کعبة الله اور علی ابن ابی طالب علیہ السلام

إِنَّ أَوَّلَ بَيْتٍ وُضِعَ لِلنَّاسِ لَلَّذِي بِبَكَّةَ مُبَارَكًا وَهُدًى لِلْعَالَمِين َ [آلِ عمران: 96]
یقینًا سب سے پہلا مکان جو لوگوں کے لیے تیار کیا گیا،وہ بکہ(مکہ) کی سرزمین پر ہے، یہ مکان عالمین کے لیےمبارک اور ہدایت ہے۔

کعبة الله کی اہمیت اور منزلت کسی مسلمان سے پوشیدہ نہیں ہے۔ نماز کی قبولیت کے لیے جو شرائط ہیں ان میں ایک اہم شرط یہ ہے کہ انسان کا رخ خانہ کعبہ کی طرف ہونا چاہیے۔ کعبہ کی منزلت اور احترام کے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ خدا نے اس عمارت کو ‘بیت الله’ اپنا گھر کہا ہے۔ اس مکان کو قرآن نے ‘اوّل بیت’ کے لقب سے بھی یاد کیا ہے جو لوگوں کی ہدایت کے لیے بنایا گیا ہے۔ قرآن ہمیں یہ بھی بتاتا ہے کہ اس مبارک مکان کو خدا کے برگزیدہ بندوں نے تعمیر کیا ہے۔ اس عمارت کی تعمیر کے لیے خدا نے اپنے خلیل جناب ابراہیمؑ اور ان کے فرزند ذبیح اللہ جناب اسماعیلؑ کی خدمات لی ہیں۔ اتنا ہی نہیں رب کائنات نے لفظ ‘طہّرا بیتی للطائفین’ کا استعمال کرکے اس کی عظمت میں مزید اضافہ کردیا ہے۔ اس مکان کو خدا کے دو معصوم نبیوں نے’طواف کرنے والوں کے لیے پاک کیا ہے۔

خانہ کعبہ کی عظمت و احترام کا سلسلہ عہدِ ابراہیمی سے رہا ہے۔ قریش اس مکان کا طواف کرتے تھے اور اس کو اپنے لیے مبارک سمجھتے تھے۔ جب ابرہا نے خانہ کعبہ پر حملہ کرنے کا ارادہ کیا تو الله نے اپنے اس مکان کی حفاظت ابابیل کے ذریعے کروائی اور اس کے پورے لشکر کو تہس نہس کردیا۔ قریش کی تاریخ میں خانہ کعبہ سے متعلق ایک اور مشہور واقعہ درج ہے وہ یہ کہ قریش کے سردار سید الابطحیٰ جناب ابوطالبؑ کے فرزند علی ابن ابی طالب کی ولادت بھی اس مکان میں ہوئ ہے۔ مکہ میں اسلام آنے کے بعد بھی اس مکان کی قدر و منزلت میں کوئ کمی نہ آئ بلکہ دین اسلام نے اس مقدس مکان کو ‘قبلہ’ کی حیثیت عطا کی ہے جس سے اس خانہ کعبہ کی منزلت میں اور اضافہ ہوگیا۔ اسی لیے آنحضرت صلی الله علیہ وآلہ وسلم نے اپنے وصی اور خلیفہ بلا فصل کی منزلت کے لیے خانہ کعبہ کی مثال دی ہے۔

قال رسول اللّه صلّی اللّه علیه و آله و سلم: یا علی أنت بمنزلة الکعبة
رسول الله صلی الله علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: “اے علیؑ،تمھاری منزلت کعبہ کی ہے۔”
(اہل تسنن کتاب- کنوز الحقائق ص ۲۰۳)

رسول الله صلی الله علیہ وآلہ وسلم کی اس حدیث سے اس بات کا پتہ چلتا ہے کہ اسلام میں امیرالمومنین علیہ السلام کی ایک مرکزی حیثیت ہے۔ جس طرح خانہ کعبہ کی طرف رخ کرکے نماز پڑھی جاتی ہے اس کی طرف سے رخ ہٹالینے سے نماز باقی نہیں رہتی اسی طرح علی ابن ابی طالب علیہما السلام کی محبت سے دل پھیر لینے سے مومن مومن نہیں رہ جاتا۔ جس طرح کعبہ ‘بیت الله’ ہے اور ایک عظیم شعائر اللہ ہے۔ اسی طرح علی ابن ابی طالب علیہما السلام کی ذات پاک کو الله سے خاص نسبت ہے۔ اس حقیقت کا اظہار احادیث نبویؐ میں موجود مولا علیؑ کے لیے عین الله، وجہ الله، لسان الله، جنب الله وغیرہ القاب کا استعمال ہے۔

