ہشام بن حکم کا متکلمین سے مناظرہ

ایک مرتبہ ہارون رشید نے اپنے ایک مشیر جعفر بن یحیی برمکی سے کہا کہ میں چاہتا ہوں کہ چھپ کر متکلمین کی باتیں سنو تاکہ وہ کھل کر اپنے دلائل پیش کریں اور جیسے چاہیں آپس میں مباحثہ کریں (تاکہ میں ان کی حقیقت سے واقف ہو سکوں)۔ پس جعفر نے تمام متکلمین کو اپنے گھر پر حاضر ہونے کا حکم دیا۔ سارے متکلمین تعمیل حکم کیلئے جعفر کے گھر پہونچ گئے، ہارون بھی اس مجلس میں پہلے سے ہی پردے کے پیچھے اس طرح بیٹھ گیا کہ حاضرین اس کو نہ دیکھ سکیں جبکہ وہ ان سب کی باتوں کو پوری طرح سے سن سکے۔ لوگ ہشام بن حکم کا انتظار کر رہی رہے تھے کہ ہشام داخل ہوئے اور جعفر کو خصوصی سلام کرنے کے بجائے تمام حاضرین کو مخاطب کر کے سلام کیا پہر اپنی جگہ پر بیٹھ گئے۔

گفتگو شروع ہوتے ہی ان میں سے ایک شخص نے ہشام سے سوال کیا:”تم علیؑ کو خلیفہ پر کس طرح فضیلت دے سکتے ہو جبکہ قرآن میں ان کے بارے میں آیت ہے کہ (ثانی اثنین اذ ھما فی الغار اذ یقول لصاحبہ لا تحزن ان اللہ معنا) وہ غار میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ساتھی تھے اور ان کے لیے رسولؐ اللہ نے ارشاد فرمایا غم نہ کرو اللہ ہمارے ساتھ ہے” اس پر ہشام نے سوال کیا:”یہ بتاو کہ اس وقت ابوبکر کا حزن اللہ کی رضا کے لیے تھا یا کسی اور وجہ سے تھا؟” وہ شخص لا جواب تھا اور خاموش رہا۔ ہشام نے بات جاری رکہتےہوئے کہا:”اگر ان کا محزون ہونا اللہ کی رضا کے لیے تھا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ نے انھیں “لا تحزن” کہہ کر اس حزن سے کیوں روکا؟ اور اگر یہ حزن خدا کی رضا کے لیے نہیں تھا تو پھر یہ کوئ مفاخرے یا فضیلت کی بات ہی نہیں ہے۔ تم جانتے ہو نہ کہ اللہ کا فرمان ہے۔ ‘فانزل اللہ سکینتہ علی رسولہ وعلی الموءمنین’۔ ‘پھر اللہ نے اپنے رسول پر اور مومنوں پر سکینہ نازل فرمایا ہے’ ، جبکہ اس آیت میں سکینہ صرف رسولؐ پر ہی نازل ہونے کی بات آئ ہے۔ جس رسولؐ کے ساتھی پر اللہ سکینہ نہیں نازل کرتا وہ فضیلت کا کیسے حامل ہو سکتا ہے؟”

اس کے علاوہ یہ قول رسولؐ جو عوام کی زبان پر ہے اور جس کی تصدیق تم بھی کرتے ہو اور ہم بھی کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا۔”جنت چار افراد کی مشتاق ہے- علی ابن ابی طالبؑ، مقداد بن الاسود، عمار بن یاسر اور ابوذر۔” اس فضیلت میں ہم دیکھتے ہیں کہ ہمارے مولا شامل ہیں جبکہ تمھارے خلیفہ شامل نہیں ہیں اس لیے ہم علیؑ کو ان سے افضل مانتے ہیں۔

اور یہ بھی مشہور ہے جس کی تم بھی تصدیق کرتے ہو کہ اسلام کے بچانے والے مجاہد چار اشخاص ہیں۔ علی ابن ابی طالبؑ، زبیر بن عوام،ابو دجانہ الانصاری اور سلمان فارسی۔ اس فضیلت میں بھی ہم دیکھتے ہیں کہ ہمارے مولا شامل ہیں جبکہ تمہارے خلیفہ کا اس میں نام نہیں ہے۔ اس لیے ہم علی ابن ابی طالب ع تمہارے خلیفہ سے افضل سمجھتے ہیں۔

اور اس بات کی بھی شہرت ہے اور ہم دونوں اس کی تصدیق کرتے ہیں کہ قرآن کے قاری چار اشخاص ہیں۔ علی ابن ابی طالبؑ، عبد اللہ ابن مسعود، ابی بن کعب اور زید بن ثابت۔ اس فضیلت میں بھی ہم دیکھتے ہیں کہ ہمارے مولا شامل ہیں جبکہ تمہارے خلیفہ کا اس میں نام نہیں ہے۔ اس لیے ہم ان کو تمہارے خلیفہ سے افضل سمجھتے ہیں۔

لوگوں میں یہ بھی مشہور ہے اور ہم دونوں اس کی تصدیق کرتے ہیں کہ مطہرین چار اشخاص ہیں۔ علی ابن ابی طالبؑ، فاطمہؑ، حسنؑ اور حسینؑ۔ اس فضیلت میں بھی ہم دیکھتے ہیں کہ ہمارے مولا شامل ہیں جبکہ تمہارے خلیفہ کا اس میں نام نہیں ہے۔ اس لیے ہم ان کو تمہارے خلیفہ سے افضل سمجھتے ہیں۔

عوام میں یہ بات بھی مشہور ہے اور ہم سب اس کی تصدیق کرتے ہیں کہ ابرار چار اشخاص ہیں۔ علی ابن ابی طالبؑ، فاطمہؑ، حسنؑ اور حسینؑ۔ اس فضیلت میں بھی ہم دیکھتے ہیں کہ ہمارے مولا کا نام ہے جبکہ تمہارے خلیفہ کا اس میں نام نہیں ہے۔ اس لیے ہم ان کو تمہارے خلیفہ سے افضل سمجھتے ہیں۔

یہ بات بھی شہرت کی حامل ہے اور ہم دونوں اس کی تصدیق کرتے ہیں کہ شہداء چار اشخاص ہیں۔ علی ابن ابی طالبؑ، جعفر طیار، حمزہ اور عبیدہ بن حارث بن عبد المطلب۔ اس فضیلت میں بھی ہم دیکھتے ہیں کہ ہمارے مولا علیؑ شامل ہیں جبکہ تمہارے خلیفہ کا اس میں نام نہیں ہے۔ اس لیے ہم ان کو تمہارے خلیفہ سے افضل سمجھتے ہیں۔”
یہ سن کر ہارون تلملا گیا اور پردے سے باہر آگیا۔ اس نے تمام لوگوں کو اور جعفر کو وہاں سے باہر جانے کا حکم دیا اور اس نے ہشام کے بارے میں سوال کیا کہ یہ کون شخص ہے؟؟ اس کا ارادہ تھا کہ ہشام کو قتل کردے۔

مگر حکومت وقت کو کیا خبر کہ یہ ہشام ہیں جنکی تائید ونصرت خدائے قادر و توانا کر رہا ہے اور وہ دشمن کے دربار میں ہی حق کو آشکار کرتا ہے۔