امام رضا علیہ السلام کی شہادت کے بعد شیعوں کی امامت کی ذمہ داری اُن کے فرزندِ ارجمند حضرت محمّد تقی الجواد ؑ کے سپرد ہوئ. اس وقت آپ کی کمسنی کا دور تھا مگر آپؑ کے کمالات اور فضائل عوام میں مشہور اور معروف تھے. اسی وجہ سے خلیفہ وقت مامون رشید نے اپنے خاندان والوں کی سخت مخالفت کے باوجود اپنی بیٹی امّ الفضل کا عقد امام جوادؑ سے کر دیا. پھر اس کے بعد مامون کے درباری علماء آپؑ کا مستقل امتحان لیتے رہے اور آپ سے مختلف موضوعات پر سوال کرتے رہے. انھیں سولات میں کچھ اہم سوال یہ تھے…..
ان سوالات میں اِن علماء نے خلیفہ اوّل اور دوّم کے متعلّق بیان کردہ روایات پر گفتگو کی ہے.
نقل ہوا ہے کہ جب مامون نے اپنی بیٹی کی شادی امام محمد تقی (علیہ السلام) سے کردی تو ایک روز مجلس میں مامون،امام اور یحیی بن اکثم اور دوسرے لوگ بیٹھے ہویے تھے، یحیی نے امام علیہ السلام سے کہا :روایت ہویی ہے کہ جبرییل ،پیغمبر اکرم (ص) کی خدمت میں پہنچے اور کہا : یا محمد ! خداوند عالم نے آپ پر سلام کیا ہے اور کہا ہے : میں ابوبکر سے راضی ہوں، اس سے پوچھو کہ کیا وہ بھی مجھ سے راضی ہے ؟ اس متعلق آپ کا نظریہ کیا ہے ؟ (١) ۔
امام نے فرمایا : میں ا بوبکر کی فضیلت کا منکر نہیں ہوں ، لیکن جس نے یہ خبر نقل کی ہے اس کو دوسری وہ خبر بھی بیان کرنا چاہیے تھی جو پیغمبر اکرم نے حجه الوداع میں بیان کی تھی ، پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے فرمایا تھا : جو بھی میرے اوپر جھوٹی تہمت لگایے گا اس کا ٹھکانا جہنم ہوگا ، لہذااگر میری کویی حدیث تمہارے سامنے پیش کی جایے تو اس کو کتاب خدا اورمیری سنت کے سامنے پیش کرو ، جو بھی کتاب خدا اور میری سنت کے مطابق ہو اس کو لے لو اور جو کچھ کتاب خدا اور میری سنت کے خلاف ہو اس کو چھوڑ دو ۔ امام محمد تقی (علیہ السلام) نے مزید فرمایا : (ابوبکر کے متعلق) یہ روایت خدا کی کتاب سے موافقت نہیں رکھتی کیونکہ خداوند عالم نے فرمایا ہے : ہم نے انسان کو خلق کیا ہے اور ہم ہی جانتے ہیں کہ اس کے دل میں کیا ہے اور ہم اپنے بندہ سے اس کی شہ رگ سے زیادہ نزدیک ہیں (٢) ۔
کیا ابوبکر کی خشنودی یا ناراضگی خدا کے اوپر پوشیدہ تھی تاکہ وہ اس کو پیغمبر اکرم (ص) سے پوچھے ؟ یہ بات عقلی طور پر محال ہے ۔
یحیی نے کہا : روایت ہویی ہے : ابوبکر اور عمر زمین پر آسمان میں جبرییل کی طرح ہیں ۔
آپ نے فرمایا : اس حدیث کے متعلق بھی غوروفکر سے کام لو کیونکہ جبرییل و میکاییل خداوندعالم کی بارگاہ میں مقرب دو فرشتہ ہیں اور ان دونوں سے کبھی بھی کویی گناہ سرزد نہیں ہوا ہے اور ایک لمحہ کے لیے بھی خدا کی اطاعت کے دایرہ سے خارج نہیں ہویے ہیں ، لیکن ابوبکر اور عمر مشرک تھے اگر چہ ظہور اسلام کے بعد مسلمان ہوگیے تھے ،لیکن ان کی اکثر و بیشتر عمر شرک اور بت پرستی میں گزری ہے اس بناء پر محال ہے کہ خداوندعالم ان دونوں کو جبرییل اور میکاییل سے تشبیہ دے ۔
