قبورِ معصومینؑ کی زیارت کا ثواب حج و عمرہ کے ثواب سے زیادہ کیونکر ہے؟ (دوسری قسط)

عَنْ صَالِحٍ النِّیلِیِّ قَالَ قَالَ أَبُو عَبْدِ الله علیه السلام مَنْ أَتَی قَبْرَ الْحُسَیْنِ علیه السلام عَارِفاً بِحَقِّهِ کَانَ کَمَنْ حَجَّ مِائَةَ حِجَّةٍ مَعَ رَسُولِ الله (ص) (کامل الزیارات، ص162).
امام جعفر صادق (ع) کا ارشاد ہے، “جو بھی (ہمارے جد امام) حسینؑ کی حقیقی معرفت کے ساتھ ان کے روضہء مبارک کی زیارت کرے گا، اس کو رسول خدا (ص) کے ساتھ سو (١٠٠) حج ادا کرنے کا ثواب ملے گا۔”

اس روایت میں زائرِ امام حسینؑ کے لیے سو(١٠٠) حج کا ثواب بیان کیا گیا ہے۔ اسی طرح کی دیگر روایتوں میں سیدالشہداء (ع) کی قبر مطہر کی زیارت کا ثواب ٢٠ یا ٨٠ حج کے برابر مذکور ہے۔ ان روایات سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ معصومینؑ کی زیارت کا ثواب حج ادا کرنے کے ثواب سے کہیں زیادہ ہے. ان روایات کے رموز کو جہاں غیر شیعہ افراد درک نہیں کر پاتے اور اعتراض کر بیٹھتے ہیں وہیں اب کچھ شیعہ مقررین بھی زیارت کے ثواب کو حج کے ثواب سے زیادہ ہونے کو سمجھ نہیں پاتے۔ نتیجتاً وہ ان تمام روایات کا انکار کر دیتے ہیں۔ اس مضمون میں ہم اس شبہ کا جواب دیں گے تاکہ پڑھنے والے محترم قارئین اس فلسفے کو سمجھ لیں کہ آخر کیوں زائرِ قبرِ امامؑ کے لیے کئ کئ حج کے ثواب کا تعین کیا گیا ہے؟

اس سے پہلے کہ ہم جواب کی طرف رخ کریں یہ واضح کر دینا ضروری سمجھتے ہیں کہ شریعت میں واجب اعمال کی اپنی اہمیت ہے۔ ان کی کمی کو کسی مستحب عمل کی ادائیگی پوری نہیں کر سکتی۔ اگر کسی صاحبِ استطاعت پر حج واجب ہوا ہے تو اس کا زیارت کرنا حج کی عدمِ ادائیگی کی تلافی نہیں کرے گا۔ اس کو اپنے واجب حج کو بہرحال انجام دینا ہوگا۔ کسی بھی روایت میں واجب فعل کا مقائسہ کسی مستحب فعل سے نہیں کیا گیا۔ موازنہ ہمیشہ ایک مستحب عمل کا کسی دوسرے مستحب عمل ہی سے ہوتا ہے۔ لہٰذا ان روایتوں میں بھی زیارت کا مقائسہ مستحب حج سے ہوا ہے. اس بات کی دلیل امام علی رضا (ع) کی یہ روایت ہے:
مَنْ زَارَ قَبْرَ الْحُسَیْنِ علیه السلام فَقَدْ حَجَّ وَ اعْتَمَرَ قَالَ قُلْتُ یَطْرَحُ عَنْهُ حِجَّةَ الْإِسْلَامِ قَالَ لَا هِیَ حِجَّةُ الضَّعِیفِ حَتَّی یَقْوَی وَ یَحُجَّ إِلَی بَیْتِ الله الْحَرَامِ (کامل الزیارات، ص١۵٩)
مختصر یہ کہ واجب حج پر زیارت کو ترجیح نہیں حاصل ہے، مستحب حج پر زیارت کو ترجیح دی گئ ہے۔ لہٰذا مقائسہ جب بھی ہوگا دو مستحب عمل کے درمیان ہوگا۔البتہ مقائسہ کوئی ضروری بھی نہیں ہے۔

