قرآن میں انبیاء کی میراث

اس میں کوئ تعجّب کی بات نہیں کہ بچّوں کو ان کے مرحوم والدین کی میراث ملتی ہے۔ یہ ہر سماج میں، ہر زمانے میں اور ہر مذہب میں پایا جانے والا دستور ہے۔ یہ اصول، منطقی اعتبار سے بھی صحیح ہے۔ مرحوم کے مال و اسباب میں نہ صرف یہ کہ صرف بچّوں کا بلکہ اس کی زوجہ کا اور مختلف صورتوں میں رشتہ داروں کا بھی حق ہوتا ہے۔ یہ ایک قرآنی حکم بھی ہے۔ قرآن نے تقسیم میراث کے موضوع پر ایک تفصیلی بحث کی ہے۔ غور طلب ہے کہ قرآن میں نماز جیسی اہم ترین عبادت کی کوئ تفصیل نہیں ملتی- نماز کی ادائیگی کا طریقہ، نماز میں رکعتوں کی تعداد، کون سا ذکر کب اور کتنا پڑھنا ہے، رکوع کتنے، سجدے کتنے کچھ بھی نہیں موجود ہے۔ مگر میراث کے مسئلہ پر قرآن میں تفصیلات موجود ہیں۔
سوره النساء آیت:11

يُوصِيكُمُ اللَّهُ فِي أَوْلَادِكُمْ لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنْثَيَيْنِ فَإِنْ كُنَّ نِسَاءً فَوْقَ اثْنَتَيْنِ فَلَهُنَّ ثُلُثَا مَا تَرَكَ وَإِنْ كَانَتْ وَاحِدَةً فَلَهَا النِّصْفُ وَلِأَبَوَيْهِ لِكُلِّ وَاحِدٍ مِنْهُمَا السُّدُسُ مِمَّا تَرَكَ إِنْ كَانَ لَهُ وَلَدٌ فَإِنْ لَمْ يَكُنْ لَهُ وَلَدٌ وَوَرِثَهُ أَبَوَاهُ فَلِأُمِّهِ الثُّلُثُ فَإِنْ كَانَ لَهُ إِخْوَةٌ فَلِأُمِّهِ السُّدُسُ مِنْ بَعْدِ وَصِيَّةٍ يُوصِي بِهَا أَوْ دَيْنٍ آبَاؤُكُمْ وَأَبْنَاؤُكُمْ لَا تَدْرُونَ أَيُّهُمْ أَقْرَبُ لَكُمْ نَفْعًا فَرِيضَةً مِنَ اللَّهِ إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلِيمًا حَكِيمًا۔

اس واضح اور محکم قرآنی آیت کی موجودگی کے باوجود خلیفئہ اوّل اور حاکم وقت نے دختر رسولؐ جناب فاطمہؐ سلام الله علیها کو ان کی میراث سے محروم کردیا۔ بعد وفاتِ رسولؐ، امّت نے جو آلِ محمّدؐ پر ستم کیے ان میں سے ایک یہ بھی تھا کہ ان کی ملکیّت باغ فدک ،جو انھیں خیبر کے خمس کے طور پر ملا تھا ان سے چھین لیا گیا- جب جنابِ سیّدہؑ علیها سلام اپنے اس حق کو طلب کرنے کے لیے گئیں تو ان کو منع کردیا گیا اور ایک جھوٹے قول کو رسولؐ الله کی طرف منسوب کردیا کہ آپؐ نے فرمایا ہے کہ ‘ہم گروہ انبیاء میراث نہیں چھوڑتے، جو بھی ہمارا مالِ دنیا ہوتا ہے وہ امّت کے لیے صدقہ ہوتا ہے’۔ اس کے جواب میں صدیّقہ طاہرہ جناب فاطمہؑ زہراء سلام الله علیها نےقرآن کی ان آیتوں کو بیان کیا جس میں انبیاء علیہم السّلام کی میراث کا ذکر ہے۔ ان پر تبصرہ کرنے سے پہلے ایک اور شبہہ کا ازالہ ضروری ہے- اہل تسنّن ابوبکر کی دفاع میں یہ کہتے ہیں کہ انبیاء کی میراث ان کا علم اور ان کی تعلیمات ہوتی ہے اور ان آیات میں میراث سے مراد علم و حکمت ہے۔ اس کا ایک سیدھا سا جواب یہ ہے کہ اگر ایسا ہوتا تو جنابِ فاطمہؐ ان آیات کو بطورِ استدلال استعمال نہ کرتیں۔ دوسرے یہ کہ خود ابوبکر نے بھی ان کو اس بات کی طرف متوجہ نہ کیا کہ یہ میراث انبیاء میراث علم و حکمت ہے ورنہ وہ اسی وقت کہہ سکتے تھے کہ آپؐ سے مغالطہ ہوا ہے،مگر روایات بتاتی ہیں کہ انہوں نے ان کے ان دلائل کو اس طرح رد نہیں کیا۔ اس لیےان آیات میں جو میراث کا ذکر ہے وہ نہ علم و حکمت ہے اور نہ ہی ان کی تعلیمات ہیں بلکہ یقینی طور پر یہ میراث دنیوی مال و اسباب ہیں۔ مثلاً
سوره النمل:16