یحیی نے کہا : اسی طرح روایت ہویی ہے کہ ابوبکر اور عمر اہل بہشت میں بوڑھے لوگوں کے سردار ہیں (٣) ۔ اس حدیث کے متعلق آپ کیا کہتے ہیں ؟
آپ نے فرمایا : اس روایت کا صحیح ہونا بھی محال ہے کیونکہ تمام اہل بہشت جوان ہیں اوران کے درمیان کویی ایک بھی بوڑھا نہیں ہوگا(تاکہ ابوبکر او رعمر ان کے سردار بن سکیں) اس روایت کو بنی امیہ نے پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی اس حدیث کے مقابلہ میں جعل کی ہے جو امام حسن اور امام حسین (علیہما السلام ) کے متعلق بیان ہویی ہے ،نقل ہوا ہے کہ حسن و حسین ،جوانان جنت کے سردار ہیں ۔
یحیی نے کہا : روایت ہویی ہے کہ عمر بن خطاب اہل بہشت کے چراغ ہیں ۔
آپ نے فرمایا : یہ بھی محال ہے کیونکہ بہشت میں خدا کے مقرب فرشتے، انبیاءؑ ، آدمؑ، محمدؐ اور تمام فرشتے موجود ہیں پھر کس طرح ممکن ہے کہ بہشت ان کے نور سے روشن نہ ہو لیکن عمر کے نور سے روشن ہوجایے ؟!
یحیی نے کہا : روایت ہویی ہے کہ “”سکینہ”” عمر کی زبانی باتیں کرتی ہے (عمر جو کچھ کہتا ہے وہ ملائکہ اور فرشتوں کی طرف سے کہتا ہے ) ۔
(امام علیہ السلام) نے فرمایا : میں عمر کی فضیلت کا منکر نہیں ہوں ، لیکن ابوبکر جو کہ عمر سے افضل تھے ، منبر کے اوپر کہتے تھے : میرے پاس ایک شیطان ہے جو مجھے منحرف کردیتا ہے ، لہذا تم جب بھی مجھے منحرف ہوتے ہویے دیکھو تو میرا ہاتھ پکڑ لینا ۔
یحیی نے کہا : روایت ہویی ہے کہ پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے فرمایا : اگر میں نبّوت کے لیے مبعوث نہ ہوتا تو یقینا عمر مبعوث ہوتا (٤) ۔
امام علیہ السلام نے فرمایا : یقینا کتاب خدا (قرآن کریم) اس حدیث سے زیادہ سچی اور صحیح ہے ، خداوند عالم نے اپنی کتاب میں فرمایا ہے :
(٥) ۔
اوراس وقت کو یاد کیجیے جب ہم نے تمام انبیاء( علیہم السّلام) سے اور بالخصوص آپؐ سے اور نوح (علیہ السلام)،ابراہیم (علیہ السّلام)، موسیٰ (علیہ السّلام) اور عیسٰی بن مریم (علیہما السلام) سے عہد لیا اور سب سے بہت سخت قسم کا عہد لیا ۔ اس آیت سے واضح طور پر معلوم ہو رہا ہے کہ خداوند عالم نے انبیاء سے عہد و پیمان لیا تھاپھر کس طرح ممکن ہے کہ وہ اپنے عہد و پیمان کو بدل دیتا ؟ انبیاء میں سے کسی ایک نبی نے ذرا سی دیر کے لیے بھی شرک اختیار نہیں کیا ، لہذا کس طرح ممکن ہے کہ خداوند عالم ایسے شخص کو نبّوت کے لیے مبعوث کرے جس کی عمر کا اکثر و بیشتر حصّہ خدا کے شرک میں گزرا ہو ؟! نیز پیغمبر اکرم (ص) نے فرمایا : جس وقت آدم آب و گل کے درمیان تھے (یعنی ابھی خلق نہیں ہویے تھے) میں اس وقت بھی نبی تھا ۔