اب ہم ان وجوہات کی طرف رخ کرتے ہیں جن کی بنا پر زیارتِ قبرِ امامؑ کرنے پر حج کا ثواب بتایا گیا ہے۔

پہلی وجہ : کسی بھی عمل کا ثواب یا جزا صرف اس عمل کی بنا پر نہیں ہوتا بلکہ عمل انجام دینے والے شخص کی روحانیت پر اس عمل کا کتنا اثر ہوتا ہے اس پر منحصر ہوتا ہے۔ یہ ایک غلط فہمی ہے کہ ان روایات میں زیارت کے عمل کا مقائسہ حج کے عمل سے کیا گیا ہے. حقیقت تو یہ ہے کہ یہ مقائسہ مومن کی روح پر حج سے پیدا ہونے والے اثر کا اور زیارت سے پیدا ہونے والے اثر کا ہے. یقیناً مومن کی روح پر زیارتِ قبرِ ابا عبد اللہ الحسینؑ، حج سے کہیں زیادہ اپنا اثر چھوڑتی ہے۔ اتنا ہی نہیں، زیارت کرنے والے کو جو روحانی غذا یا تقویت زیارت کرنے سے حاصل ہوتی ہے وہ حج یا عمرہ کرنے والے کو حاصل نہیں ہوتی۔

دوسری وجہ: یاد رہے اس مضمون میں ہم شیعہ نقطہ نظر سے گفتگو کر رہے ہیں۔ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ تمام شیعہ، ائمہؑ کی قبرِ مطہر پر اس امام کی موجودگی اور نورانیت کے قائل ہیں۔ لہذا جب کوئ مومن کسی امامؑ کی زیارت کے لیے جاتا ہے تو وہ یقینی طور پر اس امام کی میزبانی کا شرف حاصل کرتا ہے۔ اس امام معصومؑ کی نورانی بارگاہ سے اس کی روح فیضیاب ہوتی ہے جبکہ حج یا عمرہ میں ایسا کم ہوتا ہے۔ چوں کہ ایک مومن کی روح امام کی نورانی بارگاہ سے جو برکت حاصل کر لیتی ہے وہ کئ حج سے برکت حاصل کرنے کے برابر ہے اس لیے زیارت کا ثواب بھی اسی مقدار میں زیادہ ہوجاتا ہے۔

تیسری وجہ : حالانکہ حج واجب ہے مگر زیارت کا عمل بھی قرآن کے عائد کیے ہوئے فریضہٴ ‘ادائے اجرِ رسالت’ کے ہی ضمن میں آتا ہے۔ در اصل زیارتِ قبورِ ائمہؑ، رسول اکرم (ص) کے ساتھ صلہ رحمی کرنے کے مترادف ہے.
وَالَّذِينَ يَصِلُونَ مَا أَمَرَ اللَّهُ بِهِ أَنْ يُوصَلَ وَيَخْشَوْنَ رَبَّهُمْ وَيَخَافُونَ سُوءَ الْحِسَابِ (سوره الرعد :٢١)
( ترجمہ: جو افراد ان سے صلہ رحمی کرتے ہیں جن سے صلہ رحمی کرنے کا حکم الله نے دیا ہے ….)
اس آیت کی تفسیر میں امام جعفر صادق (ع) فرماتے ہیں کہ اس سے رسول اللہ (ص) کے ساتھ صلہ رحمی کرنا مراد ہے…. (تفسیر برہان)۔ ہر شخص جو زیارتِ معصوم کے لیے جاتا ہے وہ اظہار مودت کے ساتھ ساتھ پیغمبر اسلام (ص) کے ساتھ صلہ رحمی کے فریضے کو بھی انجام دیتا ہے۔ یقینا اجرِ رسالت کا ادا کرنا حج کے ادا کرنے سے بڑا فریضہ ہے۔

