سیّدہ زہرا سلام الله شیخین سے آخری وقت تک ناراض رہیں

اسلام کو اگر کسی چیز سے سب سے زیادہ نقصان ہوا ہے تو وہ شخصیت پرستی کی بلا ہے۔ یہ ماجرا اتنا سنگین رہا ہے کہ خود رسولؐ الله کے اکثر اصحاب بھی اس امتحان میں ناکمیاب ہوئے ہیں۔ رسول الله صلی الله علیہ وآلہ وسلم نے اپنی ساری زندگی امّت کی ہدایت اور رہنمائ فرمائ ہے۔ کیونکہ آپؐ آنے والے وقت کی بھی خبر رکھتے تھے اس لیے آپؐ نے امّت کو ہر طرح کی گمراہی سے بچنے کے راستہے بتائے ہیں۔ انہیں باتوں میں ایک اہم بات یہ ہے کہ اگر کبھی شخصیتوں میں اختلاف پانا تو میرے اہلبیتؑ کا ساتھ دینا یہ تمہیں گمرہی سے بچا لیں گے ورنہ ہلاک ہوجاءو گے۔کبھی آپؐ نے اپنے تمام اہلبیتؐ کو قرآن کا ساتھی (ثقلین) ہمپلہ بتایا تو کبھی کشتئ نوحؑ کی مثال دیکر سمجھایا کہ جو اس میں سوار ہوگیا بچ گیا اور جس نے اس کو فراموش کردیا ہلاک ہوگیا۔ کبھی اپنے فردا فردا نام لیکر اہنے اہل بیتؐ کی رہنمائ کا ذکر کیا ہے۔ اسی طرح کی ایک مستند اور معتبر حدیث مسلمانوں کی کتابوں میں موجود ہے جس پر فریقین کا عقیدہ ہے کہ آنحضرتؐ نے فرمایا:” فاطمہؑ میرے جگر کا ٹکڑا ہے جس نے فاطمہؐ کو ناراض کیا اس نے مجھے ناراض کیا”۔ اس حدیث میں رسول الله صلی الله علیہ وآلہ وسلم نے اپنی بیٹی کی ناراضگی کو نہ صرف یہ کہ اپنی ناراضگی بتایا ہے بلکہ ان کی ناراضگی کو ہدایت اور گمراہی معیار بھی قرار دیا ہے۔

یہی سبب ہے کہ صدیقہ طاہرہ حضرت زہرا سلام الله علیہا کا شیخین سے راضی نہ ہونا یہ ان دونوں کی خلافت کو جڑ سے ہی غیر شرعی اور ناجائز قرار دے دیتا ہے، کیونکہ یہ ناراضگی ثابت کرتی ہے کہ رسول خدا (ص) کی بیٹی، سیدہ نساء عالمین اور جنت کی عورتوں کی سردار، ابوبکر اور عمر کی خلافت کی مخالف تھیں اور ان دونوں سے اپنے آخری وقت تک ناراض بھی تھیں۔

اسی وجہ سے اہل سنت کے علماء نے اپنے خلفاء ابوبکر اور عمر کی خلافت کو بچانے کے لیے جعلی اور جھوٹی روایت کو گھڑا ہے تا کہ ثابت کریں کہ شیخین نے رسولؐ خدا کی بیٹی کو ان کی زندگی کے آخری ایّام میں ناراض کرنے کے بعد، جب ان کے گھر ان کی عیادت کرنے کے لیے گئے تھے تو ان کو راضی کر لیا تھا اور بی بی نے بھی ان دونوں کو معاف کر دیا تھا۔