یحیی نے پھر کہا : روایت ہویی ہے کہ پیغمبر اکرم (ص) نے فرمایا : کبھی بھی مجھ سے وحی قطع نہیں ہویی اور اگرقطع ہویی تو مجھے یہ خیال آیا کہ وحی خطاب (عمر کے باپ) کے گھر میں منتقل ہوگیی ہے ۔ یعنی نبوت میرے گھر سے ان کے گھر میں منتقل ہوگیی ہے ۔
آپؑ نے فرمایا : یہ بھی محال ہے کیونکہ ممکن نہیں ہے کہ پیغمبر اکرمؐ اپنی نبوت میں شک کریں ، خداوند عالم فرماتا ہے : خداوند فرشتوں اور اسی طرح انسانوں کے درمیان سے انبیاء کا انتخاب کرتا ہے (٦) ۔ (اس بناء پر خدا کے انتخاب کے بعد پیغمبر اکرم (ص) کے لیے کویی شک و شبہ باقی نہیں رہ جاتا) ۔
یحیی نے کہا : روایت میں ذکر ہوا ہے کہ پیغمبر اکرم (ص) نے فرمایا : اگر عذاب نازل ہوتا تو عمر کے علاوہ کسی اور کو نجات نہ ملتی ۔
امام علیہ السلام نے فرمایا : یہ بھی محال ہے کیونکہ خداوند عالم نے پیغمبر اکرم (ص) سے فرمایا ہے : جب تک تم ان کے درمیان ہو اس وقت تک خداوندعالم ان پر عذاب نہیں کرے گا اور جب تک یہ استغفار کرتے رہیں گے اس وقت تک ان پر عذاب نہیں ہوگا (٧) ۔ اس وجہ سے جب تک پیغمبر اکرم (ص) ان کے درمیان ہیں اور جب تک استغفار کرتے رہیںگے ، خدا ان پر عذاب نازل نہیں کرے گا (٨) ۔(٩) ۔
حوالہ جات:
١۔ علامہ امینی نے کتاب الغدیر (جلد ٥، صفحہ ٣٢١) میں لکھا ہے : یہ حدیث جھوٹی ہے اور محمد بن بابشاذ کی جعلی حدیثوں میں سے ایک جعلی حدیث ہے ۔
٢۔
٣۔ علامہ امینی نے اس حدیث کو یحیی بن عنبسہ کی گڑھی ہوئی بیان کی ہے اور یہ حدیث قابل قبول نہیں ہے کیونکہ یحیی بن عنبسہ کو حدیث کا جعل کرنے والا اور جھوٹا کہا گیا ہے ،اس کو معلوم الحال اور اسکی احادیث کو مردود کہا گیا ہے (میزان الاعتدال، الطبعة الاولی، تحقیق : علی محمد البجاوی، دار احیاء الکتب العربیة، ١٣٨٢ھ.ق. ، جلد ٤، صفحہ ٤٠٠ ۔
٤۔ علامہ امینی نے ثابت کردیا ہے کہ اس حدیث کے راوی جھوٹے ہیں (الغدیر ، جلد ٥، صفحہ ٣١٢ و ٣١٦) ۔
٥۔ سورہ احزاب، آیت ٧۔
٦۔
۷۔
۸۔ طبرسى، احتجاج، نجف، المطبعه المرتضويه، ۱۳۵۰ه”.ق، ج ۲، ص ۲۴۷-۲۴۸ – مجلسى، بحار الأنوار، الطبعه الثانيه – تهران، المكتبه الاسلاميه، ۱۳۹۵ ه”.ق، ج ۵۰، ص ۸۰-۸۳قرشى، سيد على اكبر، خاندان وحى، چاپ اول، تہران، دار الكتب الاسلاميه، ۱۳۶۸ ه”.ش، ص۶۴۴-۶۴۷- مقرّم، سيد عبدالرزاق، نگاہى گذرا بر زندگانى امام جواد – عليه السلام -، ترجمه دكتر پرويز لولاور، مشہد، بنياد پژوہشہاى اسلامى آستان قدس رضوى، ۱۳۷۰ه”.ش، ص ۹۸-۱۰۰.
۹۔ گرد آوری از کتاب: سیره پیشوایان، مهدی پیشوائی، ص ۵۵۱