Why Ali (as) called Abu Turab

علی علیہ السلام کو ابو تراب کیوں کہا جاتا ہے؟

مولائے کائنات حضرت علیؑ ابن ابی طالبؑ کی شخصیت بے شمار فضائل کی حامل ہے۔ ان فضائل کو اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب قرآن پاک میں اور سرورِ کائنات (ص) نے احادیث کے ذریعہ بیان کیا ہے۔ آنحضرتؐ کا یہ قول مسلمانوں کے درمیان مشہور ہے کہ علیؑ کے تمام فضائل کم از کم ایک نشست میں بیان کرنا ممکن نہیں ہے۔ شائد اسی لیے حضور اکرمؐ نے اپنی امت کو مولا علیؑ کے متعدد القاب اور کنیّت سے مختلف مواقع پر متعارف کرایا ہے۔ ان ہی میں ایک لقب اور کنیّت ‘ابوتراب’ ہے۔ رسول اللہ (ص) نے کیوں مولا علیؑ کو اس لقب ‘ابوتراب’ سے یاد کیا ہے اس بارے میں شیعہ اور سنّی دونوں کے مختلف اقوال ہیں۔ آئیے پہلے شیعہ نظریہ دیکھتے ہیں۔
شیعوں کے نظریہ کی عکاسی یہ روایت بخوبی کر دیتی ہے۔

عبایہ ابن ربعی کہتے ہیں کہ میں نے عبد اللہ ابن عبّاس, جو رسول اللہ (ص) کے چچا کے فرزند ہیں، سے پو چھا کہ “رسول اللہ (ص) نے علیؑ کی کنیت ‘ابو تراب’ کیوں رکھی ہے؟” ابن عبّاس نے جواب دیا: “کیونکہ علیؑ ہی اس زمین کے مالک ہیں اور اہل زمین پر اللہ کی حجّت ہیں۔ انھیں کی وجہ سے زمین کی بقا ہے اور زمین کو علیؑ کی وجہ سے ہی سکون میسّر ہے۔ ابن عباس مزید کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ (ص) کو یہ کہتے ہوئے سنا ہے کہ: “بروزِ قیامت جب کافر دیکھے گا کہ علیؑ کے شیعوں کو خدا کی طرف سے کیا مقام، مرتبہ، کرامت اورثواب مل رہا ہے تو وہ کہے گا: اے کاش، میں بھی علیؑ کا شیعہ ہوتا۔ یہی قول قرآن میں اس طرح نقل ہوا ہے “جب کافر کہے گا اے کاش میں تراب ہوتا” {وَيَقُولُ الْكَافِرُ يَا لَيْتَنِي كُنْتُ تُرَاباً (النباء: ۴٠)}
شیعی حوالہ جات:
• بحار الأنوار ج٣٥ ص٥١ وج٦٥ ص١٢٣
• غاية المرام للبحراني (ط إيران) ج١ ص٥٨
• علل الشرايع ج١ ص١٨٧ و١٨٨
• معاني الأخبار للشيخ الصدوق ص١٢٠
• شجرة طوبى ج٢ ص٢٢٠
•تفسیر الصافي ج٥ ص٢٧٨ وج٧ ص٣٨٧
• تفسير نور الثقلين ج٥ ص٤٩٦
• بشارة المصطفى ص٢٨ و٢٩
• تفسیر البرهان ج٨ ص٢٠٢ • مناقب آل أبي طالب ج٢ ص٣٠٥.

اس روایت کا مفہوم یہ ہے کہ بروز قیامت، اللہ اپنے ولی علیؑ ابن ابی طالبؑ کے شیعوں کو اس قدر نوازے گا کہ کافر آرزو کرے گا کہ ‘اے کاش میں بھی علیؑ کا شیعہ ہوتا’۔ اس طرح قرآنی اصطلاح میں ‘تراب’ شیعہ ہے اور علیؑ ‘ابوتراب’ ہیں یعنی شیعوں کے باپ یعنی مولا ہیں اور اس لیے ان کا لقب یا کنیت ‘ابو تراب’ ہے۔

• اب دیکھیے اہل تسنّن (سنّی) علماء اس بارے میں کیا کہتے ہیں کہ :
اہل تسنّن علماء کی روش ہمیشہ خلفاء کی وفاداری رہی ہے۔ یہ علماء خلفاء ثلاثہ کے دفاع میں کسی بھی حد تک چلے جاتے ہیں۔ بعض مرتبہ تو وی اپنے ان مقدسات کے جرائم کو سبک ظاہر کرنے کے لیے رسول اللہ (ص) اور ان کی آلِ پاک کی توہین بھی گوارا کر لیتے ہیں۔ اسی کی ایک جھلک یہ روایت ہے جو اس ضمن میں بیان کی جاتی ہے:
اہل تسنّن کے یہاں سب سے زیادہ معتبر اور مستند کتابیں صحیح بخاری اور صحیح مسلم ہیں۔ صحیح بخاری میں مولا علیؑ کی اس خاص کنیت ‘ابو تراب’ کے بارے میں یہ روایت بیان کی گئ ہے۔ شیخ محمد بخاری نے اس روایت کو اپنی صحیح میں سہل بن سعد سے تین جگہوں پر نقل کیا ہے: باب 57 ح ۵٣، باب ٧٣ ح ٢٢٣ اور باب ٧۴ ح ٢٩٧۔