اسی طرح خانہ کعبہ کی مثال دیتے ہوے سرورِ کائناتؐ نے امت کی رہنمائ کی ہے کہ حضرت علی ابن ابی طالب علیہما السلام کی پیروی ان پر فرض ہے۔ امت کو علیؐ کی ضرورت ہے علیؑ کو امت کی ضرورت نہیں ہے۔ یہ بات اہل تسنن کی کتابوں میں بھی درج ہے۔ بطور نمونہ یہ جملہ رسول الله صلی الله علیہ وآلہ وسلم کی مشہور و معروف حدیث میں ملتا ہے کہ “(اے علی) تمھاری مثال کعبہ کی ہے،لوگ اس کے پاس جاتے ہیں وہ لوگوں کے پاس نہیں جاتا”
(اسد الغابہ فی معرفت الصحابہ جلد 4 صفحہ 31)۔

اس طرح کی روایات طرفین یعنی اہل تشیع اور اہل تسنن دونوں کی کتابوں میں موجود ہیں۔

ایک روایت میں ہم دیکھتے ہیں :قال رسول اللّه علیه و آله و سلم: مثل علیّ فیکم أو قال: فی هذه الامة کمثل الکعبة المشرفة النظر إلیها عبادة و الحج إلیها فریضة.
(علامة عبد اللّه الشافعی کتاب المناقب)

“علیؑ کی مثال اس امت میں کعبہ شریف کی سی ہے،اس کی طرف نظر کرنا عبادت ہے اور اس کی طرف حجّ کیلئے جانا فریضہ ہے۔”

سرورِؐ کائنات کی یہ حدیث ان احادیث کے مطابق ہے جن میں یہ جملے ملتے ہیں ”

علیؑ کے چہرے کی زیارت کرنا عبادت ہے” “علیؑ کا ذکر عبادت ہے”۔
اسی طرح کی ایک اور روایت میں ہے-

قال رسول اللّه صلّی اللّه علیه و آله و سلم، أنت بمنزلة الکعبة تؤتی و لا تأتی، فان أتاک هؤلاء القوم فسلّموها إلیک یعنی الخلافة فاقبل منهم و إن لم یأتوک فلا تأتهم حتّی یأتوک.
(اہل تسنن عالم علامة الشیخ جلال الدین عبد الرحمن السیوطی کی کتاب -ذیل اللئالی ص ۶۲)

رسول الله صلی الله علیہ وآلہ: “اے علی تمھاری منزلت کعبہ کی ہے، لوگ کعبہ کے پاس جاتے ہیں وہ لوگوں کے پاس نہیں جاتا۔ اگر یہ امت تم کو اپنا خلیفہ تسلیم کرلے تو تم بھی ان کی حاکمیت قبول کرلینا اور اگر یہ لوگ تمھارے پاس نہیں آتے تو تم بھی ان کے پاس مت جانا، جب تک وہ خود تمھارے پاس نہیں آتے”

مرسلِ اعظم صلی الله علیہ وآلہ وسلم کے اس قول سے نہ صرف یہ کہ حضرت علی ابن ابی طالب علیہما السلام کی خلافت ثابت ہوتی ہے بلکہ اس بات کا جواب بھی مل جاتا ہے کہ مولا علی علیہ السلام نے خلافت حاصل کرنے کے لیے کیوں تلوار نہیں اٹھائ۔ رسول اکرم صلی الله علیہ وآلہ وسلم کی رحلت کے فورًا بعد مولائے متقیان کا خاموشی اختیار کر لینا اسی سبب سے تھا کہ آپ کو رسولؐ الله نے خاموش رہنے کا حکم دیا تھا۔ غاصبوں نے علی ابن ابی طالب علیہ السلام کو حکومت و خلافت سے دور کرکے علیؑ کا نقصان نہیں کیا ہے بلکہ امت کا نقصان کیا ہے۔ وہیں امت نے علیؑ کو خلافت سے محروم نہیں کیا ہے بلکہ انھوں نے رسول اکرم کے حکم کو نظرانداز کیا ہے