وَوَرِثَ سُلَيْمَانُ دَاوُودَ وَقَالَ يَا أَيُّهَا النَّاسُ عُلِّمْنَا مَنْطِقَ الطَّيْرِ وَأُوتِينَا مِنْ كُلِّ شَيْءٍ إِنَّ هَذَا لَهُوَ الْفَضْلُ الْمُبِينُ

سلیمان کو داود کی وراثت ملی اور انہوں نے کہا: اے لوگو!ہمیں پرندوں کی زبان کا علم ملا ہےاور ہمیں ہر شئے میں سے کچھ نہ کچھ حصّہ ملا ہے یقینًا یہ اس کا ہم پر واضح فضل ہے۔
جناب داودؑ جب اس فانی دنیا سے رخصت ہوئے تو آپ ایک حکومت کے بادشاہ تھے۔ الله نے اس حکومت کا ان کے فرزند جناب سلیمانؑ کو میراث میں ملنے کا ذکر کیا ہے۔ اس آیت میں جس وراثت کا ذکر آیا ہے وہ وراثت یقینی طور پر حکومت داود ہی ہے کیونکہ پرندوں کی زبان کو سمجھنا خدا داد صلاحیت اور علم ہے جو میراث میں منتقل نہیں ہوتا۔
اسی طرح سورہ مریم کی ابتدائ آیات میں جناب زکریاؑ کا قصّہ بیان ہوا ہےکہ آپ نے کس طرح الله سے اپنے لیے اولاد کی دعا کی جو آپؑ کے مال و متاع کا وارث بنے۔

يَرِثُنِي وَيَرِثُ مِنْ آلِ يَعْقُوبَ وَاجْعَلْهُ رَبِّ رَضِيًّا [مریم :6]

(پروردگار) مجھے ایسا فرزند عطا کر جس سے تو راضی ہو اور جو میرا اور آلِ یعقوب کا وارث بنے۔
اس آیت میں جناب زکریاؑ اپنے لیے ایک وارث طلب کر رہے ہیں اس لیے کہ وہ ان کی اور ان کی آبائ جائداد کا وارث بنے۔ یہ نتیجہ اس لیے نکالا جا سکتا ہے کیونکہ اس سے پہلے والی آیت میں ملتا ہے۔

وَإِنِّي خِفْتُ الْمَوَالِيَ مِنْ وَرَائِي وَكَانَتِ امْرَأَتِي عَاقِرًا فَهَبْ لِي مِنْ لَدُنْكَ وَلِيًّا۔ [مریم:5]

میں اپنے بعد اپنے اموال کے بارے میں ڈرتا ہوں اور میری زوجہ بچّہ پیدا کرنے کی حالت میں نہیں ہے پس تو مجھے ایک فرزند عطا کر(جو میرا وارث بنے۔)
ان دو واقعاتِ انبیاء سے اور اس میں موجود قرآنی آیات سے یہ ثابت ہوجاتا ہے کہ انبیاء کی اولاد کا ان کے والد کی میراث پر حق ہوتا ہے۔ان کے اس حق کا اور ان کی میراث کا خدا نے وضاحت سے ذکر بھی کیا ہے۔ اس طرح حدیث “لانورث” قرآن کی آیات کے بالکل خلاف ہے اور ایک منگھڑت روایت سے زیادہ کچھ نہیں ہے۔