امام کے لیے کمسنی اور بزرگی میں کوئ فرق نہیں ہوتا کیونکہ وہ خدائ علوم اور مرضات الٰہی کا مالک ہوتا ہے۔ امام محمد تقی (ع) کی عمر مبارک اس وقت ظاہراً آٹھ برس تھی۔ بادشاہ وقت مامون رشید خود ایک عالم اور دانا شخص تھا۔ اس نے امام محمد تقیؑ کو نظر میں رکھنے کے لئے اپنی بیٹی ام الفضل کو امامؑ کی زوجیت میں دینے کا ارادہ کرلیا۔ مگر اس تجویز کی بنی عباس کے دیگر افراد نے سختی سے مخالفت کی۔ ان کی رائے میں مامون کا آٹھویں امام، حضرت علی رضا (ع) کو ولی عہد بنانے کا فیصلہ تو غلط تھا ہی اب ان کے فرزند، امام جوادؑ کو اس کمسنی میں اتنی عزّت دینا احمقانہ فیصلہ تھا۔ مگر مامون کو امام جوادؑ کی عظمت اور علم کا بخوبی اندازہ تھا۔ اپنے خاندان والوں کو ہموار کرنے کے لیے اس نے یہ دعویٰ کیا کہ تم جس عالم سے چاہو فرزندِ رضاؑ کا مناظرہ کرالو، دیکھنا وہی کامیاب ہوں گے۔ چنانچہ عباسیوں نے علماء اور دانشمندوں کے درمیان سے بصرہ کے بزرگ مفتی اور قاضی القضاة “یحییٰ بن اکثم” کو اس کی علمی شہرت کی وجہ سے منتخب کیا۔ مامون نے امام جواد (ع) کے علم کو اور ان کی فقہی آگہی کو پرکھنے اور جانچنے کے لئے ایک جلسے کا اہتمام کیا۔ اس جلسے کی ابتدا میں یحییٰ نے مامون کی طرف رخ کر کے کہا، “اجازت ہے کہ میں اس نوجوان سے کچھ سوال کروں؟۔”
مامون نے کہا۔”خود ان سے اجازت لو”۔ یحیٰی نے امام محمد تقی (ع) سے اجازت لی۔ امام (ع) نے فرمایا: “یحیٰی! تم جو پوچھنا چاہو پوچھ لو۔” یحیٰی نے سوال کیا “یہ فرمائیے کہ حالت احرام میں اگر کوئی شخص کسی حیوان کا شکار کرلے تو اس کا کیا حکم ہے؟”۔
یحییٰ کا گمان یہ تھا کہ ممکن ہے کہ یہ آٹھ سال کا بچّہ روزمرّہ کے مسائل سے واقف ہو مگر حج کے مسائل سے یقینًا وہ نابلد ہوگا۔ بظاہر اس نے امامؑ سے ایک آسان لگنے والا مشکل سوال پوچھا تھا۔
امام محمد تقی (ع) نے اس کے جواب میں فرمایا، “اے یحیٰی! تمھارا سوال بالکل مبہم ہے پہلے یہ بتاؤ، اس شخص نے شکار حل میں (حرم کے حدود سے باہر) کیا تھا یا حرم میں؟
شکار کرنے والا مسئلہ سے واقف تھا یا لاعلم؟
اس نے عمداً اس جانور کا شکار کیا تھا یا دھوکے سےقتل ہو گیا تھا؟
وہ شخص آزاد تھا یا غلام؟
شکار کرنے والا کمسن تھا یا بالغ؟
اس نے پہلی مرتبہ شکار کیا تھا یا اس کے پہلے بھی شکار کرچکا تھا؟
شکار پرندوں میں سے تھا یا غیر پرندہ ؟
شکار چھوٹا تھا یا بڑا جانور تھا؟
وہ اپنے فعل پر اصرار رکھتا ہے یا پشیمان ہے؟ اس نے رات کو پوشیدہ طریقہ پر شکار کیا یا دن میں اعلانیہ طور پر؟
احرام عمرہ کا تھا یا حج کا؟۔
جب تک یہ تمام تفصیلات نہ بتائی جائیں گی اس وقت تک اس مسئلہ کا کوئی معین حکم نہیں بتایا جا سکتا۔”