حضرت زہرا سلام الله علیہا کا ابوبکر اور عمر پر غضبناک ہونا، یہ سب کے لیے اس طرح روز روشن کی طرح واضح ہے کہ کسی کے لیے بھی قابل انکار نہیں ہے۔ صحیح بخاری کہ جو اہل سنت کی قرآن کریم کے بعد صحیح ترین کتاب ہے، اس میں موجود ہے کہ حضرت زہراء علیہا السلام ابوبکر پر اپنی سخت ناراضگی کا اظہار کیا ہے اور ان کی یہ ناراضگی مرتے دم تک جاری رہی۔
بخاری نے خمس کے ابواب میں لکھا ہے کہ:
فَغَضِبَتْ فَاطِمَةُ بِنْتُ رسول اللَّهِ صلي الله عليه و سلم فَهَجَرَتْ أَبَا بَكْرٍ فلم تَزَلْ مُهَاجِرَتَهُ حتي تُوُفِّيَتْ.
رسول خدا کی بیٹی فاطمہؐ ابوبکر سے ناراض ہو گئیں اور ان سے بات کرنا تک چھوڑ دیا تھا اور ان سے مرتے دم تک بات نہیں کی تھی۔
صحيح البخاري، ج 3، ص 1126، ح2926، باب فَرْضِ الْخُمُسِ،
كتاب المغازي کے باب غزوة خيبر کی حديث نمبر 3998 میں بخاری نے نقل کیا ہے کہ:
فَوَجَدَتْ فَاطِمَةُ علي أبي بَكْرٍ في ذلك فَهَجَرَتْهُ فلم تُكَلِّمْهُ حتي تُوُفِّيَتْ،
فاطمہؐ ابوبکر سے ناراض ہو گئیں اور مرتے دم تک ان سے بات نہیں کی تھی۔
صحيح البخاري، ج 4، ص 1549، ح3998، كتاب المغازي، باب غزوة خيبر
بخاری نے كتاب الفرائض کے بَاب قَوْلِ النبي (ص) لا نُورَثُ ما تَرَكْنَا صَدَقَةٌ کی حديث نمبر 6346 میں لکھا ہے کہ:
فَهَجَرَتْهُ فَاطِمَةُ فلم تُكَلِّمْهُ حتي مَاتَتْ.
پس فاطمہؐ نے اپنا تعلق ابوبکر سے ختم کر دیا اور مرتے دم تک ان سے بات نہیں کی۔
البخاري الجعفي، محمد بن إسماعيل أبو عبد الله (متوفي256هـ)، صحيح البخاري، ج 6، ص 2474، ح6346، كتاب الفرائض، بَاب قَوْلِ النبي (ص) لا نُورَثُ ما تَرَكْنَا صَدَقَةٌ

ابن قتیبہ کی روایت میں آیا ہے کہ جب ابوبکر اور عمر عیادت کے لیے گھر آئے تو حضرت زہرا سلام الله علیہا نے ان کو گھر میں آنے کی اجازت نہ دی، تو انھوں نے ناچار ہو کر علی علیہ السلام سے بات کی۔ علیؑ نے حضرت زہراءؐ سے بات کی تو بی بی نے امیر المؤمنین (ع) کو جواب دیا کہ:
البيت بيتك.

یہ گھر آپ کا گھر ہے،
آپ کو اختیار ہے کہ جس کو مرضی ہے گھر لائیں۔ امیر المؤمنین نے اتمام حجت کرنے کے لیے ان دونوں کو گھر میں آنے کی اجازت دے دی تا کہ بعد میں وہ نہ کہیں کہ ہم تو رسولؐ خدا کی بیٹی کو راضی کرنے کے لیے گئے تھے، لیکن علیؑ نے ہی ہمیں اپنے گھر میں داخل ہونے کی اجازت نہیں دی تھی،
جب ان دونوں نے معذرت کی تو حضرت زہرا سلام الله علیہا نے قبول نہیں کیا، بلکہ ان سے یہ اعتراف لیا کہ:
نشدتكما الله ألم تسمعا رسول الله يقول: رضا فاطمة من رضاي و سخط فاطمة من سخطي فمن أحب فاطمة ابنتي فقد أحبني و من أ رضي فاطمة فقد أرضاني و من أسخط فاطمة فقد أسخطني،

میں تم دونوں کو خدا کی قسم دیتی ہوں کہ کیا تم دونوں نے رسول خدا سے نہیں سنا کہ انھوں نے فرمایا کہ: فاطمہؑ کا راضی ہونا، میرا راضی ہونا ہے اور اسکا ناراض ہونا، میرا ناراض ہونا ہے۔ جو بھی میری بیٹی فاطمہؐ سے محبت کرے اور اسکا احترام کرے، تو اس نے مجھ سے محبت کی ہے اور میرا احترام کیا ہے اور جو فاطمہؐ کو راضی کرے تو اس نے مجھے راضی کیا ہے اور جو فاطمہؑ کو ناراض کرے تو اس نے مجھے ناراض کیا ہے؟؟؟
ابوبکر اور عمر دونوں نے اعتراف کیا کہ: ہاں ہم نے اس بات کو رسولؐ خدا سے سنا ہے،
نعم سمعناه من رسول الله صلي الله عليه و سلم.

یہ اعتراف لے کر صدیقہ طاہرہ نے فرمایا کہ:
فإني أشهد الله و ملائكته أنكما أسخطتماني و ما أرضيتماني و لئن لقيت النبي لأشكونكما إليه.
پس میں خداوند اور اسکے فرشتوں کو گواہ بنا کر کہتی ہوں کہ تم دونوں نے مجھے اذیت دی اور ناراض کیا ہے اور میں اپنے والد رسول خدا سے ملاقات میں تم دونوں کی شکایت کروں گی۔
اور مزید فرمایا کہ:
و الله لأدعون الله عليك في كل صلاة أصليها.
خدا کی قسم میں ہر نماز میں تم دونوں پر نفرین کرتی ہوں۔
أبو محمد عبد الله بن مسلم ابن قتيبة،الإمامة و السياسة، ج 1، ص 17، باب كيف كانت بيعة علي رضي الله عنه
اس کے باوجود کیسے قبول کیا جا سکتا ہے کہ صدیقہ شہیدہ ان دونوں سے راضی ہو گئیں تھیں جبکہ بخاری میں اس کا باقاعدہ ذکر ہے کہ آپؐ نے مرتے دم تک ان دونوں سے بات نہیں کی۔ اتنا ہی نہیں اس روایت کو خود ابوبکر کی بیٹی اور مسلمانوں کی ام المومنین عائشہ نے نقل کیا ہے جس سے اس کی صحت پر با لکل شک نہیں کیا جا سکتا۔

