جب رسول اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دین خدا کی تبلیغ کا کام بین الاقوامی طور پر شروع کیا تو آپؐ کو اسلام کی سربلندی کے لیے تین طرح کی جنگیں لڑنی پڑیں۔ تیر و تلوار سے جنگ، علمی جنگ اور اپنی صداقت اور دین کی حقانیت ثابت کرنے کے لیے جنگ۔ مباہلہ اس آخری جنگ کو کہتے ہیں۔ اسی جنگ کا اعلان سورہ آل عمران کی آیت ٦١ میں ہو رہا ہے۔
فَمَنْ حَآجَّكَ فِيهِ مِن بَعْدِ مَا جَاءكَ مِنَ الْعِلْمِ فَقُلْ تَعَالَوْاْ نَدْعُ أَبْنَاءنَا وَأَبْنَاءكُمْ وَنِسَاءنَا وَنِسَاءكُمْ وَأَنفُسَنَا وأَنفُسَكُمْ ثُمَّ نَبْتَهِلْ فَنَجْعَل لَّعْنَةَاللّهِ عَلَى الْكَاذِبِينَ۔
چنانچہ اب آپؐ کو علم ( اور وحی ) پہنچنے کے بعد، جو بھی ان (حضرت عیسیؑ ) کے بارے میں آپؐ سے کٹ حجتی کرے، تو کہہ دیجیے کہ آؤ ! ہم اپنے بیٹوں کو اور تم اپنے بیٹوں کو ، ہم اپنی عورتوں کو اور تم اپنی عورتوں کو اور ہم اپنے نفسوں کو اور تم اپنے نفسوں کو، لائیں، پھر مباہلہ کریں اور جھوٹوں پر اللہ کی لعنت قرار دیں ۔
واقعہ مباہلہ:-
واقعہ مباہلہ ایک مشہور تاریخی واقعہ ہے جسے بزرگ اور قدیمی اہل تسنّن سیرت نگاروں مثلًا ابن اسحاق , مورخین جیسے طبری اور مفسرین نے اپنی تفاسیر مثلًا تفسیر ابن کثیر نے تفصیل سے نقل کیا ہے.
نبی اکرم (ص) نے نجران کے عیسائیوں کی جانب ایک فرمان بھیجا، جس میں یہ تین چیزیں تھیں اسلام قبول کرلو، یا جزیہ ادا کرو یا جنگ کے لیے تیار ہو جاؤ۔ عیسائیوں نے آپس میں مشورہ کر کے شرجیل، وغیرہ کو حضور (ص) کی خدمت میں بھیجا۔ ان لوگوں نے آ کر مذہبی امور پر بات چیت شروع کر دی، یہاں تک کہ حضرت عیسیؑ کی الوہیت ثابت کرنے میں ان لوگوں نے انتہائی بحث و تکرار سے کام لیا۔ اسی دوران وحی نازل ہوئی جس میں مباہلہ کا ذکر ہے۔
اس آیت کے نزول کے بعد نبی (ص) اپنے نواسوں امام حسن (ع) اور امام حسین (ع) اپنی بیٹی سیدہ طاہرہ جناب فاطمہ (ع) اور اپنے داماد حضرت علی (ع) کو لے کر گھر سے تشریف لائے، دوسری طرف عیسائیوں نے مشورہ کیا کہ اگر یہ نبی ہیں تو ہم ہلاک ہو جاہیں گے اور ان لوگوں نے جزیہ دینا قبول کر لیا۔
(حوالہ جات:
الزمخشری، تفسیر الکشاف، – 61 آل عمران
الرازی، التفسیر الکبیر، – 61 آل عمران
البیضاوی، تفسیر انوار التنزیل واسرار التأویل، – 61 آل عمران)
نجران کے نصارٰی اور رسول خدا (ص) کے درمیان پیش آنے والا واقعہ مباہلہ نہ صرف نبی اکرم (ص) کے اصل دعوے [ یعنی دعوت اسلام ] کی حقانیت کا ثبوت ہے بلکہ آپ (ص) کے ساتھ آنے والے افراد کی فضیلت خاصہ پر بھی دلالت کرتا ہے۔ اس کی واضح مثال سعد بن وقاص کے وہ جملے ہیں جو انھوں نے معاویہ کو جواب میں دیے تھے۔ (صحیح مسلم – حدیث ٦٢٢٠)
ہمارا سوال اہل تسنّن علماء سے یہ ہے کہ اگر ان کے خلیفہ اوّل یعنی ابوبکر واقعًا ‘صدیق اکبر’ ہوتے تو ان کو رسول الله (ص) اپنے ہمراہ کیوں نہیں لے گئے؟ مباہلہ نہ تو تیر و تلوار کی جنگ تھی اور نہ ہی علمی جنگ تھی اس میں تو صرف اپنی سچّائی ثابت کرنے کے لیے اپنے ہمراہ صدیق افراد کی صرف موجودگی درکار تھی۔ لہذا بہت مناسب تھا کہ سرور کائنات امت کے سب سے سچّے فرد کو لے جاتے (جو آنحضرتؐ نے کیا)۔ یہ سوال اس لیے بھی معقول ہے کیوں کہ “صدیق” مبالغہ کا صیغہ ہے جس کے معنی صرف سچ بولنے کے نہیں ہیں بلکہ بہت زیادہ سچ بولنے کے ہوتے ہیں.دوسرے یہ کہ قرآن کی آیت میں جو لفظ استعمال ہوا ہے وہ ‘انفسنا’ جمع کا صیغہ ہے۔ یعنی اگر ابوبکر واقعًا رسولؐ اکرم کی نظر میں صدیق ہوتے تو حقیقی ‘صدیق اکبر’ حضرت علیؑ کے ساتھ ابوبکر کو بھی اپنے ساتھ مباہلہ میں شامل کر لیتے۔ مگر آپؐ نے ایسا نہیں کیا۔ کیا اللہ اور اس کے رسول کی نظر میں ابوبکر ‘صدیق’ نہیں تھے؟؟