ان تینوں روایات کا ماحصل یہ ہے کہ سہل بن سعد کہتے ہیں کہ ایک دن رسول خدا (ص) اپنی دختر جناب فاطمہ (س) کے گھر اپنے داماد مولا علیؑ سے ملنے گئے مگر اس وقت حضرت علیؑ گھر پر نہیں تھے۔ دریافت کرنے پر معلوم ہوا کہ مولا علیؑ اپنی زوجہ اور آنحضرتؐ کی چہیتی دختر یعنی جناب فاطمہؐ سے کسی بات پر ناراض ہوکر گھر سے باہر چلے گئے ہیں۔ یہ سن کر رسول اکرم (ص) مسجد میں تشریف لائے تو دیکھا کہ وہیں زمین پر مولا علیؑ لیٹے ہوئے سو رہے ہیں اور آپؑ کے چہرے پر مٹّی لگی ہوئ ہے۔ رسالت مآب (ص) نے اس مٹّی کو صاف کرتے ہوئے ارشاد فرمایا “اٹھو اے ابو تراب”۔
(یہی روایت صحیح مسلم میں بھی باب ٣١ ح ۵٩٢۴ پر نقل ہوئ ہے۔)

• پہلی نظر میں اس روایت میں کوئ معیوب بات نظر نہیں آتی مگر غور طلب بات یہ ہے کہ اس روایت کو ایک ہی کتاب میں تین سے زیادہ جگہوں پر نقل کرنے کی کیا ضرورت تھی؟ کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے۔

• ماجرا یہ ہے کہ اس منگھڑت روایت میں یہ ظاہر کرنے کی کوشش کی گئ ہے کہ جناب فاطمہ (س) میں اور ان کے شوہر حضرت علیؑ کے درمیان کبھی کبھی نااتّفاقی ہوجاتی تھی اور کسی ایک موقع پر ان کے درمیان ناراضگی اس حد تک ہوگئ کہ حضرت علیؑ کو اپنا گھر چھوڑ کر مسجد میں جاکر سونا پڑا۔
روایت بیان کرنے والے کی اور اس کو نقل کرنے والے کی منشا ہے کہ یہ ظاہر کیا جائے کہ جناب سیّدہ (معاذ اللہ) دوسری عورتوں کی طرح ہی کسی بھی بات پر ناراض ہوجایا کرتیں تھیں اس لیے ان کی ناراضگی کو حق و باطل کا معیار قرار نہیں دیا جاسکتا۔ مؤلّف یہ چاہتا ہے کہ لوگ اس بات کو قبول کرلیں تاکہ جب جناب سیدہؑ کی شیخین سے ناراضگی کو بیان کیا جاے تو اس کو بھی کوئ اہمیت نہ دی جاے، جبکہ بقول سرورِ عالم (ص) ‘فاطمہؑ کی ناراضگی خدا کی ناراضگی ہے’ اور ‘جس نے فاطمہؑ کو ناراض کیا اس نے خدا کو ناراض کیا۔’ اسی کتاب صحیح بخاری میں موجود ہے کہ جناب فاطمہؑ ابوبکر و عمر دونوں سے مرتے دم تک ناراض رہیں۔ ظاہر ہے کہ جناب سیدہ (س) نے اپنی ناراضگی کے اظہار سے ابوبکر کی خلافت کا انکار کیا تھا۔ مگر جب جناب سیدہ (س) کی ناراضگی کی اہمیت کو ہی کم کردیا جائے گا تو اس سے ابوبکر و عمر کی خلافت محفوظ ہو جائے گی۔

• دوسری ناکام کوشش یہ ہے کہ ابوبکر کی بیٹی کے جرم کو ہلکا کردیا جاے۔ اہل تسنّن کی کتابوں میں یہ بات درج ہے کہ ابوبکر کی بیٹی عائشہ اپنے شوہر رسول اللہ (ص) سے بعض اوقات بدزبانی اور بدتمیزی سے پیش آتی تھی۔ اوپر بیان کی ہوئ سہل بن سعد کی منگھڑت روایت اس معاملے کو بھی حل کردیتی ہے۔ صحیح بخاری کے مؤلف نے اس روایت کو نقل کرکے یہ کوشش کی ہے کہ مسلمان یہ جان لیں کہ (نعوذ باللہ) رسول اللہ (ص) کی بیٹی کے شوہر بھی ان سے ناراض ہوجایا کرتے تھے تو ابوبکر کی بیٹی کا اپنے شوہر کو ناراض کرنا کوئ بہت بڑا جرم نہیں ہے۔

یہی سبب ہے کہ باقر علم نبییّن امام محمد باقر علیہ السلام نے ایسے علماء کو دین خدا کا رہزن (ڈاکو) کہا ہے۔ اس طرح کے علماء مسلمانوں کو صراط مستقیم سے منحرف کررہے ہیں اور دین حق سے گمراہ کر رہے ہیں۔