایک باب میں نقل کیا ہے۔ مختلف کتابوں میں موجود ان تمام واقعات میں سے کچھ کا یہاں پر ذکر کیا جا رہا ہے:

• جب خلیفہ دوم کا آخری وقت قریب آیا تو انھوں نے اگلے خلیفہ کے انتخاب کے لیے ٦ ممبران والی ایک کمیٹی تشکیل دی جس کو تاریخ میں ‘شوری’ کہا گیا ہے. اس کمیٹی میں حضرت علیؑ کو بھی شامل کیا گیا تھا۔ اراکین شوری ہی میں سے کسی ایک کو خلیفہ بننا تھا۔ ہر فرد اپنی دعوےداری پیش کر رہا تھا۔ اپنی باری آنے پر حضرت علیؑ نے تمام اراکینِ شوری کو قسم دلاکر پوچھا: “کیا میرے علاوہ کسی اور کے لئے رسول اللہ (ص) نے (میدان غدیر میں ) یہ فرمایا تھا کہ ‘میں جس کا مولا ہوں یہ علیؑ بھی اس کے مولا ہیں’۔ ؟”
اس پر سب نے کہا “نہیں! یہ حدیث ،رسول اللہ (ص) نے آپؑ ہی کے لیے ارشاد فرمائی تھی۔”
اہل تسنّن حوالے:
– مناقب خوازمی ص ٢١٧
– فرائد السمطین ج ١ ص ٣١٩
– الدر النظیم ج ١ ص ١١٦
– الصاعق المحرقہ ص ١۵٦

• شوری کمیٹی میں عثمان کے خلیفہ منتخب ہونے کے بعد بھی حضرت علیؑ نے اپنی افضلیت کو حدیث غدیر سے ثابت کیا ہے۔ منقول ہے کہ تیسرے دورِ خلافت میں ایک مرتبہ مسجد نبویؐ میں موجود انصار و مہاجرین کے افراد اپنی اپنی برتری اور فضیلت گنوا رہے تھے۔ اس اثنا میں کسی نے حضرت علیؑ سے مخاطب ہوکر درخواست کی کہ “آپ مباحثے میں حصّہ نہیں لے رہے ہیں؟…”۔ اس وقت امیرالمومنینؑ نے اپنی بعض فضیلتوں کو بیان فرمایا۔ اتنا ہی نہیں بلکہ حاضرین کو اپنے بلافصل خلیفہ ہونے کو ثابت کرنے کے لئےآنحضرتؐ کے دیگر اقوال کے ساتھ ساتھ حدیث غدیر کا بھی لوگوں کے سامنے ذکر کیا۔
(احتجاج طبرسی ج 1 ص 213-214، کتاب سلیم ابن قیس ص 195، کمال الدین وتمام النعمہ ص 276، اہل تسنّن کتاب :فرائد السمطین ج 1 ص 315)

• حضرت علی علیہ السلام نے جنگ جمل کے وقت طلحہ و زبیر سے احتجاج کرتے ہوئے حدیث غدیر کا ذکر کیا تھا۔ اور انھیں یاد دلایا تھا کہ میں ہی وہ ہوں جس کا ہاتھ پکڑ کر بلند کرتے ہوئے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم نے کہا تھا “جس کا میں مولیٰ ہوں علیؑ بھی اس کے مولیٰ ہیں”
اس روایت کو اہل تسنّن کے معتبر عالم حاکم نیشاپوری نے بھی اپنی کتاب میں نقل کیا ہے۔(المستدرک علی الصحیحین – حاکم نیشاپوری ج 3 ص 419)

• جنگ صفین کے دوران ایک موقع پر امیر المومنینؑ نے حدیث غدیر کے ذریعہ اپنے حقِ خلافت کو ثابت کیا تھا۔ معاویہ ، اس کے ساتھی اور جو لوگ حضرت علیؑ کو چھوڑ کر معاویہ سے مل گئے تھے ان سب پر اتمام حجت کے لیے مولائے کائنات (ع) نے حدیث غدیر کے علاوہ خطبہ غدیر کے دیگر جملوں کو بھی دہرایا تھا۔(بحارالا انوار ج 33 ص 41)