چوتھی وجہ :
امام محمد باقر علیه السلام کا ارشاد ہے: «تَمَامُ الْحَجِ لِقَاءُ الْإِمَامِ» (علل الشرایع ج ٢ ص ۴۵٩) یعنی “حج، امام کی ملاقت سے کامل ہوتا ہے.”
اس حدیث کو سمجھنے کے لیے امام محمد باقر (ع) کے اس قول پر توجہ فرمائیے۔
نَظَرَ إِلَی النَّاسِ یَطُوفُونَ حَوْلَ الْکَعْبَةِ فَقَالَ هَکَذَا کَانُوا یَطُوفُونَ فِی الْجَاهِلِیَّةِ إِنَّمَا أُمِرُوا أَنْ یَطُوفُوا بِهَا ثُمَّ یَنْفِرُوا إِلَیْنَا فَیُعْلِمُونَا وَلَایَتَهُمْ وَ مَوَدَّتَهُمْ وَ یَعْرِضُوا عَلَیْنَا نُصْرَتَهُمْ ثُمَّ قَرَأَ هَذِهِ الْآیَةَ: (فَاجْعَلْ أَفْئِدَةً مِنَ النَّاسِ تَهْوِی إِلَیْهِمْ) (الکافی، ج1، ص392, تفسیر البرھان ج ٣ ص ٣١٣).

ایک مرتبہ حج کے موسم میں جب امام محمد باقرؑ نے لوگوں کو طوافِ کعبہ کرتے ہوئے دیکھا تو آپؑ نے ارشاد فرمایا: “اس طرح تو یہ لوگ دور جاہلیت (اسلام سے پہلے کا زمانہ) میں طواف کرتے (ہی) تھے۔ اسلام نے ان کو حکم دیا ہے کہ یہ طواف کے بعد ہمارے (اہلبیتؑ کے) پاس آئیں تاکہ وہ اپنی ولایت اور مودت کو ہمارے سامنے پیش کریں اور ہماری نصرت کے لیے آمادہ رہیں۔ پھر حضرتؑ نے اس آیت کی تلاوت فرمائ :’فَاجْعَلْ أَفْئِدَةً مِنَ النَّاسِ تَهْوِی إِلَیْهِمْ’ یعنی’..تاکہ تو (اللہ) لوگوں کے دلوں کو ان (اہلبیتؑ) کی طرف مائل کردے۔’

اس روایت سے پورے طور پر ظاہر ہوجاتا ہے کہ حج کی قبولیت کے لیے ولایتِ اہلبیتؑ ایک اہم شرط ہے۔ حج ہی نہیں بلکہ جتنا زیادہ مومن کی ولایت قوی ہوگی اتنا زیادہ اس کے اعمال کا ثواب بھی ہوگا. جبکہ زیارت وہ عمل ہے جو اس ولایت کو تقویت بخشتا ہے۔ زیارت سے ولایت کو قوت ملتی ہے اور ولایت سے حج کے ثواب میں اضافہ ہوتا ہے اس لیے زیارت کا ثواب کئ حج کے برابر ہو جاتا ہے۔

آخر میں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ حج کے ارکان جناب ابراہیمؑ ، ان کی اہلیہ اور ان کے فرزند اسماعیلؑ کے خلوص کی یاد دہانی ہیں جن میں اہم رکن جناب اسماعیلؑ کی قربانی شامل ہے۔ حج کے بعض ارکان خواب ابراہیمیؑ کی تعبیر ہیں جس میں خدا کے فضل و کرم سے ایک نبیؑ کا بیٹا ذبح ہونے سے بچ گیا تھا وہیں کربلا اسی قربانی کی حقیقت ہے۔ قرآن نے شہادتِ حسینؑ کو ‘ذبحِ عظیم’ کہا ہے جو جناب ابراہیمؑ کی قربانی کا بدل ہے۔ منی کے میدان میں ایک نبی کا بیٹا بچالیا گیا تو وہیں میدان کربلا میں مرسل اعظم (ص) کا نواسہ ذبح کیا گیا اور سرزمینِ کربلا اس کا مدفن بنا۔ جس طرح امام حسینؑ کی شہادت ، جناب ابراہیمؑ و اسماعیلؑ کی قربانی سے کئ گنا افضل ہے اسی طرح کربلا کی زیارت بھی حج کرنے سے کئ گنا زیادہ ثواب رکھتی ہیں۔

“طوافِ کعبہ میں مشغول رہ گئے حاجی،
بہت قریب سے گزری نجات کی کشتی۔”

سنہ دس ہجری میں امام حسینؑ نے مکہ میں حج کو ترک کیا اور کربلا بس لیا۔