الف۔ صدر اسلام میں عربوں کے درمیان ((عمر)) مشہور اور رائج ناموں میں سے تھا اور یہ صرف عمر بن خطاب سے مخصوص نہیں تھا۔ رجال و تراجم کی کتابوں کے مراجعہ سے پتہ چلتا ہے۔
ابن حجر عسقلانی شافعی نے رسول خدا کے 22 صحابیوں کو ذکر کیا ہے جن کا نام عمر تھا۔ انہیں میں سے ایک عمر بن ابی سلمی تھے جو کہ پیغمبر اسلامﷺ کے ربیب اور حضرت علیؑ کےاچھے اور وفادار صحابیوں میں سے تھے۔
ب۔ معتبر اسناد کے وجود کی بناپر، حضرت علیؑ نے اپنے بچہ کا نام عمر نہیں رکھا بلکہ عمر بن خطاب نے اپنے مقام و منزلت کو نگاہ میں رکھتے ہوئے اور اپنی مرضی سے حضرت علیؑ کے لڑکے کا نام اپنے نام پر عمر رکھا۔ احمد بن یحیی بلاذری (متوفی 279ھجری قمری) نے اس سلسلہ میں تحریر کیا ہے:
عمر بن خطاب نے حضرت علیؑ کے بچہ کا نام عمر رکھا ۔(1) (اور یہ عمل دوسروں کے معاملات میں اس کی مرضی کے بغیر دخل اندازی کرنے کی واضح صراحت ہے۔)
تاریخ نے اس کے علاوہ بھی خلیفہ دوم کی فضول باتیں اور دوسروں کے کاموں میں دخل اندازی کو ذکر کیا ہے۔
احمد بن یحیی بلاذری نے عبد اللہ بن قیس بن نقب کے بارے میں تحریر کیا ہے کہ عبد اللہ بن قیس بن نقب کا پرانا نام ((خیاط))تھا عمر نے اس کا نام بدل کر عبد اللہ رکھ دیا ۔ (2)
ابن اثیر جزری شافعی (متوفی 360 ہجری قمری) نے عبد الرحمن بن حارث مخزومی کے حالات زندگی میں خلیفہ دوم کے فضول کاموں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے تحریر کیا ہے کہ عبد الرحمن عمر بن خطاب کی دیکھ بھال میں بڑے ہوئے عبد الرحمن کا پرانا نام ((ابراھیم)) تھا عمر بن خطاب نے ان کے نام کو بدل کر ((عبد الرحمن)) رکھ دیا ۔ (3)
ابن سعد بصری (متوفی 230ھجری قمری) لوگوں کے ناموں کی تبدیلی کے سلسلہ میں خلیفہ دوم کی دخل اندازی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے تحریر کیا ہے:
مسروق کے باپ کا نام ((اجدع)) تھا عمر بن خطاب نے اس کا نام بدل کر عبد الرحمن رکھ دیا ۔ (4)
ابن قتیبہ دینوری نے ھرمزان کے بارے میں تحریر کیا ہے:
ھرمزان نے جب اسلام قبول کیا تو عمر بن خطاب نے اس کا نام بدل کر (عرطفہ) رکھ دیا ۔ (5)
متقی ھندی نے ایک مقام پر خلیفہ دوم کی بے جا دخل اندازی کو اس طرح سے بیان کیا ہے:
عمر بن خطاب نے ((بلال بن رباح)) کے بھائی ((طحیل بن رباح)) کا نام بدل کر ((خالد بن رباح)) کردیا ۔ (6)
ابن سعد و ابن حجر عسقلانی شافعی خلیفہ دوم کی جانب سے تبدیلی نام کی مہم کے ایک مورد کی طرف اشارہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ:
((کثیر بن صلت)) کا پرانا نام ((قلیل بن صلت)) تھا عمر بن خطاب نے اس کا نام بدل دیا اور قلیل کے بجائے کثیر کردیا ۔ (7)