امام محمد تقی (ع) نے جب مسئلہ کی یہ تمام فروعات بیان کی تو یحیٰی بن اکثم حیران و ششدر رہ گیا، اس کے چہرہ سے ناتوانی اور شکستگی کے آثار ظاہر ہوگئے۔ ایک معمولی اور آسان لگنے والے سوال کو امامؑ نے خود پوچھنے والے کے لیے بارہ سوال بنا دیے۔ امامؑ کی اس فراست کو دیکھ کر یحییٰ کو اپنی کم علمی اور امامؑ کی علمی بالا دستی کا احساس ہو گیا۔ امام (ع) کےسامنے اس کی زبان اس طرح لکنت کرنے لگی اور گنگ ہو گئی کہ اس کی ناتوانی کا اندازہ تمام حاضرین کو ہوگیا۔ مامون نے امام محمد تقی (ع) کی طرف رخ کرکے عرض کی:”میں آپ پر قربان ہو جاؤں، بہتر ہے کہ آپ حالت احرام میں شکار کرنے کی تمام شکلوں کے احکام خود ہی بیان فرما دیں تاکہ ہم لوگ ان سے استفادہ کریں۔” امام محمد تقی (ع) نے تفصیل کے ساتھ تمام صورتوں کے جداگانہ احکام بیان فرمائے۔
حضرت (ع) نے فرمایا: “اگر وہ شخص احرام باندھنے کے بعد حل میں (حرم کے باہر) شکار کرے اور وہ شکار پرندہ ہو اور بڑا بھی ہو تو اس کا کفّارہ ایک بکری ہے، اور اگر شکار حرم میں کیا ہے تو اس کا کفارہ دو بکریاں ہیں، اور اگر کسی چھوٹے پرندہ کا حل میں شکار کیا ہے تو اس کا کفّارہ دنبہ کا ایک بچہ ہے جو اپنی ماں کا دودھ چھوڑ چکا ہو اور اگر حرم میں شکار کیا ہو تو وہ شخص اس پرندے کی قیمت اور ایک دنبہ کفارہ دے گا اور اگر وہ شکار چوپایہ ہو تو اس کی کئی قسمیں ہیں اگر وہ وحشی گدھا ہے تو اس کا کفّارہ ایک گائے ہے اور اگر شتر مرغ ہے تو ایک اونٹ اور اگر ہرن ہے تو اس کا کفّارہ ایک بکری ہے، یہ کفّارہ اس وقت ہے جب شکار حل میں کیا ہو لیکن اگر ان جانداروں کا شکار حرم میں کیا ہے تو یہی کفّارے دگنے ہو جائیں گے اور اگر احرام حج کا تھا تو “منیٰ ” میں قربانی کرے گا، اور اگر احرام عمرہ کا تھا تو “مکہ” میں اس کی قربانی کرے گا اور شکار کے کفّاروں میں عالم و جاہل دونوں برابر ہیں اور عمداً شکار کرنے میں (کفّارہ کے واجب ہونے کے علاوہ) گنہگار بھی ہے، لیکن بھولے سے شکار کرنے میں گناہ نہیں ہے، آزاد انسان اپنا کفّارہ خود دے گا اور غلام کا کفّارہ اس کا مالک ادا کرے گا۔ چھوٹے بچے پر کوئی کفّارہ نہیں ہے اور بالغ پر کفّارہ دینا واجب ہے اور جو شخص اپنے اس فعل پر نادم ہوگا وہ آخرت کے عذاب سے بچ جائے گا لیکن اگر اس فعل پر نادم نہیں ہے تو اس پر عذاب ہوگا۔”
مامون نے کہا:”احسنت ! یا ابوجعفرؑ! خدا آپ کو جزائے خیر دے، بہتر ہے آپ بھی یحیىٰ بن اکثم سے کچھ سوالات کرلیں جس طرح اس نے آپ (ع) سے سوال کیا ہے۔
امام (ع) نے یحییٰ سے کہا: “اجازت ہے کہ میں تم سے سوال کروں؟” یحییٰ نے کہا: “اس کا اختیار آپ کو ہے، میں آپ پر قربان ہو جاؤں، اگر مجھ سے ہو سکا تو اس کا جواب دوں گا ورنہ آپ سے استفادہ کروں گا۔”