• معاویہ کے ایک خط کے جواب میں بھی حضرت امیر المومنین علیہ السلام نے حدیث غدیر کے ذریعہ اپنے حق کو ثابت کیا تھا۔
آپ نے اس خط کے ذریعہ معاویہ کو یاد دلایا تھا کہ رسول اللہ (ص) کی حقیقی خلافت کا حق صرف ان کو حاصل ہے ۔(الاحتجاج طبرس ج 1 ص 181)

• زمانہ خلافت ظاہری میں امیر المومنینؑ نے مسجد کوفہ کے صحن میں احتجاج کیا اور حدیث غدیر کو پیش کیا جس کا تذکرہ اور پورا کا پورا خطبہ سنی عالم ابن کثیر نے اپنی کتاب ‘البدایہ والنھایہ’ میں نقل کیا ہے۔(البدایہ والنھایہ ابن کثیر جلد 5 صفحہ 211)

• اس سلسلے کا سب سے مشہور واقعہ ‘یوم رحبہ’ کے نام سے ایک واقعہ ہے جس کو علامہ امینی نے ‘الغدیر’ کی پہلی جلد میں تفصیل سے نقل کیا ہے۔ زمانہ خلافت ظاہری میں حضرت علیؑ نے شہر کوفہ کے ایک میدان میں ، جو مقام “رحبہ” کے نام سے جانا جاتا ہے، لوگوں کو جمع کیا جن میں رسول اللہ (ص) کے بزرگ اصحاب بھی موجود تھے۔ امیر المومنین نے اس مجمع میں موجود اصحابِ رسولؐ کو قسم دی کہ کیا تم میں سے کوئی ہے جس نے غدیر کے موقع پر رسول خدا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یہ سنا ہو “جس جس کا میں مولا ہوں علیؑ بھی اس کے مولا ہیں۔” اس وقت بہت سارے اصحاب رسولؐ نے کھڑے ہو کر گواہی دی تھی کہ ‘ہم نے سنا تھا’۔ان افراد کی تعداد مسند احمد کی روایتوں میں چھ اور تیرہ بتائی گئی ہے جبکہ دوسری کتابوں میں یہ تعداد تیس اور اس سے زیادہ درج ہے۔ (مسند احمد بن حنبل ج 1 ص 88 ،المصنف ابن ابی شیبہ ج 12 ص 67-68)

اس طرح کی اور بھی روایتیں اہل تسنّن کی کتابوں میں موجود ہیں جن کا یہاں پر ذکر کیا جاسکتا ہے مگر اتنی مثالیں متلاشئ حق کے لیے کافی ہیں۔ آخر کلام یہ کہ الله نے مسلمانوں پر یہ فرض قرار دیا ہے کہ وہ اپنی ہدایت کے لیے اس سے دعا کریں (اھدنا الصراط المستقیم)۔ یعنی صراط مستقیم کی طرف ہدایت طلب کرنا ہر مسلمان پر فرض ہے. اگر حضرت علیؑ امت کو اپنی بلافصل خلافت کی طرف دعوت نہ بھی دیتے تب بھی ان پر اعتراض نہیں کیا جاسکتا۔ یہ امت کی ذمہ داری ہے کہ آخرت میں کامیابی حاصل کرنے کے لیے ‘صراط مستقیم’ تلاش کرے۔ یعنی اُس امام کو تلاش کرے جس کے بارے میں قرآن اعلان کر رہا ہے “ائمة یھدیون بامرنا” یہ وہ ائمہ ہیں جو ہمارے امر سے لوگوں کی ہدایت کرتے ہیں اور وہ سوائے مولائے کائنات امیر المومنین علی بن ابی طالب ع کے کوئی اور نہیں ہے۔