اب ذکر شدہ مطالب کی طرف توجہ اور اس میں غور کریں تو معلوم ہوگا کہ خود امیر المومنین نے اپنے لڑکے کا نام عمر رکھنے میں پہل نہیں کی بلکہ وقت کےحاکم و خلیفہ نے اس نام کا انتخاب کیا۔
پس کیا یہ خود سے نامگذاری بھی حضرت علیؑ اور عمر بن خطاب کے درمیان اچھے اور دوستانہ تعلقات ہونے کی دلیل ہوسکتی ہے؟
شاید بعض محترم قارئین کے ذہن میں یہ سوال پیدا ہوکہ حضرت علی نے خلیفہ کے اس کام کی مخالفت کیوں نہیں کیا؟
اس سوال کے جواب میں بھی کہنا چاہئے کہ خلیفہ دوم کے کارنامے بتاتے ہیں کہ وہ ایک تند مزاج انسان تھے۔ اور صحابہ ان کے اعمال و افعال کی مخالفت کرتے تھے، عمر نے سعد بن عبادہ کے قتل کا حکم ابو بکر کی بیعت نہ کرنے کی وجہ سے دیا تھا، اپنی بہن اور بہنوئی، خالد بن ولید کی قوم، قبیلہ ربیعہ کے رئیس اور بزرگ جارود عامری اور ابی بن کعب انصاری کو مارنا، عشرہ مبشرہ کی ایک فرد سعد بن ابی وقاص کے قصر میں آگ لگانا، یہ سب نمونے ہیں ان کی بد اعمالی کے جو اصحاب پیغمبرؐ اسلام کے ساتھ انجام دیا ۔ (8)
عمر بن خطاب کی تند مزاجی صحابہ کرام اور عام مسلمانوں کے درمیان اس قدر مشہور تھی کہ تاریخ نے اس کی شہرت یوں بیان کیا ہے کہ عمر بن خطاب کا تازیانہ حجاج بن یوسف ثقفی کی تلوار سے زیادہ خطرناک اور ڈراونا مانا جاتا تھا ۔ (9)
اور بہت ممکن ہے کہ حضرت علی ؑ نے اس کی مخالفت کی ہو لیکن تاریخ نے ذکر نہ کیا ہو یا یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ہمیں اس کا علم نہ ہو اور اس کا احتمال ہے کہ حضرت علیؑ کے لڑکے کا نام “عمر” نہیں بلکہ “عمرو” رہا ہو،
حضرت علیؑ کے ایک دوسرے لڑکے کا نام جو کہ ایک خلیفہ کےنام سے مشابہت رکھتا ہے عثمان بن علیؑ ہے، حضرت علیؑ کے اس لڑکے کے نام
کی خلیفہ سوم کے نام سے مشابہت کے بارے میں کہا جاسکتا ہے کہ:
الف۔ تراجم، رجال اور کتب انساب کی طرف رجوع کرنے سے ہمیں معلوم ہوسکتا ہے کہ عثمان نام بھی عربوں کے درمیان ایک مشہور اور رائج ناموں میں سے تھا،
ابن حجر عسقلانی شافعی نے اپنی مشہور کتاب ((الاصابۃ فی معرفۃ الصحابۃ)) جو کہ اصحاب پیغمبرؐ اور ان کی زندگی کے بارے میں ہے چھبیس(۲۶) اصحاب پیغمبرؐ جن کا عثمان نام تھا ذکر کیا ہے۔
ب۔ تاریخ کے معتبر اسناد اس بات کے گواہ ہیں کہ حضرت علیؑ نے اپنے لڑکے کا نام مشہور و معروف صحابی پیغمبرؐ عثمان بن مظعون کے نام پر رکھا ہے اور حضرت علیؑ کے اس لڑکے کی نامگذاری ((بہ نام عثمان)) خلیفہ سوم کے نام ((عثمان بن عفان))کے ساتھ کا کوئی رابطہ نہیں ہے۔
ابو الفرج اصفہانی نے حضرت علیؑ سے نقل کرتے ہوئے لکھا ہے:
“میں نے اپنے لڑ کے کا نام اپنے بھائی عثمان بن مظعون کے نام پر عثمان رکھا ہے(10) “(اوراس بیان سے اب یہ صاف ہوجاتاہے کہ آپؑ نے عمر کے نام میں بھی اسی خیال وعقیدہ کا لحاظ رکھاہےبشرطیکہ نامگذاری آپ کی طرف سے رہی ہو!)
ابو الحسن محمد بن ابی جعفر عبدلی جنگ بدر کے مجاہدوں کے بارے میں لکھتے ہیں کہ عثمان بن مظعون جو جنگ بدر میں موجود تھے حضرت علیؑ نے ان کے نام پر اپنے لڑکے کا نام عثمان رکھا ۔ (11)
مورخین نے حضرت علی علیہ السلام کے بیٹوں میں (ابو بکر بن علیؑ) کی بھی معرفی کی ہے۔ ابوبکر حضرت علیؑ کے اس لڑکے کی کنیت ہے جن کے نام کےسلسلہ میں مورخین نے اختلاف کیا ہے بعض نے ان کے نام کو عبد اللہ اور کچھ نے محمد بتایا ہے اور بعض اسناد میں عبد الرحمن بتایا گیا ہے اور بعض نے کہ جس میں ابو الفرج اصفہانی بھی ہیں ان کا کوئی نام نہیں ذکر کیا اور ان کے نام کے معلوم نہ ہونے کا اظہار کیا ہے ۔(12)
اس نام کی شباہت کے سلسلہ میں بھی ہم کہہ سکتے ہیں:
الف۔ حضرت علیؑ کےلڑکے کا نام ابو بکر نہیں بلکہ ان کی کنیت ہے، عربوں کے عادات و رسومات کی بنیاد پر کنیتیں مختلف مناسبتوں کی وجہ سے اور ماں باپ کے علاوہ دوسرے لوگوں کی طرف سے بھی منتخب ہوتی تھیں۔
ب۔ کنیت (ابوبکر) عربوں کے درمیان بہت مشہور و معروف کنیت تھی، صدر اسلام میں دوسرے بھی بہت سے ایسے افراد موجود تھے جن کی کنیت ابو بکر تھی اور کوئی معتبر سند اور دلیل نہیں جو اس بات پر دلالت کرے کہ حضرت علیؑ نے خلیفہ اول کی کنیت کی وجہ سے اپنے لڑکے کے لئے اس کنیت کا انتخاب کیا ہو۔
ت۔ “ابو بکر ” خلیفہ اول کی کنیت ہے اور ان کا نام نہیں ہے اگر حضرت علیؑ کا خلیفہ اول کے ساتھ اچھے اور دوستانہ تعلقات کو لوگوں کے سامنے پیش کرنا مقصد ہوتا تو حضرت علیؑ نے اپنے بیٹے کا نام ابوبکر کے نام پر رکھا ہوتا ابو بکر نہیں۔
ذکر شدہ مطالب حتی کہ وہ معتبر اسناد جو کہ حضرت علیؑ اور عمر کے درمیان معمولی تعلقات و روابط کو بیان کرتے ہیں ان سے قطع نظر کرتے ہوئے یہ نام کی شباہت بھی حضرت علیؑ و عمر کے درمیان اچھے اور دوستانہ تعلقات ہونے کی دلیل نہیں ہوسکتی۔
حضرت علیؑ کے لڑکوں کا خلفاء کا ہم نام ہونا اس بات کی دلیل ہے کہ ان کے درمیان اچھے اور دوستانہ تعلقات تھے تو پھر یہ تعلقات یکطرفہ کیوں تھے؟ اور خلفاء نے اپنے بچوں کا نام “حسن” و “حسین” کیوں نہیں رکھا ؟
بعض اصحاب اور ائمہ معصومین کے چاہنے والوں کے نام جیسے یزید، معاویہ، عبد الملک، عمر اور اس کے علاوہ بھی اور بہت سے ایسے ناموں کا ہونا کیا اس وجہ سے ہے کہ یہ لوگ یزید، معاویہ، عمرو بن عاص اور دوسرے اموی اور مروانی خلفاء سے محبت کرتے تھے یا ان سے ان کا کوئی رابطہ اور واسطہ تھا۔
اس اعتراض کے جواب میں ایک اور نکتہ جسے نظر انداز نہیں کیا جانا چاہئے وہ یہ ہے کہ عام طور پر لوگوں سے نفرت ان کے ناموں اور وقت کے ساتھ آہستہ آہستہ پھیلتی ہے، اس طرح ابو بکر، عمر، عثمان اور دوسرے ظالموں اور غاصبوں سے شیعوں اور اہل بیتؑ کے چاہنے والوں کی نفرت بتدریج اپنے عروج پر پہونچ گئی اور آج شیعہ ان سے نفرت کرنے کے ساتھ ساتھ ان کے ناموں سے بھی نفرت کرتے ہیں۔
—————————————————————————————
(1) – ((و کان عمر بن خطاب سمی عمر بن علی باسمہ))۔ انساب الاشراف، ج۲، ص۱۹۲، ولدہ و تعدادھم و أسمائھم۔
(2)- ((ومن بنی نقب: عبد اللہ بن قیس بن نقب و کان اسمہ خیاط، فسماہ عمر بن الخطاب عبد اللہ))۔ انساب الاشراف، ج۱۳، ص۳۳، نسب بنی عمرو بن تمیم۔
(3) ((و نشأ عبد الرحمٰن فی حجر عمر و کان اسمہ ابراھیم، فغیر عمر اسمہ لما غیر أسماء من تسمیٰ بالانبیاء، و سماہ عبد الرحمن))۔ أسد الغابہ فی معرفۃ الصحابہ، ج۳، ص۲۸۴، شرح حال عبد الرحمٰن بن حارث۔
(4) ((کان اسمہ أبی مسروق الأجدع، فسماہ عمر عبد الرحمن))۔ الطبقات الکبریٰ، ج۶۔ ص۸۶، شرح حال مسروق بن الاجدع۔
(5) ((لما اسلم الھرمزان سماہ عمر بن الخطاب عرطفۃ))۔ المعارف، ص۴۲۱، نوادر فی المعارف۔
(6) ((فقال: من أنت؟ قال: أنا طحیل بن رباح۔ قال: بل أنت خالد بن رباح))۔ کنز العمال فی سنن الاقوال و الافعال، ج۹ ص۵۷۳، ح۲۷۷۹۔
(7) ((کان اسمہ کثیربن الصلت قلیلاً، فسماہ عمرکثیراً))۔ الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ، ج۵ ص۱۴، شرح حال کثیر بن صلت۔
(8) انساب الاشراف، ج۲، ص۲۶۳، و ص۲۷۲، امر السقیفۃ، العقد الفرید، ج۴، ص۵۵۷۔ الطبقات الکبریٰ، ج۳، ص۲۶۷، وج۵، ۶۲، المصنف عبد الرزاق، ج۳، ص۵۵۷، کتاب الجنائز، باب الصبر و البکاء، ح۶۶۸۱، تاریخ المدینہ، ج۲، ص۶۹۰، المصنف ابن ابی شیبہ، ج۶، ۲۱۳، کتاب الادب، باب۱۵۳، ح۳۔
(9) ((درۃ عمر أھیب من سیف الحجاج)) و ((کانت درتہ أھیب من سیوف الملوک))۔ الطبقات الکبریٰ ج۳، ص۲۸۲، ذکر استخلاف عمر و انساب الاشراف، ج۱۰، ص۳۲۲، الادارۃ زمن عمر، ربیع الابرار، ج۳، ص۱۳، باب العز و الشرف، شرح نھج البلاغہ، ج۱، ص۱۸۱، طرف من اخبار عمر بن الخطاب۔ وج۱۲، ص۷۵، نکت من کلام عمر و سیرتہ و أخلاقہ۔
(10) ((انما سمیتہ باسم اخی عثمان بن مظعون)) مقاتل الطالبین، ص۵۵، عثمان بن علی۔
(11) ((منھم عثمان بن مظعون الذی سمی أمیر المؤمنین علی بن ابی طالب ابنہ باسمہ))۔ تھذیب الانساب، ۲۷۔
(12) مقاتل الطالبین، ص۵۶۔