یحییٰ کو اب معلوم ہو چکا تھا کہ اس کا مقابلہ کسی معمولی شخص سے نہیں ہے بلکہ ایک بہت بڑے فقیہ سے ہو رہا ہے ۔ اس کے انداز میں انکساری تھی اور اپنی کم علمی کا احساس بھی۔ امام محمد تقی (ع) نے اپنے مد مقابل کی حالت کو دیکھ کر اس سے کوئ بہت مشکل فقہی سوال نہ کرکے ایک بظاہر بچکانہ سوال کیا۔ آپؑ نے یحییٰ جیسے بزرگ مفتی سے اس کے روز مرّہ کا ہی ایک سوال کیا کہ “اس شخص کے بارے میں کیا کہتے ہو جس نے صبح کو ایک عورت کی طرف نظر کی تو وہ اس پر حرام تھی، دن چڑھے حلال ہوگئی، پھر ظہر کے وقت حرام ہو گئی، عصر کے وقت پھر حلال ہوگئی، غروب آفتاب کے وقت پھر حرام ہو گئی، عشاء کے وقت پھر حلال ہوگئی، آدھی رات کو اس پر حرام ہوگئی، صبح کے وقت پھر حلال ہو گئی، بتاؤ یہ کیسی عورت ہے کہ ایک ہی دن میں اتنی دفعہ اس شخص پر کس طرح حرام و حلال ہوتی رہی؟۔”
امام جواد (ع) کے اس سوال کو قاضی القضاة یحیٰی بن اکثم سن کر دم بخود رہ گیا۔ کچھ دیر غور و فکر کرنے کے بعد اس نے امامؑ سے عاجزی کے ساتھ عرض کی، “خدا کی قسم میں اس سوال کا جواب نہیں جانتا اور اس عورت کے حلال و حرام ہونے کا سبب بھی مجھ کو نہیں معلوم، اگر مناسب ہو تو آپ اس کے جواب سے ہمیں مطلع فرمائیں۔”
امام (ع) نے فرمایا: “وہ عورت کسی کی کنیز تھی، اس کی طرف صبح کے وقت ایک اجنبی شخص نے نظر کی تو وہ اس کے لئے حرام تھی، دن چڑھے اس نے وہ کنیز خرید لی، اس پر حلال ہوگئی، ظہر کے وقت اس کو آزاد کردیا، وہ حرام ہوگئی، عصرکے وقت اس نے نکاح کرلیا پھر حلال ہوگئی، مغرب کے وقت اس سے “ظہار” کیا جس کی وجہ سے پھر حرام ہو گئی، عشاء کے وقت ظہار کا کفّارہ دے دیا، پھر حلال ہوگئی، آدھی رات کو اس شخص نے اس عورت کو طلاق رجعی دے دی، جس کی بنا پر پھر حرام ہو گئی اور صبح کے وقت اس نے رجوع کرلیا پھر وہ عورت اس پر حلال ہو گئی۔”
اس جواب کو سن کر یحییٰ بن اکثم بہت متاثر ہوا۔ حاضرین اور بنی عباس کے تمام افراد کو آٹھ سال کے اس بچّے کی علمی مہارت کا بخوبی اندازہ ہوگیا۔
امام محمد تقی (علیہ السلام) کی اس علمی کامیابی اور اس درباری مناظرہ کے دوران برتری کا چرچا پوری مملکت اسلامی میں پھیل گیا. یہ نہ صرف ایک مفتیء اعظم کی شکست تھی بلکہ خاندان اہلبیتؑ کی علمی بالا دستی کا مظاہرہ بھی تھا۔ مسلمانوں پر ایک بار پھر اس بات کا انکشاف ہوگیا کہ حقیقی معنوں میں باب مدینۃالعلم’ کے وارث صرف اور صرف ائمہء اہلبیت (علیہم السلام) ہی ہیں۔ اگر کسی کو حقیقی علم سے سیراب ہونا ہے تو اس کے لیے اس در سے وابستگی ضروری ہے کیونکہ بقولِ مرسلِ اعظمؐ یہی حضرات ‘حدیث ثقلین’ کے دو گراں قدر چیزوں میں سے ایک ہیں اور یہی حضرات قرآن کے حقیقی ترجمان بھی ہیں۔