دوسرے یہ کہ اگر حضرت زہرا سلام الله علیہا ان دونوں سے راضی ہو گئیں تھیں، تو پھر انھوں نے کیوں حضرت علیؑ کو وصیت کی کہ مجھے رات کی تاریکی میں دفن کرنا اور فرمایا کہ جہنوں نے مجھ پر ظلم کیا ہے، ان کو میرے جنازے میں نہ آنے دینا اور مجھ پر نماز بھی نہ پڑھنے دینا ؟؟؟

یہ روایت بھی صحیح بخاری میں نقل ہے۔ محمد بن اسماعيل بخاري نے لکھا ہے کہ:
وَ عَاشَتْ بَعْدَ النبي صلي الله عليه و سلم سِتَّةَ أَشْهُرٍ فلما تُوُفِّيَتْ دَفَنَهَا زَوْجُهَا عَلِيٌّ لَيْلًا و لم يُؤْذِنْ بها أَبَا بَكْرٍ وَ صَلَّي عليها،
رسولؐ خدا کے بعد فاطمہؑ چھے ماہ تک زندہ رہیں اور جب وہ دنیا سے چلی گئیں تو انکے شوہر علیؑ نے انکو رات کو دفن کیا اور ابوبکر کو اس واقعے کی بالکل خبر نہ دی اور خود ہی ان پر نماز پڑھی۔
صحيح البخاري، ج 4، ص 1549، ح3998، كتاب المغازي، باب غزوة خيبر
اسی طرح ابن قتيبہ دينوری نے اپنی کتاب تأويل مختلف الحديث میں لکھا ہے کہ:
و قد طالبت فاطمة رضي الله عنها أبا بكر رضي الله عنه بميراث أبيها رسول الله صلي الله عليه و سلم فلما لم يعطها إياه حلفت لا تكلمه أبدا و أوصت أن تدفن ليلا لئلا يحضرها فدفنت ليلا۔
فاطمہؐ نے اپنے والد رسولؐ خدا کی میراث کو ابوبکر سے مانگا، پس جب ابوبکر نے میراث دینے سے انکار کر دیا تو انھوں نے قسم کھائی کہ اب وہ ان سے کبھی بات نہیں کریں گیں اور وصیت کی کہ مجھے رات کو دفن کرنا تا کہ ابوبکر میرے جنازے میں شریک نہ ہو سکیں۔
أبو محمد عبد الله بن مسلم ابن قتيبة (متوفي276هـ)، تأويل مختلف الحديث، ج 1، ص 300

اس بات میں شک کی کوئ گنجائش نہیں کے نبیؐ کی بیٹی حضرت فاطمہ زہرا سلام الله علیہا ابوبکر اور عمر سے مرتے دم تک ناراض تھیں اور ان دونوں سے بات تک نہیں کرتی تھیں۔ یہ ایک ایسی حقیقت ہے کہ جو خود اہل سنت کی صحیح ترین کتب میں ذکر ہوئی ہے۔ ابوبکر اور عمر کا معافی مانگنے کے باوجود رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ کی بیٹی کا معاف نہ کرنا اور ان سے راضی نہ ہونا، اس سے حضرت زہراء سلام الله علیہا کی ناراضگی کی شدت کو سمجھا جا سکتا ہے، اور یہ ناراضگی دنیا اور مال دنیا کے لیے نہیں تھی کہ جس طرح بعض متعصّب ناصبی گمان کرتے ہیں۔ یقینی طور پر یہ ناراضگی خدا کے لیے تھی۔ اسی مطلب کو رسول خدا کی حدیث سے بھی سمجھا جا سکتا ہے۔ جناب سیّدہ کا ان دونوں سے مرتے دم تک ناراض رہنا اور ان دونوں کو اپنے جنازہ میں شریک نہ ہونے دینا نہ صرف یہ کہ ان دونوں کے کیے ہوئے ظلم کی شدّت کو ظاہر کرتا ہے بلکہ ان کا غاصبِ فدک اور غاصبِ خلافت ہونے کا بھی اعلان کر تا